تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-07-2018

اب آئینے میں کس کو ڈھونڈتے ہو؟

ایک ہی چیز کے کئی رخ ہوسکتے ہیں یا کم از کم دو رخ تو طے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ اُسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ دیکھنے کا انداز اور دیکھتے وقت آپ کے ذہن کی حالت کسی بھی چیز کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے۔ ایک ہی چیز کسی کے لیے مثبت کے لیے اور کسی کے لیے منفی۔ یہ فرق سوچنے کے فرق سے پیدا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بُری چیز کسی اور طرح دیکھنے سے بُری نہیں رہتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب لوگ کسی معاملے میں پہلے سے کچھ طے کرلیں‘ تو اچھی چیز بھی بُری دکھائی دیتی ہے۔ اور یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ 
ہم میں سے کون ہے ‘جو اپنی بات کے آگے کسی کی کسی بھی بات کو درست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو؟ کم ہی لوگ ہیں‘ جو دوسروں کے نقطۂ نظر کو درست تسلیم کرنے کے لیے خود کو راضی کر پاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم زندگی بھر اسی خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ صرف ہمارا نقطۂ درست ہے اور باقی جو کچھ بھی دیکھا اور سوچا جارہا ہے‘ اُس میں صرف کھوٹ پائی جاتی ہے۔ 
اپنی بات کو درست اور باقی سبھی کی ہر بات کو غلط قرار دیتے رہنے کی روش پر گامزن رہنے سے ہم رفتہ رفتہ ایک ایسے دائرے تک محدود ہو جاتے ہیں‘ جو ہمارے پورے وجود کو ہر معاملے میں محدود کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنی بات کو درست قرار دینے اور منوانے کی روش رفتہ رفتہ خود پسندی کو فروغ دیتی ہے۔ خود پسندی وہ زہر ہے‘ جس کا تریاق صرف موت ہے‘ یعنی انسان مرتے دم تک خود پسندی کے جال سے نکل نہیں پاتا۔ 
دنیا کے ہر ناخواندہ اور شعور سے محروم معاشرے کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ لوگوں نے خود کو عقلِ کُل کے منصب پر فائز کرلیا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہتا اور سمجھا پھرے‘ جو یہ طے کرلیتا ہے کہ اُس سے زیادہ عقل کسی میں نہیں پائی جاتی وہ کسی کی نہیں سنتا۔ اور جب سُنتا ہی نہیں ‘تو سمجھے گا کیسے؟ پاکستانی معاشرہ بھی اب تک جہالت کے صحرا میں بھٹک رہا ہے اور پیاس کے مارے جان لبوں پر ہے۔ معاشرے کا واضح طور پر غالب حصہ اُن تمام خامیوں سے ''بہرہ مند‘‘ ہے‘ جو ایسے معاشروں میں خوب پائی جاتی ہیں‘ جس نے مکتب کا منہ بھی نہ دیکھا ہو ‘وہ ماہرین ِ تعلیم کے علم و فن پر تنقید کے تیر برسا رہا ہوتا ہے! جس نے کبھی اپنا کام بھی ڈھنگ سے نہ کیا ہو وہ باقی سب کے کام پر خطِ تنسیخ پھیرنے اور اس حوالے سے اپنی ''گراں قدر‘‘ رائے سے اُنہیں نوازنے پر بضد رہتا ہے۔ 
علم و فن سے بے بہرہ رہنے پر انسان کو اپنی اصلاح کی فکر لاحق ہونی چاہیے‘ مگر پاکستان جیسے معاشروں میں اس حوالے سے فکر مند رہنے کی بجائے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ جو کچھ نہیں آتا‘ وہ دوسروں کو سکھایا جائے! جس نے کبھی کسی سیاسی جماعت کے لیے ایک نعرہ نہ لگایا ہو‘ کسی مظاہرے یا جلسے میں شرکت نہ کی ہو اور جو سیاسی سرگرمیوں کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو‘ وہ چاہتا ہے کہ اہلِ سیاست اُس سے سیکھیں کہ سیاست کیسے کی جاتی ہے! 
ایک بنیادی پریشانی یہ ہے کہ خود کو بہت کچھ یا عقلِ کُل سمجھنے کی روش کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ نہیں وہ خود کو بہت کچھ سمجھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اُن کی ذہنی کجی‘ تو ایسی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ جو زیرو ہوتے ہیں ‘اُن کے پاس خود کو ہیرو سمجھنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا کہ دل کے بہلانے کو کوئی تو خیال ہو۔ مشکل یہ ہے کہ جو تھوڑا بہت جانتے ہیں‘ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی بجائے دوسروں کے مسائل حل کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ 
سیاست ہی کی مثال لیجیے۔ ہر سیاست دان ‘اس خبط میں مبتلا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل صرف اُس کے پاس ہے۔ قومی مسائل اور بحرانوں کے حوالے سے اپنی رائے کو وہ حرفِ آخر گردانتا ہے۔ ہر طرح کی صورتِ حال میں وہ چاہتا ہے کہ صرف اُس کی رائے کو باقی تمام آراء پر ترجیح دی جائے۔ یہ سوچ اس لیے پنپتی جاتی ہے کہ جنہیں کچھ نہیں آتا وہ بھی تو خود کو بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ سمجھنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ خود کو عقلِ کُل کیوں نہ سمجھے‘ جسے تھوڑا بہت تو معلوم ہو؟ 
علم و فن سے رغبت سے محروم پاکستان جیسے معاشروں میں خود پسندی دن بہ دن مستحکم تر ہوتی جارہی ہے۔ خالی ہاتھ ہونے پر بھی خود کو تونگر سمجھنے کے سوا لوگوں کے پاس آپشن بھی نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ہر طرف ع 
جو لوگ کچھ نہیں کرتے‘ کمال کرتے ہیں! 
کی ذہنیت کا غلغلہ ہے۔ جو جس قدر بے کمال ہے‘ وہ اُسی قدر باکمال تسلیم کیے جانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ خود پسندی محض رجحان نہیں‘ زندگی کا جُز ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ لوگ اس دائرے سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ معاشرے کی غالب اکثریت خود پسندی کے دائرے میں گھومتے گھومتے اب خود فریبی کے جال میں جا پھنسی ہے۔ جن کے ہاتھ خالی ہوں اُن میں جھوٹی انا پنپتی جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے سے انا کی گرد چھٹتی ہے‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ فریب ِ ذات سے آگے بھی ایک دُنیا ہے۔ 
پاکستانیوں کی اکثریت جھوٹی انا کے جال میں یوں پھنسی ہے کہ نکلنے کی سبیل دکھائی نہیں دے رہی۔ اور نکلنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ لازم ہے کہ خود پسندی اور خود فریبی کو شکست دی جائے‘ شکست و ریخت سے دوچار کیا جائے۔ یہ تو ہوا ضرورت کا ذکر۔ خود پسندی اور خود فریبی کو شکست تو اُس وقت ہوگی ‘جب اُسے پچھاڑنے کے بارے میں سوچا اور سوچے ہوئے پر عمل کیا جائے گا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ ماننے ہی کو تیار نہیں کہ وہ ذہنی کجی میں مبتلا ہیں۔ ذہنی کجی دور کرنے کے حوالے سے انتہائی بنیادی مسئلہ یہی تو ہے کہ جن میں ذہنی کجی پائی جاتی ہے اُنہیں یہ ماننے پر پر آمادہ کیا جائے کہ اُن میں ذہنی کجی ہے! لوگ زندگی بھر خود فریبی کا شکار رہتے ہیں‘ ناکامی سہتے ہیں‘ دکھ جھیلتے ہیں ‘مگر کوئی متوجہ کرے تب بھی غور نہیں کرتے کہ زندگی میں جتنی بھی خامیاں اور کمزوریاں ہیں وہ کیوں ہیں۔ اور پھر اپنی ناکامی کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے پھرتے ہیں۔ ہر معاملے میں خود کو سب سے زیادہ عقل مند سمجھنے کا نتیجہ اس کے سِوا کیا نکل سکتا ہے کہ انسان پورے معاشرے کو جاہل سمجھے اور صرف اپنی ذات کے حصار میں قید ہوکر رہ جائے؟ اس مرحلے پر تو صرف اپنی ہی ذات اپنے ساتھ رہ جاتی ہے‘ باقی سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے ؎ 
اب آئینے میں کس کو ڈھونڈتے ہو؟ 
جسے چاہا وہی تو رُوبرو ہے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved