ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے لکھے گئے خط کا عکس میرے سامنے رکھا ہے کہ ''جس کسی نے بھی آنے والے الیکشن میں سراج رئیسانی کو و وٹ دیا‘ تو اس کا انجام موت کے سوائے کچھ نہیں ہو گا‘‘۔ ٹوٹی پھوٹی اُردو میں ہاتھ سے لکھے گئے اس اشتہار کے نیچے ایک کونے میں مزید لکھا گیا ہے '' وقت آنے پر موقع ملتے ہی ہم یہ کر کے دکھائیں گے‘‘ ۔اس خط کے مندرجات کو سامنے رکھیں‘ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کرانے والے کون ہیں۔ ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے دی جانے والی اس دھمکی آمیر خط میں املا کی بہت سی غلطیاں ہیں‘ لیکن اس اشتہار کے ایک ایک لفظ سے پیغام واضح ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ کیا چاہتے تھے۔ اس اشتہار کے علا وہ یہ خبریں بھی گردش کرتی رہئیں کہ ایک سابق وزیر اعظم نے خصوصی ہدایات دیتے ہوئے ایک اور سابق وزیر اعظم کو ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ کے پاس بھیجا ۔ جب سے یہ خبر سنی ہے‘ سوچ رہا ہوں کہ انہوں نے کیا پیغام بھیجا ہو گا۔یہاں ایک سوال قارئین کے ذہنوں میں پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر خفیہ پیغام پہنچانے کیلئے رانا ثنا اﷲ کا انتخاب کیوں نہ کیا گیا؟ میں نے اپنے 14 جولائی کو شائع ہونے والے مضمون میں راء کے افسروں سے لندن میں مشاہد حسین اور پرویز رشید کی مبینہ ملاقاتوں کا ذکر کیا تھا۔ جو کچھ اس وقت پاکستان میں دشمن کی جانب سے کروایاجا رہا ہے‘ وہ میری نظر میں ایسی ہی ملاقاتوں کا نتیجہ ہے۔
ملک میں دہشت گردی کی لہر پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے‘ جس کے بارے میں نواز حکومت میں بہت دعوے کیے گئے تھے کہ ہم نے دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کر دیا ہے۔بلوچستان اور کے پی کے‘ جن کی سرحدیں افغانستان سے منسلک ہیں‘ وہیں سے حالیہ دہشت گردی کی لہریں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ واضح رہے کہ جب مجھے شاہد خاقان عباسی کی ایک کالعدم تنظیم کی سربراہ شخصیت سے ملاقات کی خبر ملی‘ تو میں نے بہت سوچا کہ اس قدر خفیہ اور اہم ترین پیغام کیلئے نواز شریف نے شہباز شریف کی بجائے شاہد خاقان عبا سی کا انتخاب کیوں کیا ؟بہت دیر سوچنے کے بعدجو‘جواب میرے ذہن میں آیا‘ ممکنہ طور پر وہ یہ ہے کہ آخر اپنے سگے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی بجائے نواز شریف نے شاہد خاقان عبا سی ہی کا انتخاب کیوں کیا تھا ؟
ہارون بلور شہید جیسے پاکستان کے مایہ ناز سپوت کی سانحہ پشاور میں 20 ساتھیوں سمیت المناک شہا دت کاغم اور دکھ ابھی بدن کو چیرے جا رہا تھا کہ تیسرے ہی دن بلوچستان میں پاکستان کے ایک اور جانباز سپاہی سراج رئیسانی کو شہید کر دیا۔آرمی چیف نے ان کی وطن ِعزیز کیلئے گراں قدر خدمات اور قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے '' سولجر آف پاکستان‘‘ کہہ کر جو خراج تحسین پیش کیا‘ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فوج اور عوام ایک ساتھ ہیں‘ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور فوج اپنے ملک کے ہر جانباز کو اپنے دل میں جگہ دیتی ہے۔سراج رئیسانی کی شہادت کی خبر نے سب محب وطن پاکستانیوں کو انتہائی رنجیدہ کر کے رکھ دیا ہے۔سراج رئیسانی کو اگر شہید ِپاکستان کہا جائے‘ تو زیادہ بہتر ہو گا ۔
یکہ توت کے بعد مستونگ حملہ کے ذریعے پاکستان کو کھلا چیلنج دیتے ہوئے دشمن نے اب سامنے آ کر حملے شروع کر دیئے ہیں اور ان حملوں کے بعد روایتی مذمتی بیانات سے پاکستانیوں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے شہر ممبئی میں جب26/11 کا واقعہ ہوا ‘ تو امریکہ کے وزیر دفاع اور اس کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم بھاگ کر نئی دہلی پہنچے اور وہاںکھڑے ہو کر پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہا '' اگر بھارت میں ممبئی جیسا کوئی اور واقعہ ہوا‘ تو ہم بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے روکنے کی بجائے اس کے ساتھ کھڑے ہو ں گے‘‘۔ آرمی پبلک سکول پشاور‘ چارسدہ یونیورسٹی‘ یکہ توت ‘ بنوں اور اب مستونگ میں دہشت گردی کے خنجروں کے سینکڑوں وار کرتے ہوئے پاکستان کا دشمن اپنے کرائے کے ایجنٹوں کے ذریعے خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور بجائے پاکستان کی مدد کرنے کے امریکہ اور برطانیہ ہمارے اس ازلی اور روایتی دشمن کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کر نے میں مصروف ہیں۔
قاتل جس کی پناہ میں ہو گا‘ انگلیاں اسی کی جانب اٹھیں گی۔کیا بھارت اس سے انکار کر سکتا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان‘ بی ایل اے‘ بی آر اے کے سینکڑوں دہشت گرد اس وقت بھارت کی نگرانی میں افغانستان کی این ڈی ایس کی پناہ میں ہیں؟کیا افغانستان میں بھارت کی راء اور افغانستان کی این ڈی ایس تحریک ِطالبان پاکستان‘ اور دیگر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو اپنی سر پرستی میں نہیں لیے ہوئے ہیں ؟ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا‘ کیا امریکہ‘ برطانیہ اور نیٹو اس سے بے خبر ہو سکتے ہیں؟ براہمداغ بگٹی کی شکل میں بی ایل اے اور اس کو امداد دینے والے بھارت کی راء اور افغانستان کی این ڈی ایس کے چہرے سب کو بھول گئے ہیں؟ جب افغانستان میں بیٹھے ہوئے براہمداغ بگٹی اور مہران مری کے ساتھی پاکستان کے پرچم کی بے حرمتی کے منا ظر یو ٹیوب پر دنیا بھر کو دکھا رہے تھے ‘تو شہید ِپاکستان سراج رئیسانی نے بھارت ‘ افغانستان اور مغربی میڈیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ایسی پرائیویٹ فورس تیار کی‘ جو اپنے جوتوں پر بھارت کا ترنگا لپیٹ کر ہر قدم پر اسے پائوںتلے روندتی تھی۔ جب بلوچستان میں دہشت گردوں نے پاکستان کا پرچم لہرانا جرم قرار دے رکھا تھا‘ تو شہید ِپاکستان سراج رئیسانی نے سب سے طویل قومی پرچم لہرا کر '' گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں اپنا نام لکھوایا۔یاد رہے کہ رئیسانیوں کی ایک قربانی‘ ان کے جواں سال بیٹے کی صورت میں2011ء میں دہشت گردوں کا نشانہ بنتے ہوئے بھی دی جا چکی ہے۔
ملک میں دہشت گردی کی جو تازہ لہر اُٹھی ہے‘ اس ضمن میں اعتزاز احسن کے کہے ہوئے الفاظ کہ '' نواز شریف دیوار توڑنے تک جائے گا‘‘ اسے اب سنجیدگی سے لینا ہو گا‘ کیونکہ لندن کے صحافتی حلقوںمیں حسین حقانی‘ پرویز رشید اور مشاہد حسین کی براہمداغ سے ہونے والی ملاقاتوں اور شاہد خاقان عبا سی کا خاص پیغام لے کرایک کالعدم تنظیم کے سربراہ کے پاس جانے کی کہانیاں اب یورپ اور امریکہ میں بھی جگہ جگہ سنائی دے رہی ہیں۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ ان مبینہ ملاقاتوں کے بعد یکے بعد دیگرے ہارون بلور سمیت کئی پاکستانی شہید کر دیے جاتے ہیں ۔ بنوں میں اکرم درانی بال بال بچ جاتے ہیں ‘لیکن ان کے چار ساتھی شہید ہو جاتے ہیں اور پھر سراج رئیسانی کو ان کے 130 ساتھیوں سمیت شہید‘ جبکہ 152کو زخمی کر دیا جاتا ہے۔ قصور ان دونوں کا ایک ہی تھا کہ یہ جانباز پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر قومی پرچم کے سائے تلے‘ اس کی حفاظت کی قسم کھاتے ہوئے دشمن کو للکارتے تھے‘ لہٰذا پاکستان آرمی چیف کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے والے ہارون بلور اور سراج رئیسانی ‘ نریندر مودی اور اس کے دوستوں کو کس طرح برداشت ہو سکتے تھے۔
یقینا پاکستانیوںکی بہت بڑی اکثریت2006ء کے بعد ایسے وقت میں جب بلوچستان میں پاکستان کا پرچم لہراناتو بہت دور کی بات تھی‘ کسی کی زبان سے پاکستان کا لفظ نکالنا‘ بلوچستان بھر میں جرم ِعظیم سمجھا جاتا تھا اور اس جرم کرنے والے کو اگلے ہی دن کلاشنکوف کی درجنوں گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ تو اُس وقت شہید ِپاکستان سراج رئیسانی نے دنیا کا سب سے طویل قومی پرچم لہرا کر ملک دشمنوں کو للکارا ۔ جب بھارت کے ایجنٹ‘ بلوچستان میں پاکستانی پرچم کی حرمت کو پامال کرنا شروع ہوئے‘ تو شہید ِپاکستان سراج رئیسانی اپنے جوتوں کے گرد بھارت کا ترنگا لپیٹ کا گلیوں بازاروں میں گھوم کر بھارتی ایجنٹوں سے اس تحقیر کا بدلہ لیتا رہا۔
شہید ِ پاکستان سراج رئیسانی‘ قوم تجھ کو کبھی نہیں بھولے گی!