تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-07-2018

ہمارے انتخابات اور بھارتی مداخلت

لندن میں حسین حقانی، براہمداغ بگٹی، مشاہد حسین اور پرویز رشید کے درمیان ہونے والی مبینہ ملاقاتیں کچھ نہ کہنے کے باوجود بہت کچھ کہہ چکی ہیں۔ لگتا ہے کہ حسین حقانی کے میمو گیٹ کا مشن‘ جو ادھورا رہ گیا تھا‘ اسے کچھ دوسرے مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لندن پوسٹ کے ایڈیٹر اور برطانیہ کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد قریشی سے اس سلسلے میں جب میری بات ہوئی تو انہوں نے یہ بتا کر میرے خدشات کو مزید تقویت دی کہ نواز شریف کی اسرائیل اور بھارتی سفارت کاروں سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں؛ تاہم ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ انہوں نے تصدیق کے لئے جب اسرائیلی سفارت کاروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کی تائید یا تردید سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ نواز شریف کی ہدایات پر کیا جا رہا ہے کیونکہ پرویز رشید یا کسی دوسرے کی ہمت ہی نہیں کہ وہ نواز شریف کی اجازت کے بغیر حسین حقانی، براہمداغ بگٹی اور انڈین ہائی کمیشن میں را کے لوگوں سے ملاقاتیں کر سکیں۔ حسین حقانی گروپ کے اس ایجنڈے کی تکمیل میں مدد کے لئے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی مصروفیات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ افسوس کہ پاکستان میں برسر اقتدار نگران انتظامیہ ان معاملات کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ 
13 جولائی کا دن کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی میں اہم مقام رکھتا ہے‘ کیونکہ دہائیوں پہلے اس روز درجنوں کشمیری مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج نے قتل کر دیئے تھے۔ تیرہ جولائی کو آزاد کشمیر میں ہر سال ان شہدا کی یاد میں تعزیتی کانفرنسیں ہوتی ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں‘ لیکن آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اس سے ایک دن پہلے ہی اپنی پوری کابینہ کو ساتھ لے کر آزاد کشمیر کے غریب عوام کے پیسے سے نواز شریف کے استقبال کیلئے لاہور پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ تیرہ جولائی کو پچاس لاکھ افراد لے کر ایئر پورٹ کا رخ کریں گے۔ میاں نواز شریف کو جب سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا تو انہی راجہ صاحب نے جو بیان جاری کیا‘ وہ یہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ کل کو یہ شخص کسی بھی وقت ملکی سالمیت کے خلاف انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔ کوئی ایسا قدم جو نریندر مودی کے مقاصد اور اجیت ڈوول کے تیار کردہ مشن کی تکمیل کو آگے بڑھانے کے لئے کام آ سکے۔ کیا ملکی سلامتی سے متعلق ادارے با خبر ہیں کہ نریندر مودی اور اجیت ڈوول را کے افسران کے ہمراہ جب میاں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے اچانک کابل سے جاتی امرا پہنچے تھے تو... راجہ صاحب کی نواز شریف کی ہدایات پر اجیت ڈوول سے خفیہ ملاقات کرائی گئی تھی۔ میری اطلاع یہی ہے۔ یہ تحریر پڑھنے والوںکو اسے کسی کی سیاسی مخالفت کے رخ سے دیکھتے ہوئے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے... بلکہ انہیں ہر وقت راجہ صاحب کی آف دی ریکارڈ گفتگو کو سامنے رکھنا چاہیے۔ نواز لیگ کی پانچ سالہ حکومت ختم ہونے سے چندگھنٹے قبل رات کے اندھیرے میں نواز لیگی کابینہ کا اجلاس بلا کر آزاد کشمیر کونسل کے قوانین میں جو ترامیم کی گئیں‘ اندازہ لگایا جانا چاہیے کہ وہ نریندر مودی کے کسی ایجنڈے سے مطابقت تو نہیں رکھتیں؟ کوئی ایسا ایجنڈا جس کے تحت بھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ آئے روز آزاد کشمیر پر بھارتی فوج کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری پر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری سے شہید ہونے والوں کی کبھی مدد کرنے یا ان کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہی وہ ''کیوں‘‘ ہے جو باہمی تانے بانے جوڑنے کی خبریں دیتی ہے۔
کیا کبھی انہوں نے سردار عبدالقیوم مرحوم، سردار عتیق کی طرح کبھی میر پور یا مظفر آباد میں کسی ایسی ریلی یا جلوس کی قیادت کی‘ جس میں بھارت کے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہو؟ کیا فاروق صاحب سے پہلے آزاد کشمیر کے کسی وزیر اعظم نے ملک کی سلامتی کے اداروں کو براہ راست نشانہ بنایا؟ میں جو بار بار لکھ رہا ہوں کہ پی پی پی کے آصف علی زرداری اور نواز لیگ کی ملی بھگت سے منظور کی جانے والی 18ویں ترمیم اس ملک کے لئے زہرِ قاتل سے کم نہیں اور فاروق حیدر نے اسی اٹھارہویں ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے آزاد کشمیر کونسل کو ختم کیا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے مل کر نواز حکومت ختم ہونے سے ایک ہفتہ قبل شاہد خاقان عباسی کی کابینہ سے جو من مانیاں کرائیں‘ ان کی ایک ایک شق کو سامنے رکھیں تو خوف آنے لگتا ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں اب جج حضرات فاروق حیدر صاحب کے کارکن ہی تعینات کیے جائیں گے۔
میں اس لئے خوف زدہ نہیں کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران چھپنے والے میرے مضامین کی وجہ سے ایک سیاسی جماعت کے بڑے بڑے قبضہ گروپس یا شریف فیملی کے انتہائی قریبی لوگوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں بلکہ میرے خوف میں مبتلا ہونے کی وجوہات یہ ہیں‘ جن کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوں‘ جن پر جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی اس کے تانے بانے بھارت سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان سب کو اتفاقات یا معمولی آئینی عمل سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا گیا‘ تو کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بلڈ پریشر کا مریض کسی بھی وقت کچھ بھی اعلان کر سکتا ہے اور ایک دفعہ یہ زبان سے کچھ نکل گیا‘ تو پھر نریندر مودی کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔ نریندر مودی کا بھارت کے یوم آزادی پر یہ کہنا تو پاکستانی میڈیا اور سفارتی حلقوں سمیت سب نے سنا ہی ہو گا کہ ''ان سے گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر قبضہ آزاد کشمیر سے بڑے بڑے لوگ رابطوں میں ہیں اور میں نے ان کی مناسب وقت پر مدد کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں کیونکہ یہ دونوں حصے بھارت کی ملکیت ہیں جن پر پاکستان نے قبضہ جمایا ہوا ہے‘‘۔ نریندر مودی کی اس زبان درازی اور دھمکیوں کے کچھ عرصہ بعد میاں نواز شریف کا اسلام آباد میں وکلا کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے یہ پیغام دینا کہ انہیں شیخ مجیب الرحمان بننے پر مجبور نہ کیا جائے اور اس کے بعد متعدد مرتبہ بلکہ لندن سے روانہ ہوتے وقت بھی شیخ مجیب الرحمان کے حوالے دیتے ہوئے‘ ملکی سلامتی کو دبے دبے انداز میں للکارتے ہوئے دھمکیوں کے انداز میں بیانات جاری کرنا کوئی عام بات نہیں اور ابھی تین روز قبل ہی لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان کا سب سے بڑا حامی کہتے ہوئے اس کے قصے بیان کرنا بے وجہ نہیں ہو سکتا... اور بنگلہ دیش اور شیخ مجیب کا حوالہ دینے کے فوری بعد میڈیا سے متعلق کچھ افراد‘ جنہیں حسینہ واجد نے خصوصی طور پر ڈھاکہ مدعو کرتے ہوئے ایوارڈ سے نوازا تھا‘ کا میڈیا پر میاں نواز شریف کے حق میں اور ملکی فوج کے خلاف متحرک ہونا سب کے سامنے ہے۔ کوئی چار ماہ قبل پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک نجی چینل کے اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ ''نواز شریف گریٹر پنجاب کے منصوبے پر کام کر رہا ہے‘‘... تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب را کی مدد سے کیا جا رہا ہے‘ جس کا پہلا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح سب سے پہلے پاکستان کی عوام کو اپنی فوج کے خلاف کر دیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved