تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-07-2018

’’پیّاں پَروں، توری بِنتی کروں!‘‘

جنہیں عوام کی نمائندگی کرنے سے شغف ہے اُن پر بہت بُرا وقت آن پڑا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ روٹھے ہوؤں کو منانے کے لیے سَو جتن کرنا پڑیں گے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جنہیں پانچ سال میں ایک بار حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملتا تھا وہ یکسر' بے دلی‘ کے ساتھ اپنا یہ حق استعمال کر گزرتے تھے اور نمائندگی و نمائندوں کے پرنالے وہیں بہتے رہتے تھے جہاں پہلے سے بہتے آئے ہیں۔ 
پھر یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا؟ راتوں رات کیسی تبدیلی آگئی جس نے یاروں کو پریشان کردیا ہے۔ جو تھوڑی بہت تبدیلی ملک میں دکھائی دے رہی ہے اُس کا سہرا سوشل میڈیا پر پائے جانے والے ''شَشکوں‘‘ کے سَر ہے۔ میڈیا کی چند عمومی‘ درون خانہ قسم کی اصطلاحات میں ''شَشکا‘‘ یا ''شَشکے‘‘ بھی شامل ہے۔ آپ جانتے ہی ہیںکہ اب ٹی وی چینلز کی خبر میں صرف خبر نہیں ہوتی بلکہ گرافکس‘ میوزک اور ڈائیلاگز بھی شامل ہوتے ہیں۔ خبر کو ڈرامائی انداز سے پیش کرنا ہو تو ڈیسک ایڈیٹر یا کاپی ایڈیٹر سے فرمائش کی جاتی ہے کہ یار! ذرا شَشکے تو ڈال دینا! 
سوشل میڈیا پر بھی شَشکوں کی بہار ہے۔ لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں اُسے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرکے دوسروں تک پہنچانے کا بھی خاطر خواہ اہتمام کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بہت سوں کو بہت محتاط ہوکر چلنا پڑ رہا ہے۔ اور دوسری طرف کچھ لوگ بچ بچاکر چلتے ہوئے بھی اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ اُنہیں نوٹ کیا جائے‘ سوشل میڈیا پر پیش کیا جائے۔ اچھے پیرائے میں نہ سہی تو بُرے پیرائے ہی میں سہی۔ ع 
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا! 
پنجاب میں عوامی رابطہ مہم کے دوران مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا مبشر اقبال نے ایک بزرگ ووٹر کے پیر پکڑ لیے۔ ''محبت بھرا‘‘ اور التجا سے لبریز اصرار تھا کہ محترم ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائیں۔ بزرگوار چند لمحات تک تو حیرت و سکتے کی ملی جلی کیفیت میں رہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ جب حواس بحال ہوئے تو بزرگوار نے ووٹ دینے کی یقین دہانی کے ذریعے اپنے پیروں کی آزادی کا اہتمام کیا! 
جب ووٹرز اپنے نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور ان کی گردن دبوچنے کا سوچنے لگیں تب ایسے مناظر دیکھنے کو ملا کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ سب کچھ حیرت انگیز ہے کیونکہ پہلی بار ہو رہا ہے۔ جی چاہتا ہے ع 
بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کارواں 
مین سٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ... دونوں ہی پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سپر ہٹ رہے ہیں۔ گزشتہ روز وہ اپنے حلقے میں عوامی رابطہ مہم کے دوران ایک نانبائی کی دکان پر پہنچے۔ نانبائی انہیں دیکھ کر خوشی سے نہال اور موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے‘ ایک طرف ہوگیا۔ شیخ رشید نے وہاں لگے ہوئے تنور پر نان لگاکر گاہکوں کو دیئے! شیخ رشید کو اپنے درمیان پاکر اور نانبائی کی حیثیت سے کام کرتا دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ ویسے حیرت زدہ رہنے کے مقامات بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب لوگوں کو کسی بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ جب ووٹ بینک خطرے میں پڑ جائے تو سیاست دان اُسے بچانے کے لیے محض روٹیاں لگانے ہی پر آمادہ نہیں ہوسکتے بلکہ تنور میں جل مرنے کی منزل سے بھی گزر سکتے ہیں! 
یہ گھڑی رونے کی نہیں‘فرمائشیں سوچنے اور پوری کرانے کی ہے۔ امیدوار خود کو مشکلات میں گھرا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو شعور بھی بخشا ہے اور زبان بھی۔ مین سٹریم میڈیا اگر بات نہ سُنے تو کوئی بات نہیں‘ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی چیز کو آن کی آن میں وائرل کیا جاسکتا ہے۔ ووٹرز میں سوال کرنے کا رجحان ابھرتا‘پنپتا دیکھ کر بہت سے امیدواروں پر ایسا خوف طاری ہے کہ اگر ووٹرز فرمائش کریں تو وہ اپنی ساری شرم اور گھبراہٹ ایک طرف ہٹاکر بیچ سڑک پر کتھک اور بھنگڑا دونوں ہی طرح کا رقص پیش کرسکتے ہیں! 
بہر کیف ووٹرز کے ہاتھ امیدواروں کے گریبان تک جا پہنچے ہیں۔ کئی مقامات پر ووٹرز سے رابطوں کے دوران امیدواروں کو تیکھے سوالات اور زہریلے جملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کراچی میں فاروق ستار‘ خرم شیر زمان اور عارف علوی‘سہون کے نزدیک آبائی حلقے میں سابق وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ‘ سکھر میں سید خورشید احمد شاہ اور ڈیرہ غازی خان میں جمال لغاری کو عوام کے غضب ناک رویّے کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام نے تند و تیز جملوں کے ذریعے اِن سب کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ کئی امیدوار عوامی رویّے سے زِچ بھی ہوگئے۔ فاروق ستار کو کھالیں چھیننے کی ''روایت‘‘ کے حوالے بھی انتہائی تلخ ریمارکس کا سامنا کرنا پڑا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اُنہوں نے یہ ساری تلخی کانوں کے ذریعے حلق سے اتار لی اور مشتعل نہ ہوئے۔ 
ملک بھر میں اور بھی متعدد مقامات پر امیدواروں کو ووٹرز کی طرف سے پریشان کن سوالات اور اُن سے زیادہ پریشان کن رویّے کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ووٹرز نے اپنے مسائل کے حل سے متعلق پوچھنا سیکھ لیا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل ہوں۔ کچھ اور ملے نہ ملے‘ کم از کم بنیادی سہولتیں تو میسر ہوں۔ جہاں وقت اور آمدن کا ایک بڑا حصہ بجلی اور فراہمی و نکاسیٔ آب کے اہتمام کی نذر ہوجائے وہاں کسی بڑی تبدیلی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں کے حامل افراد زندگی کا ایک بڑا حصہ بنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے پر صرف کر رہے ہیں۔ ہم آج تک جامع اور بے داغ قسم کا ماس ٹرانزٹ سسٹم بھی تیار نہیں کرسکے۔ تعلیم اور صحت جیسے ناگزیر معاملات شرمناک حد تک خرابی سے دوچار ہیں۔ زندگی کو آسان بنانے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے‘ اس کا بڑا حصہ دو وقت کی روٹی اور کام پر جانے اور واپس آنے پر ضائع کرنا پڑتا ہے۔ 
شکر ہے وہ وقت تو آیا کہ مینڈیٹ پانے کے خواہش مندوں کو اندازہ ہوا کہ ''کھمبا ووٹ‘‘ کا زمانہ گیا۔ عوام میں بیداری کی لہر دوڑ چکی ہے۔ اس لہر کو آگے کہاں تک جانا ہے اِس کا فیصلہ اب خود عوام ہی کریں گے۔ ذہنوں کو بیدار رکھنا ان کا کام ہے۔ کوئی اور بھلا یہ کام کیوں کرنے لگا؟ ووٹ کے طلبگار اگر ووٹرز کے پیر پڑ رہے ہیں‘ التجائیں کر رہے ہیں تو اب ووٹرز کو ایک قدم آگے جاکر یہ ثابت کرنا ہے کہ ووٹ ان کے لیے نعمت اور امانت ہے‘ جسے وہ کماحقہ بہترین انداز سے بروئے کار لائیں گے اور صرف انہیں ایوان میں بھیجیں گے جو نمائندگی کا حق اداکرنے کے اہل ہوں گے‘قانون سازی کے حوالے سے اور عوام کے لیے آواز اٹھانے کے اہل ہوں گے۔ کوئی ہاتھ جوڑے‘ پیر پڑے تو جذبات کی شدت سے پگھلنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وقت دکھاوے اور اداکاری کو سمجھنے اور ایسے تماشے کرنے والوں سے جان چھڑانے کا ہے۔ عوام سے رابطہ ''کرنے‘‘ اور عوام سے رابطہ ''رکھنے‘‘ میں بہت فرق ہے۔ سوال ''پیّاں پَروں، توری بِنتی کروں‘‘ کا راگ الاپنے کا نہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ عوام سے مستقل رابطے میں کون اور کس طور رہتا ہے۔ منہ دیکھے کی محبت سے موم کے مانند پگھلنے کی کوئی وقعت نہیں۔ ووٹرز سارے تماشے دیکھیں اور ان سے محظوظ بھی ہوں‘ مگر اپنے جذبات سنبھال کر رکھیں اور انہیں وہیں بروئے کار لائیں ‘جہاں مطلوب نتائج پیدا ہونے کی امّید ہو۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved