امین خانجی کا شمار ہمارے اُن دوستوں میں ہوتا ہے‘ جو شاید ہمارا ناک میں دم کرتے رہنے کا ''مینڈیٹ‘‘ لے کر اس دنیا میں پدھارے ہیں! معاملہ یہ ہے کہ موصوف‘ دیگر لاکھوں‘ بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی طرح‘ ایس ایم ایس کے بنڈلز خرید لیتے ہیں اور پھر ہم سمیت بہت سے احباب کے سیل فون نمبرز پر چاند ماری کا شوق پورا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم اس چاند ماری سے پریشان تو ہوتے ہیں‘ مگر کبھی امین خانجی کو روکتے اس لیے نہیں کہ بند گھڑی بھی دن میں دو بار درست وقت بتاتی ہے اور کھوٹا سِکّہ بھی کبھی کبھار چل ہی جاتا ہے۔ آپ غلط نہ سمجھیں‘ ہم امین خانجی کو بند گھڑی یا کھوٹا سِکّہ قرار نہیں دے رہے۔ وہ غلط کیسے ہوسکتے ہیں کہ ہمارے دوست ہیں! ہم تو برقی پیغامات کی بات کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی کام کا برقی پیغام بھی آ جاتا ہے۔ اب یہ تو امین خانجی کے خلوص پر منحصر ہے کہ وہ ہمیں کام کے برقی پیغامات کس رفتار و شرح سے بھیجتے ہیں۔ ہم انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہراسکتے‘ کیونکہ وہ خود کوئی پیغام تیار نہیں کرتے‘ بلکہ اُدھر کا مال اِدھر کردیتے ہیں ‘یعنی ''بچولیے‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
کھوٹا سِکّہ چل جانے کی بات نکلی‘ تو سُن لیجیے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ امین خانجی نے ایک ایسا برقی پیغام بھیجا ‘جس نے ہمیں بہت دیر تک اپنے سِحر میں جکڑ کر رکھا۔ اصلاحِ نفس کی خاطر تیار کیے گئے ‘اس برقی پیغام میں کہا گیا تھا کہ انسان کس دولت کی بنیاد پر اکڑتا ہے؟ اُس دولت کی بنیاد پر جو اگر حلال کی ہو تو حساب دینا پڑے اور اگر حرام کی ہو تو عذاب سہنا پڑے!
ایک امین خانجی پر کیا موقوف ہے‘ ہمارے کئی احباب برقی پیغامات کی صورت میں چاند ماری کے شوقین ہیں۔ ایک وقت تھا کہ صدیق رازؔ باقاعدگی اور پابندی سے ہمیں نشانہ بنایا کرتے تھے۔ ہمیں اس پر زیادہ حیرت نہ تھی‘ کیونکہ صدیق رازؔ ایڈووکیٹ ہیں اور کمرۂ عدالت میں جرح کے دوران دلائل دھنا دھن برسانا اُن کا پیشہ ورانہ مزاج ہے‘ پھر خدا جانے کیا ہوا کہ وہ تائب ہوگئے۔ کیا پتا وہ کسی اصلاحی محفل میں اس چاند ماری کے حوالے سے سُنائی گئی کسی وعید کی بدولت تائب ہوگئے ہوں! بہر حال صدیق رازؔ میں اچانک خوشگوار تبدیلی کا رونما ہونا بھی اُن کے تخلص کی طرح اب تک راز ہے!
برقی پیغامات سے تواتر کے ساتھ ''نوازنے‘‘ والے احباب میں چند بزرگ بھی شامل ہیں۔ ایسے ہی ایک بزرگ معروف کالم نگار افسر امان بھی ہیں‘ جو کراچی کو خیرباد کہہ کر اب اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ افسر امان صاحب عام طور پر آیات سے نوازتے ہیں۔ اُن کا برقی پیغام بالعموم کسی چھوٹی سی آیت کے ترجمے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ عام طور پر وہ ایسی آیت کا انتخاب کرتے ہیں‘ جس میں اللہ کی طرف سے انسان کو اُس کی نیت و عمل کی بنیاد پر سرزنش کی گئی ہو۔ جب بھی ہم اُن کا بھیجا ہوا برقی پیغام پڑھتے ہیں‘ تو ایسا محسوس ہوتا ہے‘ جیسے محترم نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے! اور پھر ہم چند لمحات تک اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ افسر امان صاحب کو اس بات کا کریڈٹ تو بہرحال جاتا ہے کہ اُن کی معرفت ہم‘ چند لمحات ہی کے لیے سہی‘ اپنا محاسبہ کرنے پر مائل تو ہوتے ہیں۔ افسر امان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ حق تعالیٰ قہّار و جبار ہی نہیں‘ رحمن و رحیم بھی ہیں! وعید بھی بہ سَر و چَشم‘ مگر کبھی کبھی ''نویدی‘‘ لہجے کا فرمانِ ربّانی بھی بھیج دیا کریں!
چند ایک احباب ایسے بھی ہیں ‘جو اشعار پر مشتمل برقی پیغامات بھیجتے ہیں۔ ہم تھوڑا بہت ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ایسی ہر چیز پسند کرتے ہیں‘ جو ادب کی حامل ہو۔ ایسے میں احباب کی طرف سے اشعار پر مشتمل برقی پیغامات کا آنا ہمارے لیے خوشگوار تاثر پیدا کرنے کا سبب بننا چاہیے ‘مگر افسوس کہ ایسا نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جو اشعار بھیجے جاتے ہیں اُن میں سے بیشتر کا سَر ملتا ہے نہ پَیر۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ شعر میں کیا اور کیوں کہا گیا ہے۔ انٹ شنٹ جملوں کو شعر قرار دے کر بھیجنے ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا‘ بلکہ اُن پر غالبؔ‘ اقبالؔ یا فرازؔ کا نام دے کر ''مہرِ تصدیق و وقعت‘‘ ثبت کرنے کی جسارت سے بھی گریز نہیں کیا جاتا! یہ بے تکے‘ بے وزن اور مجہول ''اشعار‘‘ پڑھنے سے جب ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے‘ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ساری گند‘ جن سے منسوب کی جارہی ہے‘ اُن کی ارواح پر کیا بیتتی ہوگی؟؟
اب خیر سے کاروباری ادارے بھی ہمارے احباب کی قطار میں شامل ہوگئے ہیں‘ یعنی اُن کی طرف سے بھی اس تواتر سے چاند ماری کی جارہی ہے کہ ہمارے سیل فون کے لیے سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ ہم فرنیچر خریدنے نکلیں ‘تو اُسے یاد رکھیں۔ کسی کی فرمائش ہے کہ وزن زیادہ ہوگیاہے‘ تو اُس سے دوائیں خریدی جائیں اور اگر دواؤں سے رغبت نہ ہو تو ورزش کی سامان ہی خرید لیا جائے! اشیائے خور و نوش‘ گھریلو برقی آلات‘ ملبوسات‘ تعلیمی ویزا‘ مشینری‘ موبائل فون‘ انٹر نیٹ کنکشن ... قصہ مختصر‘ کون سی چیز ہے‘ جس کے فروخت کرنے والے برقی پیغامات کے ذریعے ہم تک نہیں پہنچ رہے اور ہمیں رجھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگا رہے!
اور اگر آپ ٹی وی چینلز کی طرف سے ہیڈ لائنز فراہم کرنے والی سروس لگوالیں‘ تو سمجھ لیجیے دل و دماغ کے توازن کو بگڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پسندیدہ و ناپسندیدہ ہر طرح کی خبریں آپ تک پہنچیں گی اور آپ کے موڈ کو تہس نہس کرکے دم لیں گی اور آپ کسی کو موردِ الزام بھی نہ ٹھہراسکیں گے‘ کیونکہ سروس تو آپ نے بخوشی اور بہ رضا و رغبت لے رکھی ہوگی!
برقی پیغامات کے ذریعے دوسروں کی تک پہنچنے کی ایک دوڑ سی لگی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ دوڑ اب ہَوکا بن چکی ہے۔ بظاہر سب کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر دوسروں سے رابطہ نہ رہا تو کچھ نہ رہے گا‘ کچھ نہ بچے گا۔ یہ سوچنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا کہ رابطے میں رہنے کا جنون یونہی پنپتا رہا تو اگلا بندہ نہ رہے گا!
غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
اس قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہر معاملے میں انتہا پسندی ہے۔ کسی کو اگر کوئی شَوق چَر آتا ہے ‘تو ایسی شدت و شان کے ساتھ کہ پھر اور کچھ دور دور دکھائی نہیں دیتا۔ اور جب نشہ اُترتا ہے‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ اور بھی بہت کچھ تھا جو کام کا تھا‘ مگر نظر انداز کردیا گیا! سارا معاملہ دل کے مچل جانے کا ہے۔ ع
ہائے کیا کیجیے اس دل کے مچل جانے کو
سیل فون کے استعمال کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ''کنیکٹیویٹی‘‘ کے چکر میں یہ قوم سیل فون کے کی بورڈ پر انگوٹھا متحرک رکھنے کی ایسی عادی ہوچکی ہے کہ کبھی کبھی تو اس پر ترس آنے لگتا ہے۔ کون سمجھائے کہ یہ زمانہ ایک دوسرے پر چاند ماری سے کہیں بڑھ کر ایک دوسرے پر ترس کھاتے ہوئے اپنے اپنے گوشۂ عافیت میں دُبکے رہنے کا ہے! دن رات کی اِس چاند ماری نے وہی کیفیت پیدا کر رکھی ہے‘ جس کے لیے کہا تھا ؎
سکوں کہیں بھی میسر نہیں ہے انساں کو
جنازے والے بھی کاندھے بدلتے رہتے ہیں