تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     31-03-2013

عمران خان کا امتحان

اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی پاکستان تحریک انصاف کی شکل ان سب غلیظوں سے کہیں زیادہ صاف ہے اور اسی لیے اس پر بُری نظر ڈالنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اللہ پاک پی ٹی آئی کو نظربد سے محفوظ رکھے۔ ورنہ وہاں ان خود غرضوں اور لالچیوں کی کوئی کمی نہیں جو اپنی دو دو ٹکیاں دی ایک ایک نشست پر پورے پاکستان کا مستقبل قربان کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بدبخت ہیں جو اپنی ایک بوٹی کی خاطر عوام کا پورا بکرا ذبح کر سکتے ہیں… معاف کیجیے میں جھک مار گیا کیونکہ دراصل یہ وہ منحوس ہیں جو اپنی ایک بوٹی کیلئے عوام کا بکرا نہیں بلکہ پورے کا پورا ریوڑ قربان کرسکتے ہیں۔ عمران خان کو ایسے جگاڑیوں سے بچنے کیلئے خود ایک تھکا دینے والے اذیت ناک پراسیس سے گزرنا ہوگا اور خدا کا شکر کہ عمران اس کڑے امتحان سے گزرنے کیلئے تیار ہے کہ وہ اس بات کا اعلان کر چکا کہ 850 امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال وہ خود کرے گا۔ میزان عدل خود عمران کے ہاتھ میں ہو تو پاکستان کی قسم کسی بھی قسم کی ڈنڈی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ترازو میں ’’جھوک‘‘ مارنا جانتا ہی نہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس نے پاکستان کی آبرو کیلئے اپنے کزن، اپنے استاد، اپنے آئیڈیل عظیم کرکٹر ماجد خان کو کِٹ میں میدان سے نکال دیا کیونکہ اس وقت ماجد المعروف مائٹی خان اپنی فارم میں نہیں تھے… میں پریشان تھا کہ خان کے ساتھ کوئی ہاتھ نہ ہوجائے لیکن اب پُرسکون ہوں کہ رزلٹ اورئینٹڈ عمران خان نے ٹکٹوں کی تقسیم کا ترازو خود تھام لیا ہے۔ بصورت دیگر کچھ بھی ہوسکتا تھا جس کی قیمت عمران کیا، پاکستان کو چکانی پڑتی۔ عمران خان اور پورے پاکستان کیلئے صرف ایک مثال ہی کافی ہوگی کہ تحریک انصاف میں ہو کیا رہا تھا (ہر جگہ، ہرگز نہیں لیکن کہیں کہیں) حلقہ ہے این اے 159‘ جہاں سے ایک بے حد موثر سیاسی خاندان کا 27سالہ نوجوان بیرسٹر حمزہ خالد رندھاوا پچھلے دو تین سال سے وہاں جان توڑ محنت کررہا تھا۔ اس نوجوان کا باپ، تایا بھی کئی بار منتخب ہوئے لیکن فیوڈلز نہیں ہیں۔ یہ ایچی سن میں عمران خان کے استاد اور سابق چیف سیکرٹری پنجاب حفیظ رندھاوا کا سگا بھتیجا بھی ہے لیکن ’’کاغذات‘‘ میں… یعنی ایک نام نہاد بوگس ریسرچ پیپر میں حمزہ کیا اس کے خاندان کا نام ہی غائب کردیا گیا کیونکہ کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کیلئے ایک ایسے شخص کو پروموٹ کرنا اور ٹکٹ دلوانا تھا جو6,8 ماہ پہلے تک ق لیگ میں تھا جسے چھوڑ کر ن لیگ میں گھس گیا اور جب تاجر ن لیگ نے وہاں کے سٹنگ ایم این اے افتخار نذیر (PPP) کیلئے اپنے بازو اور دروازے کھول دیئے تو یہ لوٹا اپنی تمام تر لوٹائیت سمیت گھبرا کر ن لیگ چھوڑنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں گھس گیا کیونکہ مقامی معتبروں نے اس غلام مرتضیٰ میتلا کو ٹکٹ ’’گارنٹی‘‘ کردی تھی۔ کہاں میرٹ؟ کہاں گارنٹی؟ ایسی کوئی مثال میرا ذاتی مسئلہ نہیں لیکن میں پی ٹی آئی کے ہر اہم شخص سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ خدا کیلئے … رینگتے، سسکتے، بلکتے‘ روتے پاکستان کیلئے… خطِ غربت کے نیچے قبرستان میں دفن پچاس فیصد اہلِ پاکستان اور اپنے قائد عمران خان کیلئے یہ عادت، یہ روش، یہ وطیرہ، یہ انداز، یہ اسلوب، یہ سوچ، یہ رویہ ترک کرکے پاکستان کا سوچو کہ یہ ملک ہے تو تمہاری سیٹیں بھی ہیں اور سکھ سکون بھی ورنہ بربادی کی آگ تمہارے محلات تک بھی پہنچ جائے گی۔ تھینک یو عمران خان کہ تم نے 850 امیدواروں کے کاغذات خود دیکھنے کی اذیت کا فیصلہ کیا کہ اگر تم یہ فیصلہ نہ کرتے تو عمران خان نہیں… پاکستان کی جلی ترین فتح شکست میں تبدیل ہوسکتی تھی۔ عمران خان! اس فیصلہ کن مرحلہ میں ہر فیصلے پر کڑی نظر رکھو کیونکہ اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی عمران خان! ظہیرالدین بابر کے چہیتے بیٹے اور دوسرے مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں کی طرح آخری لمحوں میں ریلیکس نہیں کرنا کہ ہمایوں شیرشاہ سوری سے کسی طرح بھی کم تر نہیں تھا۔ سوائے اس کمزوری کے کہ وہ جنگ جیتنے کے واضح امکانات دیکھ کر ہی ریلیکس کر جاتا تھا جبکہ ’’فنشنگ ٹچز‘‘ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved