تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-07-2018

عبدالقدوس بزنجو، صادق سنجرانی اور مولوی اللہ بچایا

میں ملبورن میں اپنی منجھلی بیٹی کے پاس ہوں۔ اس نے یہاں سے ''کنسٹرکشن مینجمنٹ‘‘ میں ایم ایس کیا ہے۔ اس کی اگلے ہفتے گریجوایشن کی تقریب ہے۔ اس نے یہ امتحان بڑے امتیاز کے ساتھ یعنی Distiction کے ساتھ پاس کیا ہے اور اس کی خواہش تھی کہ جب وہ ڈگری وصول کرے‘ میں ہال میں موجود ہوں۔ سو میں یہاں آسٹریلیا میں ہوں اور اس کی گریجوایشن کی تقریب کا منتظر ہوں۔
میرے چاروں بچوں میں یہ واحد بچہ ہے جسے اردو ادب سے، شاعری سے اور سیاست سے دلچسپی ہے۔ بلکہ جب یہ پاکستان میں ہوتی تھی تو خاندان کے سب بچوں کی سیاسی گرو تھی۔ ملتان میں ہونے والے عمران خان کے جلسے میں خاندان بھر کے بچوں کو‘ بشمول پانچ سالہ فاطمہ‘ لے کر پہنچ گئی تھی۔ میں تب برطانیہ میں تھا اور جلسہ کے اختتام پر ایک افسوسناک واقعہ پیش آ گیا تھا‘ جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ مجھے اس کی اطلاع ملی تو پریشانی میں اسے فون کرنا چاہا مگر اس کا فون بند تھا۔ عجب اتفاق تھا کہ ان چند منٹوں میں جسے بھی فون کیا اسی کا فون بند ملا۔ یہ پریشانی والے چند منٹ گھنٹوں پر محیط تھے۔ خاندان کے سارے بچے اس کے سیاسی طور پر مرید تھے۔ اس کے پاکستان سے چلے جانے کے بعد یا تو وہ سیاسی طور پر خود مختار ہو گئے ہیں یا سیاست سے لا تعلق ہو گئے ہیں۔ لا تعلق ہونے والوں کی تعداد خود مختار ہو جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔
سیاسی طور پر سب سے لا علم میری بڑی بیٹی تھی۔ وہ 2005ء میں کراچی گئی اور چھ سال تک وہاں آغا خان میڈیکل کالج میں زیر تعلیم رہی۔ پانچ سال ایم بی بی ایس کے اور ایک سال ہائوس جاب کا۔ اس دوران کبھی کبھار میں اسے تنگ کرنے کے لیے پوچھ لیتا کہ سندھ کا گورنر کون ہے۔ یہ بڑا ہی آسان سوال تھا۔ سندھ میں یہ گورنر عشرت العباد کی طویل گورنری کا دور تھا۔ عشرت العباد اس کے کراچی پہنچنے سے کوئی تین سال پہلے 2002ء میں گورنر بنا اور اس کی ساری تعلیم یعنی 2005ء سے 2011ء تک بلکہ اس کے بھی پانچ سال بعد 2016ء تک سندھ کا گورنر رہا‘ مگر مجال ہے کہ میری بیٹی نے آج تک سندھ کے گورنر یا کسی وزیر اعلیٰ کا نام درست بتایا ہو۔ اسے صرف اس دوران صدر پرویز مشرف کا نام یاد رہا۔ اسے شوکت عزیز وغیرہ کے نام کا بھی علم نہیں تھا اور قائم علی شاہ وغیرہ تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں تھے۔ اسے اخبار وغیرہ سے قطعاً دلچسپی نہیں تھی۔ کبھی کبھار وہ میرا ایسا کوئی کالم 'آدھا پَچادا‘ پڑھ لیتی تھی جو اسے فیس بک وغیرہ پر کوئی بھیج دیتا تھا‘ ورنہ وہ فیس بک وغیرہ بھی بہت کم دیکھتی تھی۔ اس کی ساری دلچسپی صرف پڑھائی میں تھی۔
اب آسٹریلیا آیا ہوں تو گزشتہ تین چار دن سے وقتاً فوقتاً منجھلی بیٹی سارہ سے ملکی صورتحال پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ اس کی دبی ہوئی سیاسی رگ پھر سے پھڑک اٹھی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ اس دوران وہ پاکستان کی سیاست سے بالکل کٹی رہی ہو۔ اپنے لیپ ٹاپ پر پاکستانی نیوز چینلز پر خبریں دیکھنا اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اپ ڈیٹ رہنا اس کا یہاں بھی وتیرہ رہا ہے۔ وولنگانگ (WOLLONGONG) یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ اپنی رہائش کے ارد گرد رہنے والی پاکستانی فیملیز کے GET TOGETHER میں پاکستانی سیاست سے آگاہی کا ثبوت دیتی رہتی تھی اور اپنی رائے کے حوالے سے اس کی خاصی اہمیت تھی۔
اس نے یہاں بھی مجھ سے وہی سوال پوچھا جو وہ پاکستان میں پہلے کئی بار مجھ سے پوچھ چکی ہے؛ تاہم وہ کبھی بھی مجھ سے اپنی مرضی کا جواب نہیں لے سکی۔ اس بار وہ بہت پُرامید تھی کہ اسے وہ جواب ملے گا جو وہ سننا چاہتی ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا: بابا جان! اس الیکشن میں کون جیتے گا؟ میں نے اسے تنگ کرنے کے لیے کہا: بیٹا یہ کون سا مشکل سوال ہے؟ وہی جیتے گا جسے ووٹ زیادہ ملیں گے۔ وہ سمجھ گئی کہ میں اسے تنگ کر رہا ہوں۔ پوچھنے لگی: ووٹ کسے زیادہ ملیں گے؟ میں نے کہا: ہر حلقے میں مختلف امیدوار ہیں‘ اب کیا پتا کسے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ وہ کہنے لگی: میرا مطلب آپ سمجھ تو گئے ہیں مگر صرف مجھے گھما پھرا رہے ہیں۔ میرا مطلب امیدواروں سے نہیں، پارٹی سے ہے۔ میرا مطلب ہے کون سی پارٹی جیتے گی؟ میں نے کہا: ایمانداری کی بات یہ ہے کہ آج بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کونسی پارٹی اکثریت لے گی‘ ابھی چند ہفتے پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ لگتا تھا پاکستان کی تاریخ کی سب سے معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ گزشتہ دو تین ہفتوں میں صورتحال تمہاری پارٹی کے حق میں جاتی نظر آئی ہے‘ لیکن اگلے ایک دو ہفتے بہت اہم ہیں۔ عوام کس کا بیانیہ قبول کرتے یا مسترد کرتے ہیں‘ یہ بڑا اہم ہے۔ ابھی الیکشن کی ہوا نہیں چلی۔ اگر یہ ہوا چل نکلی تو اس کا بڑا اہم رول ہو گا کہ کس کے حق میں چلتی ہے۔ جیل والوں کے حق میں چلتی ہے یا باہر والوں کے حق میں؛ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ جیل والوں کا بیانیہ کچھ زیادہ قابل قبول نہیں رہے گا۔ جیپ والوں کی تعداد الیکشن میں امیدواروں کے حوالے سے تو اب نہیں بڑھے گی لیکن پارٹی کی نظریاتی کیفیت کے حوالے سے جیپ والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
میری بیٹی نے بڑی حیرانی سے پوچھا: یہ جیپ والی کیا کہانی ہے؟ میں نے کہا: یہ تازہ کہانی ہے اور اس سے تو پاکستان والے بھی پوری طرح متعارف نہیں ہوئے۔ یہاں آسٹریلیا والوں کی لاعلمی قابل فہم ہے۔ پھر میں نے اسے ساری صورتحال بتائی۔ وہ پوچھنے لگی: میاں شہباز شریف کی کیا صورتحال ہے؟ میں نے کہا: یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔ وہ پارٹی صدر ہے لیکن کنفیوژ ہے۔ اس کا نقطہ نظر اور ہے اور میاں نواز شریف کا اس سے قطعاً مختلف۔ چلتی میاں نواز شریف کی ہے۔ اب صدر کیا کرے؟ گزشتہ دنوں میاں شہباز شریف نے تقریر فرمائی۔ کنفیوژن سے بھری ہوئی۔ کسی کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ جو کہنا چاہتا ہے کہہ نہیں سکتا اور جو کہلوایا جانا مقصود ہے وہ کچھ وہ کہنا نہیں چاہتا۔ اب یہی کچھ ہونا ہے جو ہو رہا ہے۔ 
بابا جان! سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن آپ کا کیا خیال ہے وزیراعظم کون بنے گا؟ اب وہ براہ راست سوال پر اتر آئی۔ میں نے کہا: آپ کو پتا ہے عبدالقدوس بزنجو کون ہے؟ کہنے لگی: نام تو سنا ہوا لگتا ہے (ان دنوں اس کے پیپر ہو رہے تھے جب بلوچستان اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان میں شغل لگا تھا) میں نے کہا: اچھا یہ بتائو صادق سنجرانی کون ہے؟ وہ مزید کنفیوژ ہو گئی۔ کہنے لگی: بھلا پاکستان کے متوقع وزیراعظم کے نام سے عبدالقدوس بزنجو اور صادق سنجرانی کا کیا تعلق ہے؟ میں نے اسے کہا کہ یہی سوال ایک دن مجھ سے شاہ جی نے پوچھا تھا‘ تب میں نے اسے بتایا کہ ممکن ہے مولوی اللہ بچایا پاکستان کا اگلا وزیراعظم بن جائے۔ تب شاہ جی نے مجھے خاصا برا بھلا کہا اور کہا کہ یہ کون ذات شریف ہے؟ میں نے کہا: یہ نام علامتی ہے۔ مطلب ہے کوئی بھی غیر معروف اور گمنام رکن اسمبلی۔ گزشتہ ہفتے شاہ جی کا فون آیا اور وہ کہنے لگے: مظفر گڑھ سے مولوی اللہ بچایا الیکشن لڑ رہا ہے اور باقاعدہ مقابلے میں ہے‘ کیا تم نے اسی کے بارے میں کہا تھا؟ میں نے کہا: ہرگز نہیں‘ میں نے اُس والے مولوی اللہ بچایا بارے نہیں کہا تھا مگر اب ہاں سمجھو‘ میرا مطلب ہے اب یہ والا اللہ بچایا بھی ہو سکتا ہے۔ 
میری بیٹی بالکل ہی کنفیوژ ہو گئی اور کہنے لگی: مجھے آپ کی بات بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ میں نے کہا: عبدالقدوس بزنجو بلوچستان میں وزیر اعلیٰ منتخب کروایا گیا‘ جس کے پاس اپنی ایک سیٹ کے علاوہ اور کوئی ووٹ نہیں تھا۔ صادق سنجرانی اسی طرح سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوا کہ چار دن پہلے اسے کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ ہمیں دو نمونے دکھا دیئے گئے ہیں‘ کیا پتا تیسرا نمونہ اس الیکشن کے بعد دکھایا جائے اور مولوی اللہ بچایا وزیراعظم بن جائے۔
''میرا مطلب ہے...‘‘ میری بیٹی پریشان سی ہو کر کچھ پوچھنے لگی۔ میں نے کہا: دل چھوٹا نہ کرو‘ میں نے ایک امکان پر بات کی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی جیپ پر سرمایہ کاری مفت میں نہیں کی گئی۔ حوصلہ رکھو‘ کچھ بھی ہو سکتا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved