1970ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب کی مقبولیت کا ستارہ عروج پر تھا۔لیکن روایتی امیدوار یا انتخابی کھلاڑی، پیپلز پارٹی کو اہمیت نہیں دے رہے تھے۔جس طرح عمران خان کو ابھی تک چند ہی ون ایبل امیدوار ملے ہیں، پیپلز پارٹی کو بھی لگ بھگ اتنے ہی ملے تھے۔ظاہر ہے کہ بھٹو صاحب کو ٹکٹ دینے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ لاہور کے ایک انتخابی حلقے کی صوبائی اور وفاقی نشست پر دو امیدواروں میں ٹائی ہو گئی۔عبدالحفیظ کاردار اور ڈاکٹر محمود عباس بخاری۔ کاردار صاحب کو قومی اسمبلی کی نشست پیش کی گئی تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ تو صوبائی نشست سے لڑنا چاہتے ہیں۔( ان کی درخواست اسی نشست پر تھی) ڈاکٹر بخاری کی درخواست بھی اسی نشست کیلئے تھی۔کاردار صاحب بھٹو صاحب کے ذاتی اور قریبی دوست تھے۔ ان کا مطالبہ مان لیا گیا اور ڈاکٹر بخاری کیلئے حکم ہوا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر8کا ٹکٹ انہیں دے دیا جائے۔ڈاکٹر بخاری کو جب اطلاع دی گئی تو وہ ناراض ہو گئے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا جوش و خروش دیوانگی کی حدتک بڑھا ہوا تھا۔ وہ جنگی جذبے کے تحت کام کر رہے تھے اور کسی بھی صورت اپنی جماعت کو ہارتا ہوا دیکھنے کیلئے تیار نہیں تھے۔وہ خود بھاگ دوڑ کر کے نامزدگی کا فارم لے آئے۔ مطلوبہ صفحات پر انکے دستخط کروائے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اب ہم آپ کو انتخابی مہم کیلئے ہی بلائیں گے۔ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا یہ تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔میں انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے رہا۔ کارکنوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی تمام ضروریات پوری کر کے ڈاکٹر صاحب کے کاغذات جمع کرائے اور اگلے دن خود ہی انتخابی مہم شروع کر دی۔ انتخابات ہو گئے ، ڈاکٹر صاحب گھر بیٹھے قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔یہ واقعہ صبح چار بجے کا ہے۔ میں پسرور کے حلقے میں، جہاں مولانا کوثر نیازی امیدوار تھے، ان کا الیکشن ایجنٹ تھا۔ آخری دنوں میں یہ ذمہ داری مولوی ظہور مرحوم کو دے دی گئی تھی۔ہم نہ صرف قریبی دوست تھے بلکہ ایک ہفت روزہ مل کر نکالا کرتے تھے۔ جیل میںبیرونی دنیا کے ساتھ مولانا کی رابطے کی ذمہ داریاں مجھ پر ہی تھیں۔ میں صبح فجر کی اذانوں کے وقت کوٹ لکھپت جیل پہنچ گیا تاکہ مولانا کو ان کی کامیابی کی اطلاع دے سکوں اور یہ بتا سکوں کہ انہوں نے مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔جیل میں اکثر آنے جانے کی وجہ سے ڈیوڑھی کا سٹاف مجھے جانتا تھا۔میری درخواست سے پہلے ہی پہرے داروں نے مجھے دیکھ کر چھوٹا دروازہ کھول دیا اور مجھے مبارکیں دینے لگے۔ مولانا پہلے ہی سے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ کے دفتر میں بیٹھے تھے اور اپنی جیت کی خبر سن چکے تھے۔گرمجوشی کے ساتھ ملنے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے بعد ہم گپ شپ میں مصروف تھے کہ ایک سنتری نے آکر شکایت بھرے لہجے میں بتایا ’’باہر ایک صاحب کھڑے ہم سب کو ڈانٹ رہے ہیں کہ انہیں مولانا صاحب سے ملوایا جائے، ہم اپنی مجبوریاں بتا رہے ہیں لیکن وہ مان کر نہیں دیتے اور یہ زبردستی کارڈ مجھے دے کر انہوں نے کہا ہے کہ یہ میں اپنے افسروں کو پہنچائوں‘‘۔ میں نے وہ کارڈ دیکھ کر زور سے قہقہہ لگایا۔ مولانا نے وجہ پوچھی۔میں نے کارڈ ان کی طرف کر دیا اور اسے دیکھتے ہی مولانا بھی بے اختیار ہنسنے لگے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کارڈ پر ڈاکٹر صاحب کے پورے نام کے ساتھ لکھا ہوا تھا ’’ممبر قومی اسمبلی،،۔ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ انتخابی نتائج کا اعلان ان کا نام رات بھیگنے کے بعد آیا۔ اس وقت کوئی پریس کھلا نہیں مل سکتا تھا۔تین گھنٹے کے قلیل عرصے میں ڈاکٹر صاحب نے یہ کارڈ کیسے چھپوایا ، اس سوال کا جواب، نہ مولانا اپنی زندگی میں ڈھونڈ سکے اور نہ مجھے مل سکا۔ ڈاکٹر صاحب کی عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک دن کیلئے بھی اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے نہیں گئے تھے اور سب سمجھ رہے تھے، وہ الیکشن اور نتائج سے لا تعلق ہو چکے ہیں مگر جیسے ہی ان کی کامیابی کا اعلان ہوا۔ وہ تمام امیدواروں سے زیادہ بیتاب ثابت ہوئے اور چشم زدن میں اپنا کارڈ چھپوا کر، بانٹنے کیلئے چل نکلے۔ اسی طرح کی ایک حیرانی بدھ27مارچ کو ہوئی۔ منگل کی شام تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ نگران وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ مصدقہ خبر شام ڈھلے میڈیا پر آئی۔تب تک نجم سیٹھی وزارت اعلیٰ کی خبر سنانے والوں پر، شان بے نیازی پر ہنس رہے تھے۔خبر آتے ہی مبارکیں وصول کرنے لگے۔ظاہر ہے، رات گئے سوئے ہوں گے۔ اگلے روز انہوں نے تین بجے کے قریب وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد بھی دیر تک گورنر ہائوس میں آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ مصروف رہے ہوںگے۔ اب ذرامیری سنئے۔ پانچ بجے کے قریب میں اپنے گھر سے سڑک پر آیا تو سامنے مختلف تاجر تنظیموں کے نام سے ،چوراہوں پر بڑے بڑے بینرز لگے ہوئے تھے ،جن میں وزیراعلیٰ کی تصویر تھی اور تاجروں کی طرف سے انہیں گرمجوشی سے خوش آمدید کہا یا لکھا گیا تھا۔ حیران میں اس پر ہوں کہ تاجروں کو رات گئے پتہ چلا ہوگا کہ سیٹھی صاحب وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔ لاہور کی بڑی مارکیٹیوں کے تاجر عموماً صبح10,11بجے دکانیں کھولتے ہیں اور کمرشل پرنٹنگ پریس کے معمولات کے مطابق طباعت کا کام12,1 بجے شروع ہوتا ہے۔مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ تاجرو ں نے خیر مقدمی بینرز لگانے کا فیصلہ کب کیا؟ طباعت کا ٹھیکہ کب دیا اور پھر انہیں شہر کی سڑکوں پر پہنچا کر آویزاں کب کیا؟ جس طرح میں ڈاکٹر بخاری کے وزٹنگ کارڈ کا معما ابھی تک حل نہیں کر پایا، اسی طرح مجھے یہ معماحل کرنے میں دشوار ی پیش آرہی ہے۔ اپنے سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے اچانک میرے ذہن میں ایک شیطانی خیال آیا کہ اتنے بڑے کام کی تیاری میں دو چار روز لگ ہی سکتے ہیں اور پھر تیار شدہ بینروں کو مختلف علاقوں تک پہنچانے میں بھی وقت لگتا ہے اور پھر انہیں مقررہ جگہوں پر پہنچانا بھی وقت مانگتا ہے۔اتنے کام اگر کسی ایک شخص نے کئے ہیں تو وہ عزت مآب وزیراعلیٰ خود ہو سکتے ہیں کیونکہ وہی چار پانچ دن پہلے یہ جان سکتے تھے کہ انہیں وزیراعلیٰ بننا ہے۔ایک شریفانہ سا خیال یہ بھی آیا‘ ہو سکتا ہے تاجروں نے کوئی خواب دیکھ کر تیاریاں کر لی ہوں یا انہیں خود وزیراعلیٰ نے رازداری میں پہلے سے بتا رکھا ہو۔ مگر شریفانہ خیال کو، شیطانی خیال نے اس دلیل کے ساتھ رد کر دیا کہ سیٹھی صاحب اتنا خطرناک راز قبل ازوقت کسی کو نہیں بتا سکتے۔بینرز تیار اور آویزاں کرنے کے سارے مراحل سیٹھی صاحب نے ذاتی نگرانی میں طے کرائے ہوں گے مگر یہ بوکھلائی ہوئی قیاس آرائیاں ہیں۔ اصل حقیقت ہمیشہ راز رہے گی اور اگر مزید پانچ سال زندگی رہی تو میں پھر بھی اسی طرح حیرت میں ڈوبا رہوں گا جیسے ڈاکٹر بخاری کے وزٹنگ کارڈ کے راز کو جاننے کی کوشش میں ہلکان ہوتا رہتا ہوں۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو لوگ کوئی پوزیشن ملنے سے پہلے اس کے بار ے میں یوں بات کرتے ہیں جیسے انہیں پسند ہی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہی نہیں۔اور جب پوزیشن مل جاتی ہے تو پھر ان کی پھرتیاں دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ جلد از جلد پوزیشن حاصل کرنے کی خوشخبری ،دوستوں، اجنبیوں بلکہ دور دراز بیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچائیں۔ ابھی میں نے نیٹ کھول کر نہیں دیکھا ،ورنہ پتہ چلتا کہ نیٹ پر وزیراعلیٰ بننے کی خبر کب ڈالی گئی؟ سچی بات ہے پوزیشن حاصل کرنے کا شوق ہر کسی میں ہوتا ہے۔بظاہر تو کوئی صوفی بنتا ہے، کوئی اپنی درویشی کے چرچے کرتا ہے۔کوئی صوفی ہونے کا تاثر دیتا ہے مگر جیسے ہی پوزیشن ملتی ہے تو سارے طور اطوار بدل جاتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ نہ کوئی صوفی ہے، نہ درویش ہے، نہ بے نیاز ہے اور نہ ہی اپنے پیشے میں حاصل شدہ پوزیشن پر مطمئن ہے۔ اس کی عقابی تمنائیں، اس کے سینے میں اُڑانیں بھرتی رہتی ہیں اور موقع ملتے ہی شکار پر جھپٹ پڑتی ہیں۔نجم سیٹھی نے بھی برسوں عقابی تمنائوں کی اڑانوں کے تھپیڑے برداشت کرتے کرتے ٹیسوں کا سامنا کیا ہو گا۔وہ روز چڑیا اُڑا کر، چپکے سے اس پر جھپٹتے تھے اور پھر اپنے پنجوں کو خالی دیکھ کر سو جاتے تھے۔26مارچ کی رات شو ٹائم سے ذرا پہلے، چڑیا ان کے پنجوں میں آگئی۔ اقتدار کی چڑیا کے پیچھے وہ کب سے لگے تھے ؟اس کا راز ڈاکٹر صفدر محمود نے کھولا ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں سیٹھی صاحب نے انہیں خود بتایا کہ کئی سال پہلے انہوں نے نوازشریف سے کہا تھا ’’میرا دل آپ کے ساتھ ہے اوردماغ بینظیر کے ساتھ‘‘۔ اس وقت معاملہ دل و دماغ تک محدو دتھا، اب انہیں گردے کپورے بھی دینا پڑے ہونگے۔ جیسے سید منور حسن کو گردے کی نوید سنائی ہوگی، عمران خان کو پھیپھڑوں کی ، جہانگیر بدر کو کھّد کی،الطاف بھائی کو جبڑے کی،اے این پی کو ران کے قیمے کی، جس سے چپلی کباب بہت اچھا بنتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے کہ سیٹھی صاحب کو ایوان اقتدار میں پہنچانے والے، ایک ایک کر کے کیسے رخصت ہوتے ہیں ؟اور سیٹھی صاحب اس کے اندر اپنے پائوں کیسے پسارتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved