تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-07-2018

مریم صاحبہ گڈ لک!

ملکی سیاست میں وہ کچھ ہو رہا ہے ‘ کبھی جس کا خواب بھی کوئی دیکھ نہ سکتا تھا ۔تین سال پہلے تک ‘اگر کوئی یہ بات کرتا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی سیاسی وارث کو جیل میں ڈال دیا جائے گا اور ملک میں ہنگامے برپا نہیں ہوں گے ۔ کچھ شور شرابا ہوگا ‘لیکن ملک انہیں سہہ جائے گا ۔ خودکشیاں نہیں ہوں گی۔ مخلوق سڑکوں پر اس طرح سے نہیں نکلے گی‘ جیسا کہ بے نظیر قتل یا جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لانگ مارچ میں نکلی تھی‘ تو اسے دیوانے کی بڑ ہی سمجھا جا سکتا تھا‘ لیکن ایسا ہو چکا ہے ۔ شورشرابا ہے‘ لیکن اس قدر نہیں کہ ریاست کے معمولات متاثر ہو جائیں ۔ سڑکوں پہ ٹریفک رواں دواں ہے ۔بے نظیر قتل پر ریاست مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔اس قدر بڑی ہمدردی کی لہر اٹھی تھی کہ آصف علی زرداری کو اقتدار مل گیا؛حالانکہ وہ بدنام تھے ۔ ان پر کرپشن کے مقدمات تھے۔ بے نظیر بھٹو پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کر چکی تھیں ۔ پورا ملک جسٹس افتخار محمد چوہدری اور خود میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پرویز مشرف کے خلاف سڑکوں پہ تھا۔ بے نظیر مشرف کے ساتھ ڈیل کی وجہ سے خاصی نا مقبول ہو چکی تھیں ۔ ان کے آخری جلسو ںمیں عوام کی تعداد خاطر خواہ نہیں تھی ۔ اس کے باوجود جب انہیں قتل کیا گیا ‘تو نتیجہ پورے ملک نے دیکھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی‘ سزا اور گرفتاری پر اس کا دس فیصد ردّعمل دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ تین سال پہلے تک تو کوئی مائی کا لعل نواز شریف کو گرفتار نہیں کر سکتا تھا۔ 
اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اچانک قتل ہوئی تھیں ۔جب کہ نواز شریف اڑھائی تین سال میں بتدریج زوال کی گہرائی میں اترتے چلے گئے ہیں ۔ سب سے پہلے پنامہ لیکس سامنے آئیں ‘ جن میں عمران خان یا پاکستان کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا‘ بلکہ یہ صحافیوں کی عالمی تنظیم کی طرف سے سامنے لایا گیا سکینڈل تھا۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم سمیت کئی عالمی لیڈروں کو مستعفی ہونا پڑا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف عمران خان ‘ فوج یا کسی اور عنصر کو تنہا انہیں زوال کے گھاٹ اتارنے والا دشمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پنامہ لیکس دب چکی تھیں ۔ اگر عمران خان رائیونڈ میں جلسہ اور پھر اسلام آ باد کو لاک ڈائون نہ کرتے ۔ سڑکوں پر عمران خان کے احتجاج نے نون لیگ کی سٹریٹ پاور کا اثر زائل کر دیا‘ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان اس سے کہیں زیادہ لوگ سڑکوں پر لے آیا کرتے‘ جتنا کہ نواز شریف لا سکتے تھے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے بار ہا مینارِ پاکستان کے سامنے جلسہ کیا‘ پھر عدلیہ نے تو جے آئی ٹی بناد ی تھی اور (ن) لیگ نے اس پر مٹھائیاں بانٹی تھیں ۔ اب سرکاری افسر غیر معمولی جرات دکھانے پر تل جائیں گے‘ جن کی اپنی پوسٹنگ اور پروموشنز وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ‘ یہ کون سو چ سکتا تھا ۔
نواز شریف کے ساتھ یہ فیکٹر بھی موجود تھا کہ وہ پانچ سالہ حکومت کر کے فارغ ہوئے تھے ۔ اس حکومت کی کارکردگی انتہائی معمولی تھی ‘ جبکہ بے نظیر نے اپنے قتل سے پہلے پانچ سال حکومت نہیں کی تھی ‘ پھر یہ کہ بتدریج نون لیگ کا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا تھا۔سیاسی پرندے اسے موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر اڑان بھرنے لگے تھے۔ کئی امیدواروں نے شیر کا نشان واپس کر کے آزاد لڑنے کو ترجیح دی ۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ تمام حربوں کے ساتھ نواز شریف نے جو (ن) لیگ کا ایک ہوّا عشروں تک بنائے رکھا تھا‘ وہ ختم ہو رہا تھا ۔
لوگ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے سب سے زیادہ کرپشن کی۔ انہیں نہیں پکڑا گیا ۔ بالکل درست اور اس میں سب سے زیادہ کردار خود نواز شریف کا ہے ۔ نیب کا چیئرمین انہوں نے اور زرداری صاحب نے قمر زماں چوہدری کی شکل میں ایسا چنا‘ جس کا کام ہر ملزم کو کلین چٹ دینا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر ریفرنس میں آصف علی زرداری بری ہو تے چلے گئے ‘ جس طرح سے زرداری اور نواز شریف صاحب نے ایک دوسرے کے لیے سہولتیں پیدا کیں ‘ اس طرح کی سہولت عمران خان نے نواز شریف صاحب کو نہیں دی ۔ 
ایک بات سو فیصد یقین سے کہی جا سکتی ہے ‘ جو لوگ بھی قانون جانتے ہیں ‘ انہیں اس بات کا علم ہے ۔ ایک بار جب ان کی بیرونِ ملک جائیدادوں اور دولت کا معاملہ عدالت کے روبرو پیش ہو گیا‘ تو ان کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا کہ حضور! یہ ہے وہ چیک نمبر‘ اکائونٹ نمبر اور بینک کانام ‘ جس کے ذریعے ساری ٹرانزیکشنز ہو تی رہیں ۔ یہ ہے‘ وہ بینک سٹیٹمنٹ‘ جس میں یہ ساری ٹرانزیکشنز موجود ہیں ۔ ایسا کوئی بھی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں تھا ۔ عدالت کی نظر میں یہ ایک ناقابلِ دفاع ریفرنس تھا ‘بلکہ باقی ریفرنسز میں بھی یہی حال ہے گو کہ فیصلہ عدالت ہی نے کرنا ہے ۔ 
بہرحال نواز شریف اپنی سیاسی وارث کے ساتھ جیل جا چکے ہیں ۔ ملک نے اس فیصلے کو سہہ لیا ہے۔ کاروبارِ ریاست چل رہا ہے ۔ اب آگے کیا ہونے والا ہے ؟ اگر تو جیل میں کوئی خلافِ ضابطہ سہولیات دی جاتی ہیں ‘تو آج موبائل کیمروں کے اس دور میں ‘ جس میں ساٹھ ستر فیصد لوگ تحریکِ انصاف کے حامی ہیں ‘تو وہ لازماً منظر عام پر آجائیں گی ۔ کوئی سمجھوتہ ہو سکتاہے ۔ سعودی عرب تو خیر نہیں‘ بلکہ اور بالخصوص طیب اردوان اگرایک کردار ادا کریں۔ عمران خان سے وہ بات کریں تو ایک سمجھوتے کے تحت شاید صدر ِ مملکت تک بات پہنچ سکتی ہے ‘ لیکن اگر ایسا کوئی سمجھوتہ نواز شریف نے کیا ‘ جیسا کہ پچھلی بار کر لیا تھا اور صدر نے ان کی سزائیں معاف کر دی تھیں‘ تو اس بار ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ۔ ویسے بھی نواز شریف لگ بھگ ستر برس کے ہوچکے ہیں ۔ اب ان کی جدوجہد والی عمر باقی نہیں رہی ۔ مریم یہ بات سمجھتی ہے‘ بلکہ یہ مریم ہی ہے ‘ جو کب سے لڑ رہی ہے۔ مریم ہی ہے ‘ جو کہ انہیں ملک واپس لے کر آئی ہے ۔ میرے خیال میں مریم میں اتنا دم خم ہے کہ وہ سزا سہے اور عمران خان کی متوقع حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی سامنے آنے کے بعداپنی سزا پوری کر کے سڑکوں پہ نکلے‘ لیکن اس اثنا میں (ن) لیگ بکھرتی جائے گی ۔ کئی پرندے اڑ چکے ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ جیب والے ہی چوہدری نثار کی قیادت میں (ن) لیگ کے سیاسی وارث ثابت ہو ں ۔ 
ایسا لگتاہے کہ عدلیہ اور بالخصوص فوج بھی نواز شریف سے تنگ آچکی تھی۔پنامہ لیکس پاکستانی عدلیہ اور فوج نے جاری نہیں کیں ۔ عمران خان کو وہ سڑکوں پہ لے کر انہیں آئے‘ لیکن انہوں نے ایک موقع دیکھ کر نواز شریف سے جان چھڑانے کی سوچی بجائے اس کے کہ عمران خان کی دشمنی مول لے کر نواز شریف کے خلا ف عدالتی کارروائی میں رخنے ڈالے جاتے ۔ 
مریم صاحبہ اگر توآپ جیل کاٹنے کے لیے تیار ہیں تو پھرمستقبل کے لیے گڈ لک۔ نواز شریف صاحب تو جیل نہیں کا ٹ سکتے ‘ یہ سب کو معلوم ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved