تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-07-2018

ریحام سے پہلی ملاقات

2014ء کی کسی شام‘ ایک نجی ٹی وی چینل پر میزبانی کے فرائض ادا کرتی ہوئی اینکر خاتون کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا‘ کیونکہ یہ چہرہ مجھے دیکھا دیکھا سا لگا۔میں اس خاتون کے پروگرام پر نظریں جمائے کچھ دیراسے غور سے دیکھتا اور سنتا رہا‘ تو اچانک مجھے بی بی سی لندن کے میڈیا ہائوس کی ایک شام یاد آگئی‘ جب اس خاتون سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی‘ جو میں کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔
لیکن جب عمران خان سے اس خاتون کی شادی کی خبریں باہر آئیں‘ تو یقین کیجیے‘ مجھے عمران خان کی عقل ‘ فہم و فراست اور پسند کے بارے میں جان کر انتہائی مایوسی ہوئی۔اور میں نے اسی وقت اپنے ایک دو نہیں‘ بلکہ ہر ایک جاننے والے اور دوست کے سامنے پیش گوئی کر دی تھی کہ یہ شادی نہیں چل سکے گی اور یہ عورت عمران خان کی سیا سی اور ازدواجی زندگی کیلئے ایک زہر سے کم ثابت نہیں ہو گی اورجس کے اثرات بہت دیر تک زائل نہ ہوں گے۔ اور پھر وہی ہوا ‘جس کا مجھے ڈر تھا۔اب عمران خان کو نا جانے کب تک اس کوتاہی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ریحام کی کتاب کی تیاری میں کچھ عرصہ تک اس کے ساتھ چلنے والے معروف صحافی اور تجزیہ کار نے گزشتہ دنوں کچھ اس کے بارے میں کہا ہے‘ وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں‘ کیونکہ جس عورت کی لغت میں شرم وحیا نام کا کوئی لفظ ہی نہ ہو‘ ایسی عورت سے شادی کرنا کیچڑ کو اپنے گھر میں سجانے کے مترادف ہوتا ہے۔اور یہ وہ کیچڑ ہے‘ جس کے چھینٹے ابھی تک عمران خان کی جانب اچھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔عطا الحق قاسمی جو اپنے مخصوص لطائف سنانے کی وجہ سے میاں نواز شریف کے پسندیدہ ہیں ‘ریحام کی کتاب کے بہت سے صفحات ان کی محنت اور تجربے کا نتیجہ ہیں۔ 
جنوری2011 کی ایک دوپہر‘ ایم کیو ایم لندن سیکرٹریٹ کا تفصیلی دورہ اور وہاں پر موجود مصطفیٰ عزیزآبادی ‘ سلیم شہزاد اور عمر کوٹ کے انیس خان ایڈووکیٹ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال جو کراچی سے قائد ِتحریک الطاف بھائی کو ملنے کیلئے آئے ہوئے تھے ‘ان سب سے انتہائی دوستانہ ماحول میں تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں اور سب کو بڑے سلیقے سے کام کرتے دیکھ کر کچھ حیرانی بھی ہوئی‘ کیونکہ وہاں کوئی بھی کسی کا افسر نہیں تھا‘ بلکہ سب مل جل کر کام کر تے تھے۔ میںکافی عرصے سے ایم کیو ایم کا لندن سیکرٹریٹ دیکھنے کا خواہش مند تھا‘ جہاں سے پوری پارٹی اور اس کی سرگرمیوںکو کنٹرول کیا جا رہا تھا ۔ کئی گھنٹے ان سب سے بات چیت کرنے اور ان کے بارے میں پھیلی ہوئی افواہوں اور کہانیوں اور اپنے کچھ خدشات اور مشاہدات ان کے سامنے رکھنے کے بعد ‘ شام کو ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ نیچے اترا تو انہوں نے فرمائش کی کہ ہائی سٹریٹ ایجویئر روڈ لندن کے آئس کریم پارلر چلتے ہیں۔ وہاں سے ایک مشہور برانڈ کی آئس کریم کھائیں گے‘ کیونکہ سارا دن آپ کے ساتھ کافی اور گرین ٹی پینے کے بعد اب کچھ ٹھنڈا کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔
لندن کے وقت کے مطا بق‘ اس وقت شام کے شاید پانچ بجے کا وقت تھا اور یہ جنوری کی ایک سرد شام تھی۔ دسمبر اور جنوری لندن میں ویسے بھی شام جلد ہو جاتی ہے۔ اپنی پسند کی آئس کریم کھاتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کہنے لگے کہ ابھی شام سات بجے ان کا بی بی سی لندن پر ایک پروگرام ریکارڈ ہونا ہے‘ میرے ساتھ ہی چلو آج چونکہ فرائیڈے ہے‘ اس لئے ویک اینڈ کی وجہ سے بی بی سی کے دفتر سے کچھ فاصلے پر آکسفرڈ سٹریٹ کی رونقیں دیکھ لینا اور پھر وہاں سے کسی اچھے سے ریسٹورنٹ سے رات کیلئے کچھ کھائیں گے ۔ ہائی اسٹریٹ ایجویئر سے ہم نے ٹیکسی لی اور بی بی سی لندن جا پہنچے۔ لفٹ سے ہم اوپر پہنچے‘ تو فاروق ستار تو پاکستان ا ور کراچی کے حالات پر ان سے کئے جانے والے پروگرام کیلئے میزبان کے کمرے میں چلے گئے ‘جبکہ مجھے بی بی سی آفس کی ایک خاتون کی رہنمائی میں ایک ملحقہ آرام دہ چھوٹے سے کمرے میں جسے آپ ویٹنگ روم کہہ سکتے ہیں‘ بیٹھنے کو کہا گیا ۔ اگر آپ کافی پینا چاہتے ہیں‘ تو وہاں پر اس کی سہولت موجود تھی‘ لیکن اسے تیار آپ کو خود ہی کرنا ہوتا ہے ۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ جیٹ بلیک کلر کی شرٹ اور سفید رنگ کی انتہائی اونچی‘ لیکن مختصر منی سکرٹ پہنے ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئی ۔میں نے چونکہ جینز اور جیکٹ کے ساتھ سوات کی مشہور پٹی کی سفید گرم ٹوپی پہنی ہوئی تھی‘ اس لئے اس نے میری جانب بغوردیکھا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے میری جانب کرتے ہوئے سامنے ایک نشست کے صوفے پر بیٹھ گئی ۔اب اس چھوٹے سے کمرے میں ہم دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔میرے سامنے بیٹھی درمیانی عمر کی نظر آنے والی اس سمارٹ سی خاتون نے بہت ہی سلیقے سے میک اپ کیا ہوا تھا۔ انتہائی مختصر لباس میں ملبوس ہونے کے با وجود اس کا تعلق مجھے کسی مغربی ملک سے نہیں ‘بلکہ کسی ایشیائی ملک سے لگ رہا تھا ‘لیکن اس لباس کے ساتھ اس کی ‘جس حرکت نے مجھے حیران کیا‘ وہ اس کا انتہائی بیہودگی سے بیٹھنا تھا۔ شاید اس خاتون کو کوئی احساس نہ تھا کہ اس کمرے میں‘ اس کے با لکل سامنے ایک مرد بھی بیٹھا ہوا ہے۔
ابھی ہمیں وہاں بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ سرخ مختصر شرٹ اور بلیک تنگ سی جینز پہنے ایک نوجوان لڑکی‘ جس کے بالوں کی تراش خراش لیڈی ڈیانا سے ملتا جلتاتھا‘ تیز آواز سے ہیلو کہتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ ایک لمحے کیلئے اس نے میری جانب دیکھا اور پھر میرے سامنے بیٹھی ہوئی خاتون سے جو اس کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی Reeeehm کہتی ہوئی لپٹ گئی ۔اب جو کچھ میرے سامنے کیا جانے لگا‘ اسے میں الفاظ کے احاطے میں لانے سے قاصرہوں ‘ کیونکہ اخلاق اورہماری تہذیب اس کی قطعی اجا زت نہیں دیتے ۔ ان کی جاری حرکات ‘ میرے لئے جب نا قابل ِبرداشت ہو گئیں‘ تو میں نے وہاں سے چلے آنا ہی بہتر سمجھا ؛حالانکہ ان دونوں کو رتّی بھر بھی احساس نہیں ہو رہا تھا کہ کوئی تیسرا بھی وہاں موجود ہے۔ 
میںنیچے اتر کر داخلی دروازے کے ساتھ لگی ہوئی نشستوں پر بیٹھ کر فاروق ستار کا انتظار کرنے لگا ۔اسی دوران اور ڈاکٹر فاروق ستار کا بی بی سی پر لائیو انٹر ویو شروع ہو گیا‘ جسے میںدیکھنا شروع ہو گیا ۔پندرہ بیس منٹ بعد فاروق بھائی کا مجھے فون آیا‘ جو پوچھ رہے تھے کہ میں کہاں ہوں؟میں نے انہیں جب بتایا کہ استقبالیہ پر بیٹھا ہوا ہوں‘ تو انہوں نے فوراًاوپر آنے کو کہا‘ جہاں وہ خاتون بھی موجود تھی‘ جسے ریحام بتایا گیا۔ وہ میری سفید پٹی کی سواتی ٹوپی کی جانب اشارہ کرتی ہوئی کہنے لگی: کیا آپ جانتے ہیں کہ میں مانسہرہ پاکستان کی رہنے والی ہوں؟ تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ میری سواتی ٹوپی کی جانب کیوں باربار غور سے دیکھے جا رہی تھی اور یقین جانئے اسے رتی بھر بھی کوئی احساس شرم نہ تھی کہ ابھی میرے سامنے وہ ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ کس قسم کی بے ہودہ حرکتیں کر رہی تھی۔ مجھے جب پتہ چلا کہ یہ مانسہرہ کی ہے ‘تو میں نے خود کو اُردو میں فاروق بھائی کو ان حرکات کو بتانے سے روک لیا ‘ورنہ میری زبان سے پورے منا ظر بیان ہونے ہی جا رہے تھے۔ ریحام کو جب معلوم ہوا کہ میرا تعلق بھی میڈیا سے ہے‘ تو اس نے بڑی گر م جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے جلد ہی ملنے کا کہا۔
برطانیہ میں ایک قیام کے بعدپاکستان واپس آنے سے پہلے میرے کچھ دوست مجھے لندن کی ویک اینڈ کی رات دکھانے کیلئے ایک معروف اور مہنگے نائٹ کلب لے گئے ‘ جہاں وہ طبقہ نہیں جا سکتا ‘جو شورو غوغا جیسے ماحول کو بے سکون کرتے ہیں ۔ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ گئے اور جب میں نے اپنے عقب میں دیکھا تو چونک گیاکہ وہی خاتون جسے ریحام کے نا م سے متعارف کروایا گیا تھا‘ کسی ادھیڑ عمر شیخ کے ساتھ بڑی بے تکلفی کے ساتھ وہاں بیٹھی تھی‘ جو میرے لیے ایک بار پھر حیران کن تھا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved