تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     12-07-2018

عقل کی خوبصورتی

انسان کو یہ صلاحیت خدا نے دی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا‘ ان کے بارے میں بھی ایک تصوراتی شکل اپنے دماغ میں بنا سکتاہے ۔ جب خلائی مخلوق کے بارے میں انسان سوچتا ہے ۔ خصوصاً جیسا کہ مریخ کے بارے میں سوچا جاتا رہا تو انسانوں نے اس مخلوق کی ایک تصوراتی شکل بنا ڈالی۔ ان کے سرلمبے‘ آنکھیں گیند جتنی ‘ ہاتھوں کی جگہ لمبے ناخنوں والے پنجے اور ناک نہ ہونے کے برابر تھے ۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ خلائی مخلوق اگر کہیں ہوگی‘ تو وہ عجیب وغریب شکل و صورت کی حامل ہوگی ۔ اس لیے کہ وہ اس دوسرے سیارے کے حالات میں بتدریج تخلیق ہوئی ہوگی ۔ 
اسی طرح انسان نے جنات کی تصاویر بنائیں ۔ انسانی ذہن میں خاصیت یہ ہے کہ جس چیز کو اس نے نہیں دیکھا ہوتا‘ اگراس کی بھی کچھ تفصیل اسے بتا دی جائے‘ تو اس کا دماغ اس کی ایک فرضی شکل بنا لیتاہے ۔ ان چیزوں میں ہوا بھی شامل ہے ۔ جذبات اور عقل کی شکل اگر بنانا ہو تو وہ کیسی ہوگی ؟ جذبات کیسے ہوں گے ؟ چیختے ہوئے ‘ ہاتھوں میں نیزے اٹھائے‘ حملہ آور ‘ زخموں سے بھرپور او ردشمن کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے ۔لہو میں نہائے ہوئے‘ سر سے پائوں تک سرخ ہی سرخ ۔ اور عقل؟ شاید سفید اور نیلے رنگ کی ‘ پری صورت ‘اس کی ہر انگلی ایک چابی کی صورت ہوگی۔ ہر تالا وہ کھول سکتی ہوگی ۔ بارش کا پانی اکھٹا کرتی ہوئی ‘ آتش دان میں آگ جلا کر گھر گرم کرتی ہوئی ۔ آسان الفاظ میں یہ کہ مسائل حل کرتی ہوئی ۔ initiativeلیتی ہوئی ۔ 
عقل ہی ہے ‘ جو مسائل حل کرتی ہے ۔ انسانی تاریخ میں جو سب سے عقلمند شخصیت تھی‘ سرکارِ دو عالمؐ کی تھی۔کتنے ہی تنازعات ‘ کتنی ہی جنگیں آپؐ نے خون بہائے بغیر جیت لیں ۔ فتح مکہ کو دیکھ لیجیے ‘ جن حالات میں ‘ دشمنوں سے بچتے ہوئے‘ آپؐ مکہ سے تشریف لے گئے تھے‘ وہ سب کے سامنے ہیں اور جس طرح واپس آئے ‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔دنیا کا کوئی بھی غیر متعصب شخص ‘اگر دنیا کو سب سے زیادہ بدل دینے والے لوگوں کی فہرست بنائے گا ‘توپہلا نام حضور ﷺ ہی کا ہوگا۔ ہمارے ہاں احساسِ کمتری کے مارے ہوئے کچھ لوگ ایسے ہیں ‘ جن کے نزدیک انگریزی زبان میں‘ انگریزی لہجے میں بولنے والے ہی دنیا کے سب سے عقلمند لوگ ہوتے ہیں ‘ خواہ وہ گالیاں ہی دے رہے ہوں ۔خواہ وہ افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر ہی کیوں نہ ضائع کر دیں اور خواہ وہ ہم جنس پرستی کے قوانین ہی کیوں نہ بنا دیں ‘بلکہ ہم جنس پرست ان کے خیال میں ماڈرن لوگ ہیں۔ ان کے خیال میں پنجابی اور اردو بولنے والا ایک شخص کبھی بھی عقل کی بات نہیں کر سکتا ۔ ان کے لیے ایک مضمون انشاء اللہ الگ سے ‘ جس میں ان کی احساسِ کمتری کی وجوہات اور اس کے تدارک پہ روشنی ڈالی جائے گی ۔ 
اگریہ کہا جائے کہ تخلیقات میں سے عقل خوبصورت ترین ہے ‘تو یہ غلط نہ ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے عقلمند لوگوں سے مرعوب رہا ہے ۔ ان کی عزت کی جاتی رہی ہے‘ ان کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھے جاتے ہیں ۔ ورنہ آئن سٹائن اور نیوٹن جیسی شکلوں والے کتنے ہی لوگ گمنامی کی زندگی گزارتے اور گمنامی کی موت مرتے رہے ہیں ۔ کوئی بھی انہیں یاد نہیں کرتا۔ سٹیفن ہاکنگ سے محبت کرنے والے اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ اس کے ساتھ شدید معذوری اور ہمدردی کے عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔ہمدردی سے بہت فرق پڑتاہے ۔ ٹیپو سلطان کا باپ اس سے بڑا سپہ سالار تھا‘ لیکن نام زیادہ ٹیپو کا گونجتا ہے ۔ ویسے ہاکنگ خود بھی خبروںمیں رہنے کا گرُ جانتا تھا۔
شروع دن سے جن انسانوں کی عزت کی جاتی رہی‘ان میں دلیری کے علاوہ علم و عقل والے سرِ فہرست تھے ۔ خوبصورتی کی اپنی اہمیت تھی‘ لیکن کچھ خوبصورت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انسان جن کے خاموش رہنے کی دعا کرتا رہتاہے ۔ ادھر انہوں نے بات کرنا شروع کی‘ ادھر ان کی خوبصورتی ختم ۔یوفون والوں کا ایک اشتہار دیکھا تھا‘ جس میں انتہائی خوبصورت لڑکی جب پھٹی ہوئی زبان میں آخر میں یہ کہتی ہے ''تیری مہربانی‘‘ تو سب اپنا اپنا سامان اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں ۔
دوسری طرف دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے جہاں عزت و احترام کے حقدار تھے۔ وہیں عقل سے کام لینے والے بھی۔ ایجادات کرنے والے ۔ وزن کو انسانی کمر سے پہیے پہ منتقل کرنے والے۔ گھوڑوں سے گاڑیوں اور جہازوں کاسفر طے کروانے والے ۔ پنکھے کی ہوا ‘ فون سے آواز دوردراز تک منتقل کرنے والے۔ شروع شروع کے دنوں میں جانورو ںپر کاٹھی ڈالنے والے‘ جس کے لیے عقل ‘ طاقت اور دلیری تینوں درکار تھیں ۔ایک لمحے کے لیے انسان سوچتا ہے کہ پہلے پہل جس انسان نے آگ استعمال کرنا سیکھا ہوگا ‘ وہ تو اپنے قبیلے کی آنکھوں کا تارا ہو گا ‘ جس کے علم و فضل کا دور دور تک چرچا ہوگا ۔
مسلمانوں سے علم اور عقل چھن گئے ؛حالانکہ ہمارے پیغمبرؐ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ علم و عقل رکھتے تھے۔ کسی باقاعدہ استاد سے تعلیم حاصل نہ کر سکنے‘ لکھنا او رپڑھنا نہ جاننے کے باوجود صرف 23برس کی مدت میں انہوں نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی ‘ آج جس کے باشدوں کی تعداد ایک ارب اسّی کروڑ تک جا پہنچی ہے ۔ انہوں نے دنیا پر حکومت کی ۔ پھر کاہلی‘ بزدلی اور کم عقلی کا شکار ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تعداد میں اس قدر زیادہ ہونے کے باوجود دنیا میں ان کی کوئی عزت اور اہمیت نہیں ‘ تاہم جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مسلمان تابہ ٔ ابد ایسے ہی رہیں گے اور جن کا خیال یہ ہے کہ مسلمان ہونے پر ہمیں شرمسار ہونا چاہیے‘ وہ ایک اور قسم کی انتہاپسندی کا شکار ہیں۔ مسلمان بے شک دوبارہ کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ ایک منصوبے کے تحت‘ اگر مستقل مزاجی سے کام کیا جائے ۔ ہر قسم کی ٹیکنالوجی اور ذرائع مواصلات کے اس دور میں یہ ناممکن ہرگز نہیں ہے ۔ 
عقل خوبصورت ہوتی ہے ۔ انسان کی ظاہری شکل و صورت کی طرح اس کی عقل او رذہانت کی بھی ایک شکل و صورت ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک خوبصورت اور فرمانبردار عورت کا شوہر اس سے لڑتا جھگڑتا رہتاہے ۔ پھر وہ ایک نسبتاً کمتر شکل و صورت والی ایک عورت سے شادی کرلیتاہے ‘ جو اسے بے عزت بھی کرتی رہتی ہے ‘ پھر بھی وہ اس کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتاہے۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں میں جوتے کھانے کی عادت اور طلب بہت زیادہ ہوتی ہے‘ لیکن اس میں ایک اور عنصر بھی ہے ‘ جو انسان ہمارے سامنے پوری طرح بچھ جاتا ہے‘ submissiveہو جاتا ہے ‘ جس کے اندر تیزی نہیں ہوتی ‘ جس کے اندر سسپنس نہیں ہوتا ‘ جس کے اندر سوچ نہیں ہوتی‘ جس کے اندر عقل نہیں ہوتی‘ اس کی اہمیت بھی انسان کے دماغ میں بہت کم رہ جاتی ہے ۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ کم عقلی کی بات پہ انسان کو ایک دم غصہ آتا ہے ۔ اسی طرح ‘ وہ چیز ‘ جس میںپردہ نہیں رہتا‘ جو انجان نہیں رہتی ‘ اس کی کشش بھی بہت کم رہ جاتی ہے ۔ ان جان چیز میں اگر انتہا درجے کی کشش نہ ہوتی‘ تو انسان کیا اربوں ڈالر خرچ کر کے چاند اور مریخ پہ اترنے کی سرتوڑ کوشش کرتا؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved