آنے والے دنوں میں شرق اوسط میں جو تصادم شروع ہونے والا ہے‘ اس میں ایران کا کردار اہم ہو گا۔ میں گزشتہ چند مضامین میں عرض کر چکا ہوں کہ شرق اوسط میںبدامنی کے جو مراکز بننے والے ہیں‘ ان میں ایران بھی شامل ہوگا۔ آئندہ کسی کالم میں اس خطے کے بارے میں زیادہ وضاحت سے لکھوں گا۔ہومان ماجد شرق اوسط خصوصاً ایران کے بارے میںتجزیاتی مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان کاتجزیہ پیش خدمت ہے۔
ایران اور امریکہ کے مابین روابط کی غلطیاں اور تعلقات کی خرابیاں کوئی نئی بات نہیں۔ اب جبکہ امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ چند سال پہلے طے پائے گئے نیوکلیئر معاہدے سے اپنے ملک کو نکال لیا ہے تو یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ آنے والے دنوں میں تنائو مزید بڑھے گا۔ جن کا خیال ہے کہ وہ اس بحران سے بچائو میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ فارسی زبان کا کچھ مطالعہ کر لیں‘ خصوصی طور پر ان الفاظ کے معنی اور مطالب جان لیں جو ''نفس‘‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ اس لفظ سے ابھرنے والا تصور یا خیال ایران کے صدیوں پُرانے سیاسی کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔ خاص طور پر غیر ملکیوں کے ساتھ معاملات کے حوالے سے۔ یہ اس امر کی بصیرت بھی دیتا ہے کہ اگر ایسی مشکل صورتحال کا سامنا ہو‘ جیسی اب ہے‘ تو ایرانی حکومت کیسی ڈپلومیسی اختیار کرتی ہے؟فس کے لفظی معنی ہیں: اپنی ذات‘ لیکن اصل بات وہ نازک سا فرق ہے‘ جس کے تحت ایرانی اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے عام استعمالات اس طرح ہیں: اعتمادِ نفس‘ جس کا مطلب ہے‘ خود اعتمادی؛ شکستِ نفس کا مطلب ہے ‘ خود اعتمادی کا ٹوٹنا یا ختم ہونا؛ اور عزتِ نفس کا مطلب ہے خود داری یا فخر۔ ایرانی عوام طویل عرصے سے اپنے رہنمائوں کے فضائل اور کمزوریوں کا اندازہ لگانے کیلئے انہی اصطلاحات کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر شاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے ایران پر 1941ء سے 1979ء تک حکومت کی۔ لیکن ایرانیوں کا کہنا ہے کہ ان میں اعتماد کی کمی تھی کہ وہ اپنی حکومت کو لاحق خطرات کا ادراک نہ کر سکے اور ان خطرات کو دور نہ کر سکے۔ 1978ء میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا سامنا کرنے کے بجائے وہ ریڈیو پر اپنی حکومت کی خامیوں پر معذرت کرتے رہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ہی سال انہیں ایران سے فرار ہونا پڑا۔
کچھ ایرانیوں نے اس طرح اپنی سلطنت چھوڑ کر بھاگ جانے پر رضا شاہ کو کبھی معاف نہیں کیا۔ ان کے خیال میں شاہ نے اپنی حکومت اور سلطنت کی قانونی حیثیت اور طاقت کا ٹھیک اندازہ نہیں لگایا تھا اور اس کی وجہ خود اعتمادی اور خود داری کی کمی تھی۔ اس کے برعکس زیادہ تر ایرانی‘ سیکولر نیشنلسٹ محمد مصدق کو بڑی چاہت سے یاد کرتے ہیں‘ کیونکہ عزت نفس کے حوالے سے ان کے احساسات پوری قوم شیئر کرتی تھی۔ رضا شاہ پہلوی کی طرح خود پسندی اور غرور کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مصدق نے اپنی عزتِ نفس کا اظہار ایک الگ انداز میں کیا اور کہا کہ ایران کو دوسری قوتوں کی فیاضی پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ مصدق اور ان کے بہت سے ہم وطنوں کا خیال تھا کہ یہ قوتیں ان پر انحصار کرنے والوں کا استحصال کرتی ہیں۔ اس کے بعد مصدق کا شکستِ نفس‘ جیسے کئی دنوں تک بستر پر پڑے رہنے کا رجحان‘ پاجامہ پہنے ہوئے میٹنگز میں حصہ لینا‘ حتیٰ کہ پبلک میں بے ہوش ہو جانا‘ بھی ایرانیوں کو اپنائیت کے قابل محسوس ہوا‘ جو انکساری کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی شہادت کو۔
مصدق کا احساسِ قومی تفاخر و وقار آج تک ایرانی کلچر کے طور پر زندہ ہے۔ 1979ء میں جب انقلاب آیا اور ایران اسلامی ری پبلک بنا تو اس تبدیلی کے حامی‘ جو تعداد میں خاصے تھے‘ حقیقی طور پر اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مغرب سے درخواستوں کا دور گزر چکا ہے۔ ان کے رہنما آیت اللہ‘ روح اللہ خمینی میں عزت نفس اور اعتماد جیسی خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں‘ ایک تفاخر تھا اور گہری خود اعتمادی بھی۔ اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول میں وہ کبھی تذبذب کا شکار نہ
ہوئے‘ جو یہ تھے کہ ایران اور اسلام کو دوسرے ممالک اور مذاہب کے برابر احترام اور عزت دی جائے۔ اگر ملک کے فوری مفادات کی قربانی دے کر بھی یہ احترام‘ عزت اور وقار حاصل کرنا پڑے تو حاصل کیا جائے۔ انہوں نے امریکی سفارت کاروں اور شہریوں کو یرغمال بنانے کا حکم جاری کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا‘ جس کا ایک جزوی مقصد برسوں کی اطاعت گزاری کا بدلہ لینا بھی تھا۔ انہوں نے ایران کی کمزوری کے زمانے میں اس پر حملہ کرنے کی سزا دینے کیلئے عراق کے صدام حسین کے ساتھ جنگ شروع کرنے میں کسی شش و پنج کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی شکست کا لمحہ ان کا وہ بیان تھا جو انہوں نے آخر کار سیز فائر کی پیشکش قبول کرتے ہوئے دیا تھا۔ انہوں نے اسے زہر کا پیالہ پینے کے مترادف قرار دیا۔ آٹھ سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں دس لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اورکوئی بھی ملک دوسرے کے کسی علاقے پر قبضہ نہ کر سکا ۔
آج ایران کے دفتر خارجہ کے داخلی دروازے پر یہ نعرہ درج نظر آتا ہے: نہ مشرقی‘ نہ مغربی صرف اسلامی جمہوریہ۔ اس نعرے کو داخلی دروازے پر کندہ کرنے کا مقصد وزارت کے ملازمین اور ان دفاتر کا دورہ کرنے والوں کو یہ یاد دلاتے رہنا ہے کہ ایران کسی کا اتحادی نہیں۔ نہ ہی کسی بڑی طاقت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔بلکہ پوری طرح اپنے قدموں پر کھڑا ہے۔ چار دہائیاں قبل امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑے جانے کے بعد سے اب تک کوئی امریکی سفارت کار یا سیاست دان سرکاری حیثیت میں اس دروازے سے نہیں گزرا‘ لیکن اس پر کندہ الفاظ ایران کی خارجہ پالیسی کو پوری طرح بیان کرتے ہیں۔ ایران کا ہر صدر اور وزیر خارجہ مکمل طور پر اسی فلاسفی کے ساتھ جڑا ہوا اور منسلک رہا ہے۔ نیوکلیئر ڈیل (جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے کا نام بھی دیا جاتا ہے) کے سارے عمل کے دوارن بھی یہی اصول ایران کے پیش نظر رہا۔ ہر مرحلے پر ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو ان لوگوں کی جانب سے مجبور کیا جاتا رہا جن کا گمان تھا کہ مغرب کے ساتھ یہ ڈیل کرنے سے ایرانی دفتر خارجہ کے داخلی دروازے پر کندہ الفاظ کو تہہ و بالا کر کے رکھ دے گی۔ ان الفاظ کے معنی تبدیل ہو جائیں گے۔ایرانی وزیر خارجہ نے متعدد مواقع پر واضح کیا کہ مذاکرات کے دوران اگر حالات و واقعات سے یہ محسوس ہوا کہ ایران کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت نہیں کی جا رہی تو فارسی وقار اور فخر انہیں اجازت نہیں دے گا کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھ سکیں۔ جولائی 2015ء میں جب نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے بات چیت آخری مرحلے میں تھی تو یورپی یونین کی فارن پالیسی چیف‘ فیڈریکا موغیرینی نے دھمکی دی کہ اگر ایران نے اس معاملے میں مزید لچک کا مظاہرہ نہ کیا تو وہ واک آئوٹ کر جائے گی‘ جبکہ کچھ ایرانیوں کا خیال تھا کہ مزید لچک دکھانا مغرب کا محکوم بننے کے مترادف ہو گا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنی مذاکرات کار ٹیم کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ صرف باوقار لچک دکھانی ہے تاکہ ملک و قوم کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے۔ ایرانی حکومت نے عرصہ پہلے سے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہر اس شخص یا ملک کی مخالف رہے گی جو اس کا اور اس کے عوام کا احترام نہیں کرے گا۔ لیکن گزشتہ چالیس برسوں میں صرف اوبامہ وہ واحد امریکی صدر تھے‘ جنہوں نے محسوس کیا کہ ایرانی کتنی شدت کے ساتھ اپنی اہمیت کی تصدیق کے خواہش مند ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایرانیوں کی عزت کی جانی چاہئے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے مذاکرات کے دوران ایرانیوں کو وہ عزت اور احترام دیا‘ جس کے وہ خواہش مند اور طلب گار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اوبامہ ایران کے سات با معنی مذاکرات کر سکے اور اس طرح ایک معاہدہ بھی طے پا گیا۔ ٹرمپ نے معاہدہ توڑ کر اور دھمکی دے کر ایران کی عزتِ نفس کو مجروح کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خود کو ایک بڑی مشکل میں ڈال لیا ہے۔