10 جولائی کو ملیر کے سابق ایس ایس پی رائو انوار کی نقیب اللہ قتل کیس میں ضمانت منظور ہو گئی۔ ایک دوسرے کیس کی وجہ سے وہ ابھی تک رہا نہیں ہوا‘ اور سب جیل قرار دیے گئے اپنے ہی گھر میں ابھی تک 'قید‘ ہے۔ پورے ملک بالخصوص نوجوانوں میںاس نظام کے خلاف غم و غصے اور بد اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ دو مختلف تفتیشی رپورٹوں میں رائو انوار کے اس قتل میں ملوث ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس صورتحال پر مین سٹریم میڈیا کی خاموشی قطعاً حیران کن نہیں۔ چند ماہ قبل جب نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف نوجوانوں کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو یہی میڈیا بڑھ چڑھ کر رائو انوار کو مجرم ثابت کرنے میں مصروف تھا۔
اس وقت احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے رائو انوار روپوش ہو گیا تھا۔ نقیب اللہ کے بہیمانہ قتل پر ملک بھر میں تمام قومیتوں اور بالخصوص کراچی میں پشتون نوجوانوں میں پایا جانے والا غم و غصہ ایک سماجی تحریک کی صورت میں پھٹ پڑا۔ اس تحریک نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور رائو انوار اس صورتحال میں گرفتاری سے بچنے کے لیے غائب ہو گیا تھا۔ تاہم احتجاج کے مدہم پڑنے پر رائو انوار فلمی انداز میں سپریم کورٹ میں پیش ہو گیا۔ وہ گرفتار تو ہو گیا لیکن روپوشی کے دوران ہی اس نے اپنے ریاستی آقائوں اور سیاسی ان داتائوں سے ساز باز کر لی اور مجھے لگتا ہے کہ اسے حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ گرفتاری کے بعد ملیر کینٹ میں واقع اس کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا‘ اور اسے ہتھکڑیوں سے بھی استثنا مل گیا۔
بتایا گیا ہے کہ پولیس کا تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان منگل کے روز عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا اور انوار کی ضمانت منظور ہو گئی۔ مدعی کے وکیلوں نے بتایا کہ تفتیشی افسر کی غیر حاضری سے متعلق پہلے ہی دو درخواستیں انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کو دی جا چکی ہیں‘ جن پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ ضمانت ملنے پر انوار نے کہا '' آج ثابت ہو گیا کہ میں بے قصور ہوں، مجھے بد نیتی کی بنیاد پر مقدمے میں ڈالا گیا۔۔۔ میرے ساتھ بھی ویسا ہی کیا گیا جیسا مرتضیٰ بھٹو کیس میں 'ایک شخص‘ کو پھنسانے کے لیے کیا گیا تھا‘ اور میں جلد ہی پھنسانے والوں کو بے نقاب کروں گا‘‘۔ یہ غالباً رائو انوار کے انتہائی قریبی سرپرست کو ایک واضح دھمکی تھی جس سے اب اس کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں۔
وکیل کی جانب سے پڑھے گئے نقیب اللہ کے والد کے بیان کا اختتام ان الفاظ پر ہوا ''بالآخر یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت مکمل طور پر رائو انوار سے ملی ہوئی ہے اور کیس خراب کرنے کے لیے ہر طرح سے مدد کر رہی ہے، رائو انوار معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے‘‘۔ سابقہ ایس ایس پی سندھ میں انکائونٹر سپیشلسٹ مانا جاتا تھا۔ پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق رائو انوار پولیس مقابلوں میں 444 افراد کے قتل میں ملوث رہا ہے‘ لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی انکوائری نہیں ہوئی۔ ان 745 مقابلوں میں کوئی ایک بھی پولیس والا ہلاک یا زخمی تک نہیں ہوا تھا۔ 2013ء کے اواخر میں رینجرز کی قیادت میں آپریشن شروع ہونے پر رائو انوار کے دائرۂ اختیار‘ ضلع ملیر میں پولیس مقابلوں میں ایک نئی تیزی آ گئی۔ رائو انوار اپنے عہدے سے کہیں زیادہ اختیارات اور طاقت کا مالک تھا۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سندھ کے ایک سینئر پولیس افسر نے ایک انگریزی اخبار کو بتایا کہ ''قانون نافذ کرنے کے موجودہ نظام میں ماورائے عدالت آپریشنز میں مارے جانے والے نقیب اللہ جیسے بے گناہوں کو شمار کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔۔۔۔ انوار قاتلوں کے جتھے کا سرغنہ تھا‘ اسے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔ اس کی کارروائیوں پر اس سے پہلے بات کیوں نہیں کی گئی؟ سچ تو یہ ہے کہ سب کو سب کچھ معلوم ہے لیکن پولیس کے حکام بھی اس سے خوفزدہ ہیں‘ کیونکہ جرائم پیشہ سیاسی سرغنوں کے ساتھ اس کی گہرے مراسم ہیں۔ فاٹا جیسے دور دراز علاقوں سے لوگوں کو اٹھا کر انہیں ختم کرنے کے لیے اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں اتنا زیادہ پولیس والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ قتل انتقامی کارروائیاں ہیں‘‘۔
بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دوسری ریاستوں میں پولیس کے ہاتھوں اس طرح کے قتل ستر برسوں سے ایک معمول ہیں۔ برطانوی سامراجی جاتے ہوئے اپنی بنائی ہوئی سیاسی اشرافیہ کے ذریعے اپنے نظامِ حکومت اور معاشی تسلط کا تسلسل یقینی بنا گئے۔ 1946ء کی جہازیوں کی بغاوت اور انقلاب کی شکست سے انگریزوں کے لیے محفوظ انتقالِ اقتدار اور استحصال کے نظام کو جاری رکھنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ تقسیم کے بعد قائم ہونے والی ریاستوں میں قوانین، طریقے اور اداروں کا جابرانہ کردار نہیں بدلا۔ مقامی حکمران طبقات سماج کو نو آبادیاتی ڈھانچوں سے نکالنے اور جدید صنعتی اور ترقی یافتہ معاشرے قائم کرنے میں ناکام رہے اور مسلسل سماجی و معاشی بحرانوں اور کرپشن کے ہاتھوں یہ ریاستیں مزید بوسیدہ ہو گئی ہیں۔
عوامی مزاحمت اور تحریکوں کے زوال کے ادوار میں یہ بوسیدگی رجعت، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ جہاں دہشت گردی کے عفریت نے ان گنت معصوم جانیں نگلی ہیں‘ وہیں ماورائے عدالت قتل اور ٹارگٹ کلنگز کا ظلم کچھ کم نہیں ہے۔ صرف رائو انوار کے ہا تھوں برباد ہونے والی زندگیوں کی تعداد کئی بڑے دہشت گرد حملوں کے جانی نقصان سے زیادہ ہے۔ رائو انوار کو سہولتوں کی فراہمی حکومتی نظام کی جانب داری کو ظاہر کرتی ہیں۔
نقب اللہ کے قتل کا منظر عام پر آنا اور رائو انوار کی گرفتاری صرف نوجوانوں اور عوام کے بڑے پیمانے کے احتجاج کی وجہ سے ممکن ہو سکی۔ عوام کے شدید دبائو میں سیاسی حکام سے اس کے تعلقات کمزور پڑ گئے۔ مجھے تو اس کی گرفتاری ایک طے شدہ ڈرامہ لگتی ہے‘ جو کچھ لوگوں نے مل جل کر ترتیب دیا تھا۔ یہاں کا بد عنوان حکمران طبقہ سرمایہ داری کے بحران میں پہلے کی نسبت زیادہ جرائم پیشہ بن چکا ہے‘ اور انہیں اپنے جرائم کے تحفظ کے لیے نہ صرف رائو انوار جیسے افسران کی ضرورت ہے بلکہ اپنی لوٹ مار کے راستے میں آنے والوں اور ذاتی دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے بھی انہی سے کام لیا جاتا ہے۔ رائو انوار کا معاملہ اس کی کھلی اور واضح مثال ہے۔
نقیب اللہ قتل کیس اور اشرافیہ کے آلہ کار رائو انوار کو درپیش ہونے والی معمولی زحمت سے یہ ثابت ہوا ہے کہ صرف عوام کی تحریکیں ہی ان بے انصافیوں اور مظالم کو روک سکتی ہیں۔ عوامی دبائو کی وجہ سے میڈیا بھی خبر دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور پھر معاملہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ لیکن کسی تحریک کے پیچھے جانے پر 'سٹیٹس کو‘ کی قوتیں سرگرم ہو جاتی ہیں اور انتقام لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر ایسا سلسلہ جاری رہے تو اس کے خلاف احتجاج کی ایک نئی لہر اٹھ سکتی ہے‘ لیکن بکھری ہوئی‘ وقتی اور محدود تحریکوں سے بوسیدہ نظام اور ریاست کے دیے ہوئے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ محروموں اور محکوموں پر جبر اور استحصال کا نظام مسلط ہے۔ صرف محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک وسیع عوامی تحریک ہی اس نظام اور سماج کو بدل کر محکوم عوام کی اکثریت کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ایک انقلابی عمل ہی ظلم کی حکمرانی کا خاتمہ کرے گا۔