تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-03-2013

صاحب نظراں نشۂ قوّت ہے خطرناک

عدل اور احساسِ ذمّہ داری اگر قوّت کے ہم رکاب نہ ہوں تو فساد پھیلتاہے۔۔۔فتنہ۔۔۔! اور قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے : الفتنۃ اشد من القتل۔ فتنہ قتل سے بدتر ہے۔۔۔ خطرناک! صاحب نظراں نشۂ قوّت ہے، خطرناک! نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ان کے تقرر میں انکل سام کا ہرگز کوئی کردار نہیں ۔ نہیں ہوگا مگر کس کا ہے ؟ نون لیگ ، پیپلزپارٹی اور قاف لیگ نے اتفاق کیا۔ کس کے ایما پر؟ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کے ایک کھرب پتی کی کوشش سے ۔ اس قدر وہ با اثر ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں اس کی جیب میں پڑی ہیں ۔ اخبار نویسوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ ان کی چڑیا، یہی ذاتِ شریف ہیں ۔ ریاست کے اندر ریاست انہوںنے قائم کر رکھی ہے۔ راولپنڈی کے لیگی لیڈر سے ان کے تصادم کا سبب پٹواریوں اور پولیس میں من مانی کی خواہش کے سوا اور کیا ہے ؟ اگر بعض کے خیال میں امریکی اشیر باد انہیں حاصل ہے تو اس کی وجوہات ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ، جب لوگوں کے دل زخمی تھے ، ساری قوم ایک طرف تھی اور وہ دوسری طرف۔ کوئی نہ تھا ، جو اسے سفارت کار تسلیم کرتا جناب سیٹھی ڈنکے کی چوٹ یہ دعویٰ کرتے رہے اور اس پر اصرار بھی۔ روزِ جزا فرشتوں کو شاید اخبار نویسوں کا نامۂ اعمال پیش کرنے کی ضرورت نہ ہوگی ۔ہر روز اپنی رودادِ عمل وہ خود لکھتے ہیں ۔ جو ہونا تھا ، وہ ہو چکا ۔پولنگ میں صرف چھ ہفتے باقی ہیں۔ زندگی مہلت دیتی ہے اور بار بار دیتی ہے۔ میدانِ جنگ پنجاب ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ آزادیٔ عمل کا مظاہرہ کر سکے تو گواہی ان کے حق میں آئے گی ۔اگراسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، جس کا اب تک کرتے آئے ہیں تو نتیجہ معلوم۔ گذشتہ چند ہفتوں سے وہ غیر جانبداری کی طرف مائل تھے اوراس پر خوشگوار حیرت تھی ۔ قیاس یہ ہے کہ وزیر ِ اعلیٰ بننے کے لیے سیاسی لیڈروں کو وہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ذاتی دوست اور تحریکِ انصاف کے سیکرٹری اطلاعات جناب شفقت محمود نے بھی ان کی تائید کی ۔ ایک وقت وگرنہ وہ تھا، کپتان نے جب ان صاحب سے کہا تھا کہ مخالفت اور تنقید بجا مگر کردار کشی وہ کیوں فرماتے ہیں ؟ ہر مزاج اور ہر اندازِ فکر کے لوگ معاشرے میں ہوتے ہیں۔ خالقِ کائنات نے زندگی کو ایک خیرہ کن تنوّع میں پید اکیا ہے کہ کشمکش او رپیہم کشمکش ہی اسے عزیز ہے ۔ زندگی کا حسن یہی ہے کہ ہر ایک کو آزادیٔ عمل حاصل ہو، ایک عمرانی معاہدے کی حدود میں! ہزار بار دہرائی گئی تشبیہ یہ ہے کہ جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے ، وہاں چھڑی گھمانے والے کی آزادی تمام ہوجاتی ہے ۔ کتنے ہی لوگ ہیں ، مستقل طور پر جو نگران وزیر اعلیٰ کے جریدے کا ہدف رہے ۔یہ ناچیز ان میں سے ایک ہے ۔ برسوںمیں نے صبر سے کام لیا اور بالآخر زبان کھولی تو وہ گھبرائے ۔ اب بھی ان کے بارے میں تحفظات ہیں۔ فیصلہ مگران کے ماضی نہیں بلکہ حال پر ہوگا۔ اگر وہ عدل کر سکے تو مخالف بھی داد دیں گے ۔ کہنے والے نے کہا اور بجا کہا: وہ وقت اس آدمی پر کتنا بھاری ہوگا، جب اسلام اور پاکستان سے وفاداری کا حلف اُٹھانا پڑا۔ اخبار نویسوں میں چرچا یہ رہا کرتا کہ جب بھی ٹی وی کا کوئی میزبان افواجِ پاکستان پر زبانِ طعن دراز کرتاہے تو اس محترم خاتون کے علاوہ، جو انسانی حقوق کی پاسبان بتائی جاتی ہے ،حوصلہ افزائی کے لیے یہ صاحب فوراً ہی اسے فون کرتے ہیں ۔ آخرکیوں ؟ اب ایک موقع زندگی نے انہیں دیا ہے کہ وہ خود کو انصاف پسند ثابت کر سکیں ۔ ابتدا انہوںنے اچھی کی کہ نون اور قاف لیگ ، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کے رہنمائوں سے ملے ۔ اسی اندازِ فکر پہ اگر وہ قائم رہے تو اعتبار پالیں گے ۔ نگران حکومت کا امتحان یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں جماعتِ اسلامی کے امیربلال قدرت بٹ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ایک سے دوسرے مقام پر جاتے تھے کہ بے دردی سے ان پر گولیاں برسائی گئیں ۔ آئی جی پنجاب آفتاب سلطان مقبول اور نیک نام آدمی ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ غیر معمولی قائدانہ صلاحیت تو ان میں نہیں مگر اُجلے ہیں ۔ سپیشل برانچ کے سربراہ کیا ابھی تک درّانی صاحب ہیں ؟ وہ آدمی ، جس پر کبھی انگلی نہ اٹھائی گئی ۔ نئے چیف سیکرٹری کے بارے میں البتہ کہا جاتا ہے کہ سر سے پائوں تک وہ نون لیگ کا وفادار ہے ۔ الیکشن کمیشن نے کیوں اسے گوارا کیا؟کس کے فرمان، کس کی فرمائش پر ؟ گوجرانوالہ کے واقعے کو اگر ٹیسٹ کیس بنا لیا جائے تو نگران حکومت کی ساکھ قائم ہو جائے گی ۔ بیانات اور دعوئوں سے نہیں، افراد اور ادارے اپنے کردار اور عمل سے پہچانے جاتے ہیں۔ 1970ء کے بعد یہ سب سے زیادہ اہم اور خطرناک الیکشن ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ نے سچ کہا : خوں ریزی کا خطرہ بہت ہے۔ حالات اس لیے اور بھی زیادہ خراب ہوئے کہ دہشت گردی کو فوج پر چھوڑ دیا گیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بنیادی طور پر فوج نہیں ، یہ پولیس کا کام ہے اور پولیس تبھی اس چیلنج سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے ، اگر انٹیلی جنس ایجنسیاں پوری قوت اور صلاحیت سے برسرِ عمل ہوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا معاشرہ ! حکومتوں کی اوّلین ترجیح امن کا قیام ہوتاہے ۔ نظامِ انصاف ، معیشت کا فروغ اور ٹیکس وصولی۔ بدقسمتی سے پانچ برس وہ لوگ ہم پر مسلّط رہے کہ ملک سے جنہیں قطعاًکوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اثاثے ان کے ملک سے باہر اور اولادیں بھی ۔ کرپشن کا لفظ ناکافی ہے ، لوٹ مارہوئی ، لوٹ مار۔خاص طور پر آخری چند دنوں میں ۔ رئوف کلاسرا نے لکھا: گویا دشمن کی فوج نے قبضہ کرلیا ہو۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کیا کہ چار جماعتیں کراچی میں بھتّہ وصول فرماتی ہیں ۔ کوئی بھی دوسرا ملک ہوتا تو حکومت مستعفی ہو جاتی اور ان پارٹیوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا۔ تاریخ کے چوراہے پر مگر یہ قوم سوئی رہی ۔ اڑھائی ہزارسال ہوتے ہیں ، جب افلاطون نے کہا تھا کہ حکومت تاجروں اور جنرلوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم نے انہی کو سونپی اور اب بھی تین پارٹیوں میں سے دو تاجروں کی ملکیت ہیں ۔ ملک کے مستقبل پر ان کے اعتماد کا حال یہ ہے کہ لوٹ مار سے جو کچھ کمایا ، بیرونِ ملک اٹھالے گئے ۔ سپریم کورٹ کو داد بہت دی جاتی ہے ا ور چیف الیکشن کمشنر کی ایمانداری کے چرچے بہت لیکن اس معاملے پر غور کرنے کی جسارت کیا وہ کر سکتے ہیں ؟ دانا آدمی اور دانا قوم وہ ہوتی ہے ، جو ترجیحات کا ٹھیک ٹھیک تعین کر سکے ۔ کن چیزوں میں ہم اُلجھے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف پہ جوتا اُچھالا گیا اور ٹیلی ویژن پر مذمّت کی تو وکلا برہم ہوئے ۔ اپنے لوگوں کو آپ روکتے کیوں نہیں ؟ سمجھاتے کیوں نہیں ؟ 2007ء سے 2009ء تک وکلاء کی جدوجہد ہماری تاریخ کے روشن ترین ابواب میں سے ایک ہے ۔ظفر مندی کے ساتھ ہی لیکن وہ بگڑنے لگے ۔ یکسر انہوں نے نظر انداز کر دیا کہ عدل اور احساسِ ذمّہ داری اگر قوّت کے ہم رکاب نہ ہوں تو فساد پھیلتاہے۔۔۔ فتنہ۔۔۔! اور قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے : الفتنۃ اشد من القتل۔ فتنہ قتل سے بدتر ہے۔۔۔ خطرناک! صاحب نظراں نشۂ قوّت ہے، خطرناک!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved