دنیا بہت بدل گئی ہے۔ کسی ایک سہولت کا اہتمام کرنے نکلئے‘ تو مسابقت کی بھول بھلیّاں میں کھو جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ بازار میں ہر چیز کے اتنے ورژن اور ماڈل دستیاب ہیں کہ بسا اوقات انتخاب کا مرحلہ انسان کو اُسی طور بدنام کر گزرتا ہے‘ جس طور شعروں کے انتخاب نے غالبؔ کو رُسوا کیا تھا! ایک ایک سہولت ایسے ایسے رنگ اور ڈھنگ سے میسر ہے کہ ذہن یہ طے کرنے میں غیر معمولی پریشانی سے دوچار رہتا ہے کہ
کس کس کی نظر دیکھوں‘ کس کس کی ادا دیکھوں
ہر سمت قیامت ہے‘ اب اور میں کیا دیکھوں
دُنیا تو ہر دور میں بدلتی رہی ہے۔ ہاں! سو ڈیڑھ سو برس میں تبدیلیاں اتنی تیزی سے اور اتنے بڑے پیمانے پر رونما ہوئی ہیں کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی کسی معاملے کا کوئی سِرا ہاتھ آتا ہے‘ نہ کوئی بات پوری طرح سمجھ میں آتی ہے۔ فطرت سے متعلق علوم و فنون نے عقل کو دنگ کرنے‘ حواس کو چکرادینے والی ترقی کی ہے اور اِسی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود انسان اپنی طرزِ فکر و عمل میں کجی کو روکنے میں ناکام ہے۔
مشکل یہ ہے کہ جس قدر بھی ترقی ممکن بنائی جاسکی ہے اس کا تعلق مادّے سے ہے۔ ہمیں ہر طرف بہت کچھ بدلا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ شاندار عمارتیں کھڑی ہیں۔ سڑکوں پر انتہائی آرام دہ اور تیز رفتار گاڑیاں گھوم رہی ہیں۔ گھروں‘ دفاتر اور کارخانوں میں سہولتوں کا ڈھیر لگا ہے۔ کسی بھی کام کو ممکنہ حد تک تیزی اور سہولت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچانا ممکن بنادیا گیا ہے۔
یہ تو ہوا مادّی ترقی کا تذکرہ۔ مشکل یا المیہ یہ ہے کہ دنیا میں آج تک جو بھی ترقی ہوئی ہے ‘وہ صرف مادّی پہلو کو ذہن نشین رکھن کا نتیجہ ہے۔ زندگی کے خالص روحانی اور اخلاقی پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہر دور کا انسان زیادہ سے زیادہ مادّی آسائشات یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ صرف جسم کی ضرورت کا خیال رکھا جاتا رہا ہے۔ روح کو بالائے طاق رکھنے کا رجحان پنپتا گیا ہے۔ پختہ تر ہوتا گیا ہے۔
ہر دور کا انسان روحانی اعتبار سے کھوکھلے پن کا شکار رہا ہے۔ یہ کھوکھلا پن جتنا بڑھتا جاتا ہے۔ دُنیا کی پیچیدگیوں میں بھی اُسی قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اخلاقی زوال میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔ ہر دور میں لوگ معمولی باتوں پر جان دیتے رہے ہیں اور اہم ترین معاملات کو یوں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ‘گویا اُن کی کچھ وقعت ہی نہ ہو۔
انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد یا مزے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتا۔ خالص ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دیتے وقت یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ایسا کرنے کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ معاملات صرف مادّی مفادات تک محدود ہوں تو کوئی بات بھی ہے۔ اگر کوئی زیادہ دولت کے حصول کا خواہش مند ہے‘ تو تھوڑی بہت ڈنڈی مارنے سے زندگی کا پورا ڈھانچا تہس نہس نہیں ہو جاتا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ جن معاملات کے اخلاقی پہلو نکلتے ہیں‘ اُن کے حوالے سے لوگ اپنے دل کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں۔ ذاتی لذت یا تلذّذ یقینی بنانے کی خاطر کسی بھی حد سے گزرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ سب کچھ اندھے جوش و خروش کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ اور جب جوش و خروش کا دریا اترتا ہے‘ حواس ٹھکانے پر آتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا تھا جو نہ کرنا تھا‘ مگر کر گزرے!
ہم آئے دن ایسے واقعات کی اخباری رپورٹس پڑھتے ہیں کہ لوگ اپنے غلط کاموں پر پردہ ڈالنے کے لیے مزید غلط کام کر گزرتے ہیں اور یوں اُنہیں ملنے والی سزا کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ گناہوں کا جتنا بڑا پوٹلا اُتنی بڑی سزا۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں‘ بالخصوص ناجائز تعلقات کے معاملات میں۔
بھارت کی ریاست ہریانہ میں ایک انتہائی شرم ناک و عبرت ناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ ضلع دادری کے گاؤں لوہاری میں ایک عورت نے اپنی زندگی کے اخلاق سوز پہلو کو مواخذے سے بچانے کے لیے کچھ ایسا کیا کہ جوان بیٹا بھی ہاتھ سے گیا‘ خود بھی برباد ہوئی اور بیٹی کا گھر بھی بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ 45 سالہ سریش دیوی کے 70 سالہ خود ساختہ ''بابا‘‘ کنہیّا سے اخلاق سوز تعلقات تھے۔ یہ سلسلہ چار سال قبل شروع ہوا۔ ''ماتا جی‘‘ کچھ زیادہ ہی ''معتقد‘‘ تھیں‘ اس لیے ''بابا جی‘‘ نے آئے دن پوجا پاٹھ کے بہانے سریش دیوی کے گھر آنا شروع کیا اور پھر رات بھر قیام کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ سریش دیوی کے 22 سالہ بیٹے اشُل کو یہ سلسلہ پسند نہ تھا۔ اُس نے کئی بار ماں کو سمجھانے کی کوشش کی‘ مگر وہ نہ مانی‘ پھر ایک وہی ہوا‘ جس کا ڈر تھا۔ اشُل نے ماں کو ''بابا جی‘‘ کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑ لیا۔ اس پر گھر میں زوردار جھگڑا ہوا‘ خوب دھماچوکڑی مچی۔ اشُل یہ سب کچھ برداشت کرنے پر راضی نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ بُرائیوں کی باؤلی میں ڈبکیاں لگانے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔ دوسری طرف ماں تھی کہ جوان اولاد کے معترض ہونے پر بھی اخلاق سوز حرکتیں ترک کرنے کا ذہن نہ بنا پائی۔ سریش دیوی کے حواس پر ''بابا جی‘‘ کی ''محبت‘‘ کا نشہ اور غیر اخلاقی زندگی کی لذت و ہوس ایسی سوار تھی کہ وہ راہِ راست پر آنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اور پھر وہی ہوا‘ جو ایسے مواقع پر ہوا کرتا ہے۔ اپنا راستہ بدلنے اور اخلاق سوز زندگی سے توبہ کرنے کی بجائے سریش دیوی نے بیٹے کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا!
اب سوال یہ تھا کہ بیٹے کو راستے سے کس طور ہٹایا جائے۔ ماں اور بیٹے کا جھگڑا ہوچکا تھا‘ جو سب کے علم میں تھا۔ اگر ماں خود یہ کام کر گزرتی تو فوراً پکڑی جاتی۔ اس نے مشکل کو آسان کرنے کے حوالے سے جمائی راجا نے خدمات پیش کیں! سریش دیوی کی بڑی بیٹی کے شوہر امیت کمار نے کرائے کے تین قاتلوں کا اہتمام کیا۔ معاملہ 35 ہزار میں طے پایا‘ یعنی ماں نے جوان بیٹے کی ''سپاری‘‘ دی اور وہ بھی صرف 35 ہزار میں! 18 جون کو امیت کمار نے نئی واشنگ مشین خریدنے کے بہانے سالے‘ یعنی اشُل کو موٹر سائیکل پر ساتھ لیا اور ایک ویران مقام پر کرائے کے ان قاتلوں کے حوالے کردیا کہ اس کا کام تمام کر دیا جائے۔ معاملہ اُس وقت کھلا جب اشُل کی لاش ملنے کے بعد اُس کے ورثاء میں سے کسی نے بھی تفتیش میں برائے نام دلچسپی نہ لی۔ پولیس کے تفتیشی افسران کو شک ہوا تو انہوں نے سُن گُن لی۔ ماں بیٹے کے جھگڑے اور جھگڑے کی نوعیت کے بارے میں معلوم ہونے پر جب سختی سے تفتیش کی گئی‘ تو ماں نے روتے روتے تھانے میں سب کچھ بیان کردیا۔ اُسے‘ داماد امیت اور اور نام نہاد بابا کے علاوہ کرائے کے دو قاتلوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ توبہ کرکے راہِ راست پر آنے سے سنگ دِلانہ انکار کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا۔ جوان بیٹا بھی جان سے گیا‘ خود ماں بھی جیل گئی۔ داماد بھی قانون کے شکنجے میں ہے‘ جس کے نتیجے میں بیٹی کی زندگی بھی برباد سمجھیے۔
سوچے سمجھے بغیر گناہوں کے دریا میں ڈبکیاں لگاتے رہنے کا یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے کہ زندگی کا بیڑا غرق ہو رہے۔ یاد رکھیے کہ صرف مادّی ترقی پر توجہ مرکوز رکھنے اور زندگی کے روحانی پہلو کو یکسر نظر انداز کرتے رہنے کی صورت میں ہم ایسے ہی گڑھوں میں گرتے رہیں گے۔