تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     31-03-2013

امریکہ سے ایک فون

گزشتہ دنوں امریکہ سے ایک دوست کا ٹیلی فون آیا۔ یہ دوست امریکہ میں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے۔ امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک شہر میں رہائش پذیر ہے اور اسی شہر میں قائم پاکستانیوں کی تنظیم کا صدر ہے۔ یہ خاصا بڑا شہر ہے۔ کسی زمانے میں لوہے کی صنعت کے حوالے سے امریکہ بھر میں اپنا خاص تشخص رکھتا تھا مگر اب میڈیکل کی تعلیم کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں قائم پاکستانیوں کی یہ تنظیم دنیا بھر میں بے شمار پاکستانیوں کی تنظیموں کی اکثریت کے برعکس دھڑے بندی اور انتشار سے بچی ہوئی ہے۔ خاصی منظم ہے اور اس کے ممبران کا آپس میں خاصا قریبی تعلق ہے۔ میرے اس دوست کے صدر بننے کے بعد اس تنظیم کے خدوخال پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور ثقافتی حوالوں سے خاصے بہتر ہوئے ہیں اور اب ان کے فنکشنز میں ڈھول ڈھمکا وغیرہ کے بجائے دیگر مثبت سرگرمیوں پر زور دیا جاتا ہے۔ تنظیم کی زیادہ توجہ بچوں پر ہے اور وہ امریکہ میں رہنے والے اور پیدا ہونے والے بچوں کی کردار سازی بحیثیت مسلمان کرنے پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور عیدین وغیرہ پر ہونے والے پروگرامز اور تقریبات میں بچوں کو اوّلیت حاصل ہے۔ میرا یہ دوست خاندانی اور جماعتیہ ہے۔ خود اس کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، اس کے والد، چچا، دادا حتیٰ کہ سسرالی تک جماعت اسلامی کے صرف حامی یا ووٹر نہیں بلکہ رکن اور بڑے تنظیمی عہدیدار ہیں یا رہے ہیں۔ وہ دوست فون پر بات کرتے ہوئے بڑا جذباتی ہورہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آخر جماعت اسلامی والوں نے ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھا؟ جماعت اسلامی کا ایک مخصوص طبقہ میاں صاحبان کی محبت میں اتنا قربان کیوں ہوا جارہا ہے؟ صرف لاہور کی تین سیٹوں کے لیے پوری جماعت اسلامی کو اور اس کے تشخص کو دائو پر کیوں لگایا جارہا ہے؟ وہ کہنے لگا: جماعت اسلامی کو ملنے والی مالی اعانت میں امریکہ میں رہنے والے جماعت اسلامی کے متعلقین کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ ارکان کی تعداد کے اعتبار سے شاید وہ بہت زیادہ نہ ہوں مگر جماعت اسلامی کو مالی حوالے سے ملنے والی کل اعانت کا ایک بڑا حصہ جماعت اسلامی کے محبی امریکہ سے بھجواتے ہیں۔ میں امریکہ میں مقیم جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والوں اور محبت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ کسی نہ کسی حوالے سے ان سے بلاواسطہ یا بالواسطہ رابطے میں ہوں۔ یہاں امریکہ میں رہنے والے اکثر پاکستانی اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والوں کی غالب اکثریت جماعت اسلامی کے مسلم لیگ ن سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے شدید خلاف ہے اور یہی حال جمعیت علمائے اسلام کا ہے۔ دونوں نے جماعت اسلامی کو خراب بھی کیا اور برباد بھی کیا۔ اب جماعت اسلامی کے ارکان کا ایک حصہ پھر انہی دونوں سے اتحاد کا خواہاں ہے۔ خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن سے اور پنجاب میں وہ میاں نوازشریف سے انتخابی معاملات میں تعاون کی کوششوں میں ہیں۔ یہ دونوں فریق یعنی جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ ن رہی سہی جماعت اسلامی اور اس کی نیک نامی کو برباد کرکے رکھ دیں گے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں جماعت اسلامی کو اکیلے انتخابی معرکے میں اترنا چاہیے؟ وہ کہنے لگا میں ایسی احمقانہ بات نہیں کروں گا۔ موجودہ صورتحال میں جماعت اسلامی اکیلے کوئی معرکہ سر کرنے کی پوزیشن میں تو ہرگز نہیں لیکن اس نازک وقت میں مناسب لوگوں کے ساتھ مل کر ملک کی آئندہ کی صورتحال میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ یہ انتخابات بڑے اہم ہیں اور اس کے نتائج پر پاکستان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اگر اس مرتبہ ہم لوگ‘ جو معاشرے کی تبدیلی کے داعی ہیں‘ ناکام یا فیصلہ کرنے میں غلطی کے مرتکب ہوئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ بات بجا کہ ہم شاید زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتے مگر بہت سی سیٹوں پر جتوانے یا ہروانے کی پوزیشن میں ہیں۔ ہمارا مطمحِ نظر کسی کو ہروانا نہیں بلکہ لوگوں کو جتوانا ہونا چاہیے۔ گزشتہ سال آپ جب ہمارے پاس آئے تو آپ سے اس سلسلے میں تفصیلی بات ہوئی تھی۔ ہمارا بھی یہی فیصلہ تھا اور اب بھی یہی ہے کہ جماعت اسلامی کو ان انتخابات میں عمران خان سے اتحاد کرنا چاہیے کہ ہمارے مقاصد کے قریب ترین صرف عمران خان ہے۔ ہمارا مطمحِ نظر انصاف، کرپشن فری سوسائٹی کا قیام اور غیر طبقاتی معاشرتی نظام کا آغاز ہے۔ تین تین بار کے آزمائے ہوئے اور بار بار دھوکہ دینے والوں سے کوئی اچھی امید رکھنا نری حماقت ہے۔ پٹے ہوئے مہروں سے کسی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ مرے خیال میں کیاہورہا ہے۔ میں نے کہا کہ میں اس سلسلے میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ جماعت اسلامی کا لاہور گروپ بہرحال مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتا ہے۔ وہ اپنی دو تین سیٹیں پکی کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں بس اپنی سیٹوں کی فکر ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف میں بھی ’’شکروں‘‘ کا میرا مطلب ہے HAWKS کا ایک گروہ ہے جو کسی صورت نہیں چاہتا کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں کوئی معاملہ طے ہوجائے۔ سید منور حسن اور دیگر کچھ لوگوں کا رویہ بڑا مثبت ہے مگر ٹریفک یکطرفہ نہیں چلتی۔ دو طرفہ تعاون بڑا ضروری ہے۔ جماعت اسلامی میں پی ٹی آئی کا ایک حمایتی گروپ موجود ہے اور اسی طرح تحریک انصاف میں بھی ایک جماعت اسلامی گروپ ہے مگر دونوں کو چھوٹے چھوٹے شکرا گروپوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کا میاں نوازشریف حمایتی گروپ یہ نقطہ نظر پیش کرتا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن سے تعاون نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ جماعت اسلامی کو اسمبلیوں میں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی بلکہ پیپلزپارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہ وہ ’’ڈراوا‘‘ ہے جس کی بنیاد پر پھر جماعت اسلامی کا لاہوری گروپ مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا جواز بنا رہا ہے۔ اوپر سے اللہ کے فضل سے تحریک انصاف کا ایک مہم جُو گروہ اکیلی پرواز کا دعویدار اور کلین سویپ کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ یہ خود بھی خوار ہوگا اور جماعت اسلامی کو بھی خراب کرے گا۔ مثلاً میں صرف ایک حلقہ کی بات کروں گا۔ یہ حلقہ این اے 149 ملتان ہے۔ یہاں سے لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی، عامر ڈوگر اور طاہر رشید امیدوار ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پیپلزپارٹی کے عامر ڈوگر کے جیتنے کے امکانات نسبتاً بہتر ہیں۔ اس حلقے میں جماعت اسلامی کے اٹھارہ سے بیس ہزار ووٹ ہیں۔ وہ شاید یہ سیٹ جیت نہ سکیں مگر جاوید ہاشمی کو ضرور ہروا سکتے ہیں۔ اگر اس حلقے میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجائے تو یہ سیٹ جیتنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ اسی طرح اور بہت سے حلقے ہیں حتیٰ کہ لاہور میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مل کر مناسب سیٹیں نکال سکتے ہیں مگر لاہوری گروپ ماضی کے تجربات سے ڈرا ہوا ہے اور یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ چکی ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی حمایت کے بغیر لاہور میں نہیں جیت سکتے۔ میرا دوست کہنے لگا: آپ ان کو سمجھاتے کیوں نہیں؟ میں ہنسا اور اس سے کہا اس گروپ میں آپ کے قریبی عزیز پیش پیش ہیں۔ آپ خود ان کو کیوں نہیں سمجھاتے۔ وہ بڑی بے چارگی سے کہنے لگا‘ آپ کو پتہ ہے کہ وہ سب میرے بزرگ ہیں اور میں ان سے اس طرح بات نہیں کرسکتا جس طرح آپ سے کرسکتا ہوں یا آپ ان سے کرسکتے ہیں۔ فون بند کرنے سے پہلے اس نے مجھے تاکید کی کہ اگر اس موضوع پر میں کچھ لکھوں تو براہ کرم اس کا نام نہ لکھوں۔ اس کی عرضداشت کی تعمیل میں اس دوست کا نام نہیں لکھا جارہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved