جب مکہ میں کفر اور اسلام کے درمیان کش مکش زوروں پر پہنچی‘ تو قریش نے محسوس کیا کہ ان کے تمام مظالم کے باوجود خود ان کے اپنے گھروں سے‘ ان کے بچے اور بچیاں اسلام کی طرف کھنچے چلے جارہے ہیں۔ جہاں اہلِ ایمان مظالم کی وجہ سے تنگی میں تھے‘ وہیں اہلِ کفر کی صفوں میں بھی شدید بے چینی اور اضطراب تھا۔ حضرت حمزہؓ اور پھر حضرت عمرؓ کا قبول اسلام تو کفار پر بجلی بن کر گرا۔ کفار کی مجلس میں ایک دن گفتگو ہورہی تھی۔ تمام سردار دارالندوہ میں بیٹھے ہوئے تھے ‘جبکہ آنحضورﷺ مسجدحرام کے ایک جانب اکیلے تشریف فرما تھے۔ اچانک عتبہ بن ربیعہ کو ایک خیال سوجھا۔ اس نے کہا: ''اے سردارانِ قریش! کیا یہ مناسب نہیں کہ میں محمدؐ کے پاس جاؤں اور اس سے بات چیت کروں‘ تاکہ اسے اس کام سے روکا جائے‘ جس کا بیڑا اس نے اٹھا رکھا ہے‘‘انہوں نے کہا: '' ہاں اے ابوالولید! اچھی بات ہے‘ جاؤ اور اس سے بات کرکے افہام وتفہیم کا کوئی راستہ نکالو۔ ‘‘
عتبہ آنحضورﷺ کے پاس آیا اور آپؐ کے پاس بیٹھ کر کہا: ''اے میرے بھتیجے! تو جانتا ہے کہ پوری قوم کے درمیان تیری بڑی عزت تھی اور تو نسب کے لحاظ سے بھی بہت اعلیٰ مقام پر ہے۔ اب تو اپنی قوم کے پاس ایک ایسی سخت بات لے کر آیا ہے‘ جس کے نتیجے میںقوم کے اندر تفرقہ پیدا ہوگیا ہے۔ تو اپنی قوم کے خداؤں کا انکار کرتا ہے اور اپنے آباؤاجداد کے دین کو کفر قرار دیتا ہے۔ گویا وہ سب کے سب گمراہ تھے۔ میری بات غور سے سنو میں تمہارے سامنے ایک پرکشش پیش کش کررہا ہوں‘ شاید تم اسے قبول کرلواور مسائل حل ہوجائیں‘‘۔
رسول اللہؐ نے عتبہ کی بات غور سے سنی اور فرمایا: '' اے ابوالولید! جو کہنا چاہتے ہو‘ کہیے میں ضرور سنوں گا‘‘۔ عتبہ نے کہا: ''اے بھتیجے! تیری قوم نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے کہ اگر تو مال چاہتا ہے ‘تو اتنا مال فراہم کردیتے ہیں کہ تو سب سے زیادہ امیر ہوجائے‘ اگر سرداری چاہیے‘ تو ہم تجھے سردار مان لیتے ہیں اور اگر تو محسوس کرتا ہے کسی جن نے تمہارے اوپر کوئی اثر ڈالاہے‘ تو ہم تیرے علاج معالجے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس میں جتنا مال خرچ ہوگا ‘ہم لگا دیں گے‘ تا کہ تو شفا پا جائے‘ اگر تو کسی بھی خاتون سے شادی کرنا چاہتاہے‘ تو ہم اس کا اہتمام کیے دیتے ہیں۔ اس کے بدلے میں ہم تم سے توقع رکھتے ہیں کہ تم اس کام کو چھوڑ دو‘‘۔
نبی کریمؐ نے فرمایا:'' اے ابوالولید! تم نے اپنی پوری بات کرلی ہے یا کچھ مزید بھی کہنا ہے؟‘‘ اس نے کہا:'' بس میں نے اپنی بات پہنچا دی‘‘۔ آپؐ نے فرمایا:'' میرا جواب سنو...‘‘ یہ کہہ کر آپ نے سورۂ حٰمٓ السجدہ کی تلاوت شروع کی۔
آپؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت۳۸) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا‘ پھر سراٹھا کر فرمایا:'' اے ابوالولید! میرا جواب آپ نے سن لیا‘ اب آپ جانیں اور آپ کا کام‘‘۔ عتبہ اٹھ کر سردارانِ قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا: ''خدا کی قسم عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے‘‘ جب وہ آکر بیٹھا تو لوگوں نے کہا: '' کیا سن آئے؟‘‘ اس نے کہا: '' بخدا! میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ یہ شعر ہے‘ نہ سحر ہے ‘نہ کہانت۔ سردارانِ قریش! میری بات مانو اورمحمدؐ کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ فرض کرو‘ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔وہ عرب پر غالب آگیا ‘تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی‘‘۔ سردارانِ قریش یہ بات سنتے ہی بول اٹھے: '' ولید کے ابا! آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا‘‘۔ عتبہ نے کہا: '' میری جو رائے تھی‘ وہ میں نے تمہیں بتا دی‘ اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو‘‘۔
اس قصے کو متعدد محدثین نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے‘ جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضور ﷺتلاوت کرتے ہوئے آیت ۱۳پر پہنچے : (اب اگر لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں) تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا: خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ بعد میں اس نے سردارانِ قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ لوگ جانتے ہیں محمدؐ کی زبان سے جو بات نکلتی ہے‘ پوری ہو کر رہتی ہے‘ اس لیے میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نازل نہ ہوجائے۔ [تفسیرابن کثیر‘ ج۴‘ ص۹۰-۹۱] گویا بدترین دشمن کو بھی یہ اعتراف تھا کہ محمدؐ جو بات زبان سے نکالتے ہیں‘ وہ بے وزن اور بے بنیاد نہیں ہوتی‘ بلکہ سچی اور محکم ہوتی ہے۔
بعض روایات کے مطابق نبی اکرمﷺ کے ساتھ عتبہ بن ربیعہ نے بھی سجدہ کیا۔ جب اسے قریش کے سرداروں نے اس پر عار دلائی تو اس نے کہا: '' اے سردارانِ قریش! خدا کی قسم آج جو میں نے کلام سنا ہے‘ اس کے اندر اتنی تاثیر ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں اور اس کی تاثیر سے میں نے بلا سوچے سمجھے اپنا سر سجدے میں رکھ دیا‘‘۔
عتبہ کی پیش کش کے جواب میں آنحضورﷺنے جو آیات پڑھیں‘ ان میں واضح طور پر اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اسلام کے اس دعوتی کام میں کوئی سودے بازی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''جن لوگوں نے کہا: اللہ ہمارا رب ہے اور وہ پھر اس پر ثابت قدم رہے‘ یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو‘ نہ غم کرو اور خوش ہوجاؤ‘ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے‘ تمہیںملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی‘ یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔
(حٰمٓ السجدہ۴۱:۳۰-۳۲)
اہلِ ایمان کی استقامت پر ملنے والے انعامات کا تذکرۂ ایمان افروز کرنے کے بعد داعی‘ دعوت اور اس دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے طریقۂ کار پوری جامعیت کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ یہ کام بڑا صبر آزما ہے‘ مگر جو اس راستے کا راہی بن جائے ‘اس کی خوش قسمتی پر خود قرآن گواہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ عتبہ نے کئی مواقع پر ایسی باتیں کہیں‘ جس سے اس کی عقل ودانش بھی ظاہر ہوتی ہے اور صلح جوئی وصلہ رحمی کا بھی احساس ہوتا ہے‘ مثلاً: اوپر جو واقعہ بیان ہوا ہے‘ اس میں عتبہ کا مشورہ کتنا صائب تھا۔ اسی طرح بدر کے میدان میں جب یہ سب لوگ آنحضورﷺکے مقابلے پر آئے‘ تو آپؐ نے لشکر کفار کی طرف دیکھا۔ عتبہ نے اپنے سر پر سرخ عمامہ پہن رکھا تھا اور اس وقت وہ ایک قیمتی سرخ اونٹ پر سوار تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ''اس سارے لشکر میں اگر کسی کے اندر کوئی خیر اور بھلائی ہے تو سرخ اونٹ والے کے پاس ہی ہوسکتی ہے‘ اگر یہ لوگ اس کی بات مان لیں‘ تو راہِ راست پر آجائیں‘‘۔
عتبہ نے جنگ سے پہلے کہا: ''میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی ہوگی ‘تو ہمیشہ کے لیے باہمی نفرت وکراہت دلوں کے اندر رہے گی۔ ہرشخص کہے گا کہ فلاں نے میرے بھائی‘ باپ‘ بیٹے‘ بھتیجے یا بھانجے کو قتل کیا ہے‘ میں اسے کیونکر معاف کرسکتا ہوں۔ اس لیے عقل مندی اور سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جنگ نہ کی جائے۔‘‘ ابوجہل تک جب یہ بات پہنچی ‘تو وہ آگ بگولا ہوگیا اور اس نے جل بھن کر کہا کہ '' عتبہ کی بزدلی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اس کا بیٹا (ابوحذیفہ) دوسری صف میں ہے اور وہ اس کی وجہ سے بھی کمزوری دکھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر محمدؐ کا جادو کام کر گیا ہے‘ مگر ہم تو اس گروہ کا خاتمہ کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے‘‘۔ ساتھ ہی اس نے پرجوش انداز میں کہا: '' خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے اور محمدؐ کے درمیان اللہ فیصلہ نہ کردے۔‘‘ حکیمانہ تجویز کا جواب جس جہالت کے ساتھ دیاگیا‘ بدبخت قوم نے اسی کو قبول کیا اور حکمت ودانائی کو مسترد کردیا۔جب عتبہ نے ابوجہل کی یہ بات سنی‘ تو اس کی بھی حمیت جاہلیہ پھڑک اٹھی۔ اس نے کہا: '' حنظلیہ کا بیٹا اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ جب لڑائی شروع ہوگی‘ تو قوم دیکھے گی کہ کس نے اپنی تلوار کے جوہر دکھائے ہیں۔ حنظلیہ ابوجہل کی والدہ کا نام ہے۔ اس کا نام اسماء بنت محرّبہ تھا اور اس کے آباؤاجداد میں دارم بن مالک بن حنظلہ کا نام آتا ہے۔ اسی حنظلہ کی طرف نسبت سے ابوجہل کی ماں حنظلیہ مشہور تھی۔ جنگ شروع ہوئی‘ تو اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ سب سے پہلے عتبہ ہی میدان جنگ میں اترا۔ بے چارہ بدنصیب تھا‘ ورنہ اس نے کئی مواقع پر جو باتیں کہیں‘ انہیں پڑھتے ہوئے دل میں خیال گزرتا ہے کہ وہ ہدایت کے بہت قریب پہنچ گیا تھا۔ (تفصیلات اور حوالہ جات کے لیے دیکھیے رسول رحمت مکہ کی وادیوں میں‘ جلد اول‘ ص۳۹۰-۳۹۶)