تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-07-2018

کون سی چڑیا بنیں گے‘ آپ؟

قدرتِ کاملہ کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے‘ جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ وہ اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ ہر چیز‘ ہر معاملہ اللہ کے تابع ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تن بہ تقدیر ہو رہیں۔ جو کچھ بھی اللہ نے طے کردیا ہے‘ وہ ہوتا ہے تو اللہ ہی کے حکم سے ہے ‘مگر اُس میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے‘ اپنا کردار بہرحال ادا کرنا ہوتا ہے۔ ایسے کیے بغیر ہم چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ حساب کتاب کے لمحات میں ہم سے یہ ضرور پوچھا جانا ہے کہ جو کچھ کرسکتے تھے وہ کیوں نہ کیا اور جو کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا وہ کیوں کیا۔ تقدیر کی حقیقت اتنی ہے کہ ہمیں اپنے حصے کا کام پوری دیانت اور جاں فِشانی سے کرنا ہے اور نتائج کو اللہ کی مشیت پر چھوڑ دینا ہے۔ یہ یقین ہمارے رگ و پے میں بسا ہوا ہونا چاہیے کہ خلوصِ نیت کے ساتھ کی جانے والی محنت کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتے کہ یہ اُن کی سُنّت کے خلاف ہے۔ 
ہماری زندگی میں پریشانیاں بھی ہیں اور الجھنیں بھی۔ اور یہ ہر طرح کی ہیں۔ ہم مالی مشکلات سے بھی نبرد آزما ہو رہے ہیں اور ذہنی الجھنوں سے بھی۔ جسمانی عوارض بھی لاحق ہیں اور روحانی بھی۔ زندگی کو اگر سِکّہ سمجھیے تو اس کے دو رخ ہیں۔ ایک مادّی اور دوسرا روحانی۔ جب ہم تن بہ تقدیر نہیں ہوتے‘ اللہ کی رضا کے مطابق تبدیل نہیں ہوتے تب خرابیاں ہمارے گھروں کا رستہ دیکھنے لگتی ہیں۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہ کریں اور سب کچھ اللہ کی مرضی پر چھوڑ کر ایک طرف بیٹھ رہیں۔ ایسی کیفیت کو راضی بہ رضا ہونا نہیں کہتے۔ یہ تو مشیّتِ ربّانی سے سراسر رو گردانی ہے۔ نتائج کس کے ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے‘ اعمال کے۔ نتائج کا معاملہ اللہ پر چھوڑنے کا مرحلہ تو اُس وقت آتا ہے جب ہم اعمال کے مرحلے سے گزرے ہوں‘ کچھ کیا ہو‘ اپنا حق اور فرض ادا کیا ہو۔ ہمیں دین کے تناظر میں سکھایا گیا ہے کہ نتیجہ اللہ کی مرضی پر چھوڑنا چاہیے‘ یعنی پہلے کماحقہ سعی کے مرحلے سے گزرنا ہے‘ اپنے حصے کا کام پوری ایمان داری سے کرنا ہے‘ تاکہ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے حوالے سے سوال کیا جائے‘ تو ہم اطمینان و فخر کے ساتھ یہ بتانے کی پوزیشن میں ہوں کہ پورے خلوصِ نیت کے ساتھ جو کچھ کرنا تھا‘ وہ کیا اور جس حد تک جانا چاہیے تھا ‘وہاں تک گئے۔ اس کے بعد کا معاملہ اللہ کا تھا۔ 
ہم زندگی بھر اسی خوش گمانی یا غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے ‘تو وہی ہمارے لیے راستہ نکالیں گے اور جو کچھ ہمارے لیے بہتر ہوگا ضرور کریں گے۔ یقیناایسا ہی ہے۔ اللہ کے حکم سے ہمارے لیے وہی ہوتا ہے‘ جس کے ہم مستحق ہوں۔ اگر محنت کی ہو تو محنت کا صلہ ملتا ہے اور اپنا کردار ادا نہ کیا ہو تو سزا بھی تیار ہے۔ 
ایک صاحب جان توڑ محنت کے باوجود حالات بہتر نہ ہونے پر بہتر معاشی امکانات کے لیے کسی دوسرے شہر کا قصد کرکے روانہ ہوئے۔ راستے میں انہیں ایک جگہ ایک لنگڑی لُولی چڑیا دکھائی دی۔ اُنہیں چڑیا پر بہت ترس آیا کہ یہ بچے گی کیسے اور اِسے کھلائے گا پلائے گا کون۔ ابھی وہ چڑیا کے لیے کچھ کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ ایک اور چڑیا آئی اور اپنی چونچ میں دبا ہوا کیڑا زخمی چڑیا کی چونچ میں تھماکر اڑ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ چڑیا پھر آئی اور اناج کے چند دانے زخمی چڑیا کی چونچ کے سپرد کیے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ صاحب‘ اللہ کی قدرت پر صدقِ دل سے مکمل ایمان لاتے ہوئے پلٹے اور واپس اپنے شہر پہنچ گئے۔ 
واپسی کے بعد وہ صاحب اپنے اُستاد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سفر میں زخمی چڑیا کو رزق کی فراہمی کا قصہ سنایا۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جب زخمی چڑیا کو رزق دے سکتے ہیں‘ تو مجھے کیوں محروم رکھیں گے۔ بات بالکل درست تھی ‘مگر اُن کے اُستاد کے ذہن میں کوئی اور نکتہ تھا۔ اُنہوں نے کہا ''زخمی چڑیا کو اللہ کی طرف سے رزق فراہم کیے جانے کا معاملہ انتہائی حوصلہ افزاء اور ایمان افروز ہے‘ تاہم کچھ اور بھی دیکھنا ضروری تھا۔ تم گھر میں بیٹھے رہوگے‘ تب بھی اللہ کی طرف سے رزق ملے گا ‘مگر زخمی چڑیا جیسا بننے کی بجائے تمہیں وہ چڑیا بننے کو ترجیح دینی چاہیے ‘جو زخمی چڑیا کی مدد کر رہی تھی!‘‘۔ 
ہم اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں‘ تو اللہ کی طرف سے رزق ضرور ملے گا‘ کیونکہ رزق کا وعدہ کیا گیا ہے‘ تاہم اس طور ملنے والے رزق میں توقیر کا پہلو تو نہ ہوگا۔ جو لوگ اللہ کے حکم کے مطابق اس دنیا میں اپنا کردار پوری دیانت سے ادا کرتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کو کسی صورت ترجیح نہیں دیتے‘ اُنہیں اللہ کی طرف سے ملنے والا رزق توقیر سے مزیّن ہوتا ہے۔ ہم چاہیں تو ایسی زندگی بھی بسر کرسکتے ہیں ‘جو دوسروں کے رحم و کرم پر ہو‘ بات بات پر دوسروں کی طرف سے امداد کی راہ دیکھی جائے۔ اور ہم ہی‘ اگر چاہیں‘ ایسی زندگی بھی بسر کرسکتے ہیں ‘جس میں اپنے ہی لیے نہیں‘ بلکہ اوروں کے لیے بہت کچھ ہو۔ اس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے کہ ہماری محنت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیں اس قدر دیں کہ اپنی ضرورت پوری کرچکنے کے بعد ہم اوروں کو دینے کے قابل بھی ہوں اور ایسا کرتے وقت اپنی زندگی میں کوئی کسر باقی رہنے کا احتمال نہ ہو؟ 
ہمیں کیسی زندگی بسر کرنی ہے‘ یہ خود ہم طے کریں گے۔ یہ کام ہمارے لیے کوئی اور نہیں کرسکتا۔ ہمی کو اس امر کا تعین کرنا ہے کہ ہم زخمی اور امداد کی منتظر چڑیا بنیں گے یا پھر ہمدرد و مددگار چڑیا۔ ہم‘ آپ اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں‘ تو کسی نہ کسی طور جی ہی لیں گے۔ حالیؔ کہہ گئے ہیں ؎ 
بُری یا بھلی سب گزر جائے گی 
یہ کشتی یونہی پار اُتر جائے گی 
مزا تو جب ہے کہ انسان اپنا کردار پوری دیانت سے ادا کرے‘ اُس کا ضمیر مطمئن ہو کہ جو کچھ اُسے کرنا چاہیے تھا وہ تو کیا۔ اور اتنا ہی کافی نہیں‘ بلکہ اپنی ضرورت سے بلند ہوکر دوسروں کے بھی کام آیا جائے۔ توقیر کے ساتھ اور بامقصد انداز سے جینے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان محض اپنی ضرورت بھر محنت نہ کرے ‘بلکہ کچھ ایسا کرے کہ دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق بھی نصیب ہو۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ بہتر زندگی کون سی ہے۔ وہ کہ جس میں دوسروں کی مدد کا منتظر رہا جائے یا پھر وہ جس میں انسان نہ صرف یہ کہ کسی پر بوجھ نہ بنے ‘بلکہ دوسروں کو مشکلات سے نجات دلانے میں معاون بھی ثابت ہو؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved