تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     18-07-2018

نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی

توقع کے عین مطابق لندن سے واپسی کے بعد لاہورمیں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے استقبال پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان بحث شروع ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اسے ایک فلاپ شو قرار دے رہے ہیں‘ جبکہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف اسے ایک تاریخی استقبال قرار دیتے ہیں۔ فریقین کے دعووں سے قطع نظر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نہ صرف لاہور‘ بلکہ پورے صوبہ پنجاب میں جلوسوں اور ریلیوں کا راستہ روکنے کیلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں‘ تا کہ (ن) لیگ کے ورکرز لاہور ایئر پورٹ نہ پہنچ سکیں۔ ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے قافلے اور جلوسوں کو بھی مختلف مقامات پر روکا گیا‘ تا کہ احتجاجی عوام ایک جگہ اکٹھے نہ ہو سکیں۔ اس کے باوجود میڈیا ذرائع کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد باہر نکلی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہجوم بہت پر جوش تھا۔ تاہم جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ خوش قسمتی سے پورے نہیں ہوئے۔ (ن) لیگ کے ورکرز کی ریلیوں کو شہر کے اندر اور باہر روکنے والی پولیس کے دستوں میں اِکا دُکا واقعات کے علاوہ کوئی ایسا بڑا ٹکرائو یا تصادم نہیں ہوا جس میں دونوں طرف خدانخواستہ کوئی نقصان ہوتا۔ اس کا کریڈٹ پنجاب کی نگران حکومت اور احتجاج کرنے والے یا اپنے قائد نواز شریف کا استقبال کرنے کیلئے ائیر پورٹ کی طرف بڑھنے والے لیگی کارکنان دونوں کو جاتا ہے۔ پنجاب حکومت نے امن و امان اور سلامتی کے لازمی تقاضوں کے مطابق ٹھوس انتظامات کیے تھے ‘جو کہ ہر حکومت کو ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن 13 جولائی سے پہلے ہی (ن) لیگ کے کارکنوں اور رہنمائوں کی جس طرح پکڑ دھکڑ کی گئی وہ ناقابل فہم ہی نہیںقابل مذمت بھی ہے‘ کیونکہ ان اقدامات سے کسی بھی پارٹی کی طرف سے پر امن طور پر جلوس نکالنے اور احتجاج کرنے کے جمہوری حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لیگی قیادت کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی ان اقدامات پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں۔
13 جولائی کو لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے سپورٹرز کا بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر باہر نہ نکلنے کی طرف اشارہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ مسلم لیگ پاکستان کی تمام تاریخ میں ایک اجتماعی پارٹی نہیں رہی۔ اسے سیاسی ایجی ٹیشن کا نہ تجربہ ہے نہ اور نہ اس پر خاطر خواہ ملکہ حاصل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف آئی جے آئی کی احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے میں مسلم لیگ کا نہیں بلکہ جماعت اسلامی کا زیادہ کردار تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی طرف سے احتجاجی جلوس کی اگر کوئی نمایاں مثال ہے تو وہ 1958ء کے مارشل لاء سے قبل خان عبدالقیوم کی خان کی طرف سے جہلم سے راولپنڈی تک کا احتجاجی مارچ ہے‘ لیکن اس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے دراصل صدر اسکندر مرزا کا ہاتھ تھا‘ جو اُس وقت کے کمانڈر انچیف ایوب خان کے ساتھ مل کر ملک میں پارلیمانی نظام کی بساط الٹنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لانگ مارچ کے فوراً بعد فوج نے وزیراعظم ملک فیروز خاں نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کر دیا اور 1956 ء کے پارلیمانی دستور کو منسوخ کر دیا۔ ملک کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلم لیگ ایک ا یجی ٹیشنل یا احتجاجی پارٹی نہیں رہی۔ دوسرے الفاظ میں اس کے پاس ایجی ٹیشنل سیاست کی مہارت نہیں۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد اس پارٹی کو پہلی مرتبہ اپنے دفاع کیلئے سڑکوں پر آنا پڑا ہے۔ اس پارٹی کے ووٹ بینک میں ایسے لوگ کم ہیں جو تحریک انصاف کے نوجوان اور پر جوش ورکرز کی طرح سیاسی ایجی ٹیشن میں فوراً کود پڑنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک زیادہ تر معاشرے کے ان حصوں پر مشتمل ہے جو قدم اٹھانے سے پہلے دل سے زیادہ دماغ کی بات مانتے ہیں‘ یعنی جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتے ہیں۔ سیاست ہی سنجیدگی اور شائستگی کو پسند کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیاست میں جذباتیت اور جارحانہ انداز منفی نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی سپورٹرز کا بڑا حصہ جو نوجوانوں پر مشتمل ہے‘سیاست میں جارحیت‘جذباتیت‘ مخالفین کے پرخچے اڑانے اور جلد از جلد اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواہش مند ہیں۔ اب یہ سوشل سائنسدانوں کا کام ہے کہ وہ تحقیق کے ذریعے معلوم کریں کہ ہمارا نوجوان طبقہ سیاسی سرگرمیوں کے دوران غصے‘ نفرت‘ بے صبری اور عدم برداشت کی طرف کیوں مائل ہو رہا ہے؟ کیا یہ عمر کا تقاضا ہے یا ہمارے سیاسی رہنمائوں کا قصور‘ جو نوجوانوں کی توانائی کو مثبت سمت لے جانے کی بجائے اسے منفی مقاصدکی طرف دھکیل رہے ہیں؟
مستونگ میں ایک انتخابی جلسے میں خود کش حملے میں شرکاء کی ایک بڑی تعداد کی شہادت اور زخمی ہونے کے اندوہناک واقعہ نے بھی یقیناً مسلم لیگ (ن) کے احتجاجی پروگرام کو متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی کا یہ اتنا بڑا اور تباہ کن واقعہ ہے کہ اس نے نہ صرف پورے ملک میں سوگ اور خوف کی فضا پیدا کر دی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا نوٹس لیا گیا ہے۔ بیشتر سیاسی پارٹیوں‘ جن میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی بھی شامل ہے‘ نے اپنی انتخابی مہم روک دی ہے‘ امریکہ کے محکمہ خارجہ‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے مستونگ میں ہونے والی دہشت گردی کی پر زور مذمت کی۔ دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعہ سے پاکستان کی سیاسی فضا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس واقعہ کے بعد انتخابی جلسوں اور جلوسوں میں حاضرین کی تعداد میں یقیناً کمی واقع ہو گی اور لوگ باہر نکلنے سے گریز کریں گے۔ لیکن اس سے ووٹرز کی پارٹی وابستگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہر پارٹی کا ایک کور ووٹ بینک ہے‘ اس میں آئندہ دس دن میں کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں‘ البتہ ووٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد جو نہ جلسوں میں باقاعدگی سے حاضر ہونے اور نہ نعرے لگانے والوں پر مشتمل ہے‘ آخری وقت تک نان کمیٹڈ رہے گی۔ جو پارٹی ان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی وہی دوسری پارٹیوں پر سبقت لینے میں کامیاب ہو گی۔ ذرا پیچھے رہ کر تماشا دیکھنے والے یہ لوگ فیصلہ سازی میں بڑی حقیقت پسندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر جہاندیدہ اور بالغ نظر ہوتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر کسی پارٹی یا امیدوار کے حق میں اپنا فیصلہ نہیں کرتے۔ شہروں میں رہنے والے ان لوگوں کا تعلق متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر انتخابی سیاست کو اپنے پیشہ ورانہ مفاد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سوچ کے اعتبار سے قدامت پسند ہوتے ہیں اور روایتی اقدار یعنی خوش گفتاری‘ مستقل مزاجی‘ شائستگی‘ بڑوں کی تعظیم‘ بردباری‘ حوصلہ اور صبر کے مالک افراد کو پسند کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں ان کا تعلق کاشتکاری‘ زرعی شعبے سے منسلک پیشوں اور کاروبار سے ہوتا ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں یا امیدوار جو ان کے مفادات کی رہنمائی کرنے کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل میں ان کو بوقت ضرورت دستیاب ہوتے ہیں‘ ان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب تک کئے جانے والے سروے کے مطابق باقی عام پارٹیوں کے مقابلے میں( ن) لیگ کو ان طبقات کی زیادہ حمایت حاصل ہے۔ لیکن ان طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ایجی ٹیشنل سیاست سے دور رہتے ہیں۔ اس لئے لاہور میں اگر مسلم لیگ (ن) کے سپورٹرز ائیر پورٹ تک نہیں پہنچ سکے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہو گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved