ہم آئے دن آخبارات ‘ رسائل اور میڈیا پر مختلف طرح کے حادثات کے حوالے سے خبرو ں اور تجزیوں کو پڑھتے رہتے ہیں۔ ہر حادثے کے نتیجے میں بہت سے قیمتی انسان دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور بہت سے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں ۔ انسانوں کے دنیا سے طبعی اور غیر طبعی انداز میں جانے کا سلسلہ انسانیت کے آغاز سے لے کر آج تک جاری وساری ہے۔ دنیا میں انسان کے لیے بہت سی پرُ کشش اور توجہ طلب اشیاء موجود ہیں۔ انسان کو گھر بار کی محبت‘ اعزء اقارب کا پیار‘ کھیتوں‘ کھلیانوں کی کشش اور خوبصورت موسم مسحور کیے رکھتا ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بالعموم انسانوں کی جدوجہد کا بہت بڑا مقصد دنیا کی زندگی کو سنوارنا ہوتا ہے۔ انسانوں کی غالب اکثریت کا ہدف خوشحالی اور کشادگی ہے۔ اسی حوالے سے کاروبار‘ ملازمتوں اور دیگر پیشوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بالعموم انسان ہر آئے دن ہونے والی اموات کو دیکھ کر بھی موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری پر آمادہ وتیار نہیں ہوتا۔ ہم میں سے ہر شخص نے اپنے اعزء واقارب ‘ دوست احباب یا پیاروں کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور ان کی جدائی کی تکلیف کو بڑی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے‘ لیکن پھر بھی فانی انسان ناجانے کیوں غلط فہمی اور مغالطے کا شکار رہتا ہے کہ شاید موت مجھے نہیں چھوئے گی۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے‘ لیکن انسان کے تخیلات اور تصورات ‘ افکار ‘ جدوجہد اور کاوشوں پراس کے اثرات بہت کم نظر آتے ہیں‘ تاہم انسانوں کی ایک قلیل تعداد اپنے گردوپیش پر غور کرنے اور کتاب وسنت میں مذکور حقائق کی معرفت حاصل کرنے کی وجہ سے موت کی حقیقت کو بھانپ لیتی ہے اور موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کے لیے اپنی صلاحیتوں کے مطابق تیاری بھی کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہے‘ جس طرح دنیا کے امتحانات میں کامیابی کے لیے ان کی تیاری کرنا ازحد ضروری ہے‘ اسی طرح موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی میں کامیابی کے لیے بھی محنت اور جستجو کرنا ازحد ضروری ہے۔ موت کے بعد آنے والی زندگی اور اخروی کامیابی کے حوالے سے کلام ِاللہ کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی کو حاصل ہو گی ‘جو آگ کے عذاب سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائے۔ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں ارشاد ہوا:
''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائیگا قیامت کے دن تمہارے اعمال کا بدلہ ۔ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی‘ مگر دھوکے کا سامان۔ ‘‘اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ سے بچ کر جنت کا حصول حقیقی کامیابی ہے۔
قرآن مجید کے متعدد مقامات پر جنت کے حسین مناظر کا ذکر ہے۔ ان مناظر پر غورو خوض کرنے کے بعد انسان میں جنت کے حصول کے لیے ایک رغبت پیدا ہوتی ہے اور انسان کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جنت ایک ایسی جگہ ہے‘ جہاں پر انسان کو اپنے تصورات سے بھی بڑھ کر نعمتیں حاصل ہوں گی اور انسان میں جنت کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن ِمجید میں جنت کے حسین مناظر کے حوالے سے قرآن مجید کے چند مقامات درج ذیل ہیں:
سورہ واقعہ کی آیت نمبر 1 سے40تک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
''جب واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔ اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔ (کسی کو) پست کرنے والی (اور کسی کو) بلند کرنے والی ہو گی۔ جب زمین ہلائی جائے گی ‘بڑے زور سے اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے ۔پس وہ ہو جائیں گے پھیلا ہوا غبار۔ اور تم ہو جاؤ گے تین اقسام میں۔ پس دائیں ہاتھ والے کیا(ہی مزے میں ) ہیں دائیں ہاتھ والے ۔ اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) کیا (ہی برے حال میں) ہیں بائیں ہاتھ والے۔ اور سبقت کرنے والے (ان کا کیا ہی کہنا) (وہ تو) آگے ہی بڑھنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہی (اللہ کے ) مقرب ہیں۔ نعمت والی جنتوں میں ہیں۔ بہت بڑی جماعت پہلے لوگوں میں سے ہو گی اور بہت تھوڑے سے پچھلوں میں سے ہوں گے۔ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر (آرام کر رہے ہوں گے) ۔ ان پر ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھنے والے ہوں گے۔ ان پر چکر لگائیں گے (ایسے) لڑکے (جو) ہمیشہ (لڑکے ہی) رکھے جانے والے ہیں۔ آب خوروں اور صراحیوں کے ساتھ اور لبریز جام (شراب کے) بہتے ہوئے چشمے سے۔ نہ اس سے وہ سر درد میں مبتلا کیے جائیں گے اور نہ (ہی ان کی) عقلیں زائل ہوں گی۔ اور پھل (کیے ہوئے ہوں گے) اس سے جو وہ پسند کریں گے۔ اور پرندوں کا گوشت
(اس) سے جو وہ چاہیں گے ۔اور موٹی موٹی آنکھوں والی حوریں (ہوں گی) جیسے موتی چھپا کر رکھے ہوئے ہوں۔ (یہ) بدلہ ہے ‘اس کا جو وہ عمل کرتے تھے۔ اس (جنت)میں وہ بیہودہ گفتگو نہیں سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی کوئی بات‘ مگر سلام ہو سلام ہو کی پکار ہو گی۔ اور داہنے ہاتھ والے ! کیا (ہی خوب) ہیں ‘داہنے ہاتھ والے۔ کانٹے دور کی ہوئی بیریوں میں۔ اور تہہ بہ تہہ لگے ہوئے کیلوں (میں) اور لمبے (یعنی پھیلے ہوئے ) سائے (میں) اور گرائے جانے والے پانی (یعنی آبشاروں میں) اور وافر پھلوں میں ہوں گے ۔ (جو کبھی) ختم نہ ہوں گے اور نہ (اس سے ) کوئی روک ٹوک ہو گی۔ اور بلند کیے ہوئے بستروں میں ہوں گے۔ بے شک ہم نے (ان کے لیے )(حوروں) کو پیدا کیا (خاص طو رپر ) ۔ پس ہم نے بنا دیا ‘ انہیں کنواریاں۔ (شوہروں کی) پیاریاں (اور) ہم عمر ۔ داہنے ہاتھ والوں کے لیے۔ ایک بڑی جماعت پہلے لوگوں میں سے اور ایک بڑی جماعت پچھلوں میں سے ہے ۔‘‘
اسی طرح سورہ دھر کی آیت نمبر5سے 22میں ارشا د ہوا :
''بے شک نیک لوگ پئیں گے (ایسے جام ) سے (کہ) ہو گی‘ اس میں ملاوٹ کافور کی۔ (وہ) ایک چشمہ ہے پئیں گے‘ اس سے اللہ کے بندے بہالے جائیں گے اسے (جدھر چاہیں گے) خوب بہا کر لے جانا۔ وہ پوری کرتے ہیں(اپنی ) نذر کو اور ڈرتے ہیں اس دن سے (کہ) ہے اس کا شر پھیل جانے والا۔ وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی (یعنی اللہ کی) محبت پر (یا اپنی پسند اور ضرورت کے باوجود) مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔ (کہتے ہیں)ہم تو صرف کھلاتے ہیں‘ تمہیں اللہ کی رضا کے لیے ہم نہیں چاہتے تم سے کوئی بدلہ اور نہ کوئی شکریہ۔ بے شک ہم ڈرتے ہیں‘ اپنے رب سے اس دن سے (جو) منہ بگاڑ دینے والا سخت ہو گا۔ تو بچا لے گا انہیں اللہ اس دن کے شر (عذاب) سے اور عنائت فرمائے گا‘ انہیں تازگی اور سرور ۔ اور بدلہ دے گا انہیں اس وجہ سے جو انہوں نے صبر کیا جنت (کی نعمتوں) کا اور ریشمی (ملبوسات) کا۔ تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اس میں تختوں پر۔ اس میں نہیں دیکھیں گے سخت دھوپ اور سخت سردی۔ اور جھکے ہوئے ہوں گے ان پر اس کے (درختوں کے) سائے ۔اور قریب کیے جائیں گے اس کے پھل خوب قریب کیے جائیں گے۔ اور پھرایا جائے گاان پر چاندی کے برتنوں کو اور آبخورے (گلاس) شیشے کے ہوں گے۔ شیشے بھی چاندی سے (بنے ہوئے ہوں گے) انہیں خوب اندازے سے بنایا گیا ہو گا۔ اور وہ پلائے جائیں گے اس میں(ایسا ) جام(کہ) ہو گی اس کی آمیزش سونٹھ کی۔ وہ ایک چشمہ ہے ‘اس (جنت) میں اس کا نام سلسبیل رکھا گیا ہے اور گھوم رہے ہوں گے ان پر (ایسے ) لڑکے(جو) ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے‘ جب تو دیکھے گا انہیں تو خیال کرے گا‘ انہیں بکھرے ہوئے موتی۔ اور جب تو دیکھے گا ‘وہاں(تو) تو دیکھے گا نعمت (ہی نعمت) اور عظیم (الشان) سلطنت۔ ان (جنتیوں کے بدنوں) پر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے۔اور موٹا ریشم ہو گا اور وہ پہنائے جائیں گے‘ چاندی کے کنگن ۔اور پلائے گا‘ انہیں ان کا رب پاکیزہ شربت۔ بے شک یہ تمہارے لیے بدلہ اور ہے تمہاری کوشش قابل ِقدر ہے۔‘‘
اسی طرح سورہ غاشیہ کی آیت نمبر 8سے 16تک میں ارشاد ہوا:
''کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ اپنی کوشش پر خوش ہوں گے۔ بلند جنت میں ہوں گے۔ نہیں سنیں گے‘ اس میں کوئی لغویات۔ اس میں ایک چشمہ جاری ہوگا۔ اس میں تخت ہوں گے اونچے اونچے۔ اور آبخورے(قریب سے) رکھے ہوں گے ۔اور گاؤ تکیے قطاروں میں لگے ہوں گے۔ اور مخملی قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔‘‘
اسی طرح سورہ کہف کی آیت نمبر 107‘108میں ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ہوں گے ‘ان کے لیے فردوس کے باغات بطورِ مہمانی۔ (وہ) ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں ۔وہ نہیں چاہیں گے ‘اس سے جگہ بدلنا۔‘‘
مذکورہ بالا آیات مبارکہ پر غور کرنے کے بعد اس بات کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں کہ جنت ایک ایسا مقام ہے‘ جس میں جانے کے بعد انسان کی ہر خواہش پوری ہو جائے گی اور ہر انسان کی خواہش ہو گی کہ اس کے مقام کو تبدیل نہ کیا جائے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہے۔ اس ہمیشہ رہنے والی نعمت کے حصول کے لیے اللہ نے دنیا میں جو ہمیں موقع دیا ہے۔ اس میں جہاں پر ہمیں امور دنیا کی انجام دہی کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں‘ وہیں پر جنت کے حصول کے لیے بھی تگ ودو کرنی چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے سورہ بقرہ میں مذکور دعا مانگنی چاہیے کہ '' اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا بھی اچھی عطا کر اور آخرت بھی اچھی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘ آمین !