اس نے کہا : تم سب مجھے یہ سمجھانے کے لیے اکھٹے ہوئے ہو کہ لذتِ گناہ سے بھرپور اس عیاشی بھری زندگی کو میں ترک نہ کروں ۔ تمہارے ساتھ نائو نوش کی محفلوں میں شرکت کرتا رہوں ۔ یہ جان کر تم سب حیرت اور افسوس کی وادی میں گم ہو چکے ہو کہ تمہارا یار ایک طوائف سے شادی کرنے والا ہے ۔ تم مجھے یہ سمجھانا چاہتے ہو کہ تمہاری معیت میں دنیا کی حسین عورتوں سے دل بہلاتا رہوں اوربدلے میں ان پہ نوٹ لٹاتا رہوں ۔ میں بھی اسی زندگی میں خوش تھا ۔بھلا کون بیوی بچوں جیسی مصیبتیں پالنا چاہے گا اور وہ بھی شمال کے اس معاشرے میں ‘ جہاں ہم اپنی زندگیاں بتا رہے ہیں ۔ جہاں خدا پرست ہونا عیب سمجھا جاتا ہے ‘ جہاں شادی کم عقلی کہلاتی ہے ۔
اس نے کہا : اس روز میں ایک نئی طوائف سے ملنے ہی تو اس عالیشان ہوٹل گیا تھا۔جب اس لڑکی انتونیا نے وہاں قدم رکھا‘ تو اس کے بے مثال حسن کو میں دیکھتا رہ گیا۔ وہ کم عمر تھی اور قدرے گھبرائی ہوئی ۔ ہم نے مشرو بات منگوائے اور ہم ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے ۔ یہی وہ وقت تھا‘ جب وہ شخص وہاں داخل ہوا ۔ وہ موٹا تازہ تھا ‘ بڑھی ہوئی شیو‘ سر کے برائے نام بال بکھرے ہوئے ۔ اس نے ایک بچی اٹھا رکھی تھی ۔ اس کی عمر قریب ڈیڑھ برس ہو گی ۔ پھر اس نے اپنی بیٹی کو نیچے اتار دیا ۔اس بچی نے جو جوتے پہنے ہوئے تھے‘ اس میں چلنے سے آواز پیدا ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس پرسکون ماحول میں سب چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے ۔
ایسا لگتا تھا کہ وہاں سب لوگ اس شخص کو جانتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان میں سے کئی اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے ‘پھر اس نے ایک ویٹر کو اشارہ کیا اور وہ سر ہلاتا ہوا شاید اس کے لیے کھانا لینے چلا گیا۔ گویاکہ اسے معلوم تھا کہ اسے کیا کھانا ہے اور جلد ہی وہ اس کے لیے ایک پلیٹ میں تلے ہوئے آلو لے کر آگیا ۔
موٹے آدمی نے اپنی بیٹی کو میز پر ہی بٹھا دیا ۔ اس نے ایک آلو کا ٹکڑا اٹھایا‘چند لمحے اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا اور پھر وہ اپنی بیٹی کے منہ میں ڈال دیا ۔ جواباً اس کی ننھی منی سی بیٹی نے بھی ایک ٹکڑا اٹھایا او راپنے باپ کے منہ میں ڈال دیا ۔ دونوں مزے لے لے کر کھانے لگے ۔ یہ ٹکڑا کھانے کے بعد اس نے زور زور سے سر ہلایا‘زبان ہونٹوں پر پھیری ‘ جیسے اسے بہت مزا آیا ہو۔ جواباً اس کی بیٹی نے بھی یہی کیا۔ وہ دونوں مسکرا رہے تھے اور بھرپور خوشی سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔اس ڈیڑھ سالہ بچّی نے اب ایک نیا مشغلہ اختیار کیا ۔ وہ آلو اپنے باپ کے منہ کی طرف لے جاتی اور جیسے ہی وہ منہ کھولتا ‘ اپنے باپ کو کھلانے کی بجائے ایک دم خود کھا جاتی ۔ اس پر وہ اپنے چہرے پر حیرت اور افسوس کے مصنوعی تاثرات طاری کر لیتا اور وہ ہنس پڑتی ۔ اس ننھی بچی کی خوشی کا تو جیسے کوئی ٹھکانا نہیں تھا ۔ ادھر وہ موٹا سا آدمی بھی‘ جیسے مسرت سے نہال ہو رہا تھا ۔ جب وہ کافی دیر تک اسے دھوکہ دے کر خود کھاتی رہی‘ تو اب اس شخص نے ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ لیے اور مصنوعی طور پر رونے کی آوازیں نکالنے لگا۔ اس پر وہ ننھی لڑکی میز پر کھڑی ہو گئی ۔ اس نے اپنے باپ کے چہرے پر پیار دیا ‘ پھر آلو کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کے منہ میں ڈال دیا ۔ اس کے باپ نے اب خوشی سے دانت نکال لیے ۔ جواباً بیٹی بھی مسکرانے لگی ۔
اس نے کہا : اس ہال میں وہ دونوں ایک ایسی خوشی او رسرمستی کے عالم میں ایک دوسرے سے کھیل رہے تھے‘ کبھی جس کا تصور بھی میں نے نہیں کیا تھا۔ اس روز مجھے قدرے بخار بھی تھا اور میں سکتے اور حیرت کے عالم میں انہیں ایک دوسرے سے کھیلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا: جب وہ رونے کی مصنوعی آوازیں نکالتا‘ تو وہ اس کا سر اپنے سینے سے چمٹا کر اسے چومنے لگتی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو اس طرح محبت لٹاتے نہیں دیکھا تھا ۔ میرا جب بھی کسی عورت سے واسطہ پڑا‘ تو میں نے اسے نوٹ کے بدلے گناہ پر مجبور کیا۔ اس قدر سچی ‘ بے لوث ‘ صاف اور شفاف محبت ‘ جو وہ بچی اپنے باپ کو دے رہی تھی ‘ اس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ادھر اس شخص کا اصل ہدف یہ تھا کہ کسی طرح اپنی بیٹی کا پیٹ بھر دیا جائے ۔ مجھے تو صرف لالچ کے بدلے لالچ کا کھیل کھیلنا آتا تھا۔اس بے لوث محبت کو دیکھ کر مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی ۔
اس نے کہا: اب بچّی کا پیٹ قدرے بھر چکا تھا ۔ اب وہ کھیلنے کے موڈ میں تھی ۔ وہ ہال میں لگے پردوں کے پیچھے چھپ جاتی ۔ وہ شخص اسے ڈھونڈنے لگتا‘پھر وہ اس کے پائوں پہ ہاتھ لگا کر کہتا: یہ پائوں کس کا ہے ؟ وہ خوشی سے قلقاری مارتی ۔یہ بھی قہقہہ لگا تا ۔
اس نے کہا: اس لمحے ایک عجیب خواہش میرے دل میں پیدا ہوئی ۔ کاش !میری بھی کوئی بیٹی ہوتی‘ تو وہ مجھے اس قدر محبت دیتی اور میں اسے اس قدر محبت دیتا ۔ مجھ سے سچی محبت کرنے والا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا ‘ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ اولاد سے لاڈ کرتے ہوئے انسان کو کس قدر مسرت ملتی ہے‘ تو میں کب کا شادی کر چکا ہوتا ۔ میری زندگی کا پانچواں عشرہ شروع ہو چکا تھا ۔ میں بہت لیٹ ہو چکا تھا ۔ میں بے اختیار رونے لگا ۔
اس نے کہا: ایک لمحے کے لیے میری نظر انتونیا پہ پڑی ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بھی باقاعدہ آنسوئوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ غم کی شدت سے وہ ہچکیاں لے رہی تھی ۔ اس نے کہا : میرا باپ بھی مجھے اسی قدر محبت کرتا تھا ۔ اس نے کہا: میرا باپ بہت اچھا شخص تھا ۔ میں نے پوچھا : کیا تمہارا باپ مر چکا ہے ۔ اس نے کہا: اگر وہ زندہ ہوتا‘ تو کیا میں اس کی جیب سے پیسے نکال کر اپنی ضرورت پوری نہ کر لیتی ۔ کیا میں طوائف بننا پسند کرتی اور کیا وہ مجھے طوائف بننے دیتا ۔ جو باپ واقعی زندہ ہوں‘ وہ بھلا کب اپنی بیٹیوں کو طوائف بننے دیتے ہیں ۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے شادی کرے گی ؟ اسے یقین نہیں آیا اور جب آیا ‘توپھر جذبات کی شدت میں وہ چیخیں مار مار کے رونے لگی۔ سب لوگ ہمارے پاس آکھڑے ہوئے ۔ ان میں وہ موٹا شخص بھی تھا۔ اس نے کہا: محترم خاتون ، آپ پریشان نہ ہوں ۔ خد اآپ کو بھی اولاد دے گا ۔یہ سن کر اس کی چیخیں اور بلند ہو گئیں ۔وہ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم دونوں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے رو رہے ہیں ۔ ہم کس غم سے گزر رہے تھے‘ انہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا ۔
اس نے کہا : میرے دوستو! ایک آدم زاد جب حوّا کی ایک بیٹی کو سہارا دینے پر تل جائے ۔جب وہ اسے اپنی عورت بنانے پہ تل جائے‘ تو وہ اس کا طوائف ہونا بھی نظر انداز کر دیتاہے ۔ اپنے جس دوست کو تم سمجھانے آئے ہو‘ وہ مر چکا ہے اور مرے ہوئے کب کوئی بات سنا کرتے ہیں !