یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ عمران خان میڈیا پر ناراض ہیں ۔ وہ اکثر اپنی تقریروں میں میڈیا پر تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ اس دفعہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میڈیا ضمیر بیچ کر نواز شریف کو سپورٹ کررہا ہے۔ یہ طے ہے کہ میڈیا ہمیشہ سے مشکلات میں گھرا رہا ہے‘ اس کے ذمہ دار مالکان بھی ہیں اور صحافی خود بھی ۔ میڈیا نے اپنے لیے مشکلات اس وقت پیدا کیں جب پاکستانی صحافت میں یہ رجحان ابھرا کہ ہر سیاسی پارٹی کے اپنے اپنے صحافی ہونے چاہئیں ۔ اس آئیڈیا نے اس وقت جنم لیا جب سیاستدانوں نے پاکستان میں سول ملٹری بیوروکریٹس پر کام شروع کیا۔ اگرچہ سیاستدانوں سے پہلے یہ کام فوجی آمروں نے شروع کیا تھا‘ جب جنرل ایوب خان کے دور میں کراچی کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین ‘جو فوجی حکومت کے حق میں اداریے لکھتے تھے ‘ نے جنرل ایوب کی کابینہ میں حلف اٹھا لیا اور سات سال تک وزیر رہے۔ اسی طرح جب بھٹو صاحب کا دور آیا تو ان کے اپنے پسندیدہ صحافی ابھرے جو لبرل سمجھے جاتے تھے ۔ جنرل ضیا کا دور آیا تو ایک اور طرح کے صحافیوں کا گروہ ان کا گرویدہ ہوگیا جو رائٹ ونگ تھے ۔ بینظیر بھٹو جب لوٹیں تو انہوں نے بھی اپنے ہم خیال صحافیوں کا گروہ بنایا ۔تاہم صحافیوں کو جس طرح شریف خاندان نے ذاتی‘ خاندانی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا‘ کوئی اور یہ مقام نہ پا سکا۔ شریف خاندان نے صحافت کو بھی کاروبار کی طرح چلایا اور پہلے دن سے انہیں پتہ تھا کہ ہر بندے کی ایک قیمت ہوتی ہے چاہے کوئی بھی ہو ۔ فوجی افسران کو مرسیڈیز گاڑیوں کی چابیاں دینے کی کوشش کی‘ تو ججوں کے لیے علیحدہ پیکیجز تیار ہوئے۔ پھر طے ہوا کہ سرکاری افسران بھی اب اپنے ہوں گے اور بابو اپنے خاندان سمیت ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔ اپنے بابوکاروبار کا تحفظ بھی کریں گے اورطریقے بھی بتائیں گے کہ مال کہاں سے‘ کیسے بن سکتا ہے۔ ان کی ذاتی وفاداریاں بھی خریدی گئیں۔ ایسے بابوؤں کا چن چن کر انتخاب کیا گیا جن کی وفاداریاں ریاست یا عوام کے ساتھ نہ ہوں ۔جو بابو ان کے ساتھ ملا‘ پھر کسی اور حکومت میں کام نہیں کرسکا ۔ ایسے بابوؤں کے لیے بھی علیحدہ پیکیجز تیار کیے گئے۔ شریف خاندان نے ججوں پر کام شروع کیا اورججوں کو سینیٹر بنوایا ‘صدر پاکستان بھی بنوا دیا یا پھر گورنر لگوا دیا ۔ اس سابق چیف جسٹس کو نگران وزیراعظم تک لگایا گیا ہے جس نے تین اہم فیصلے نواز شریف کے حق میں کیے تھے‘ جن میں دس برس بعد نواز شریف کودی گئی چودہ برس سزا ، اکیس سال نااہلی اور کروڑں روپے کے جرمانے معاف کرنے تک کے مقدمات تھے۔
اس کے بعد باری آئی صحافیوں کی۔ شریف خاندان اس معاملے میں سب کو مات دے گیا‘ انہوں نے لاہور کے ہر دوسرے صحافی کو پیکیج دیا۔ مالکان کے لیے علیحدہ پیکجز تیار ہوئے‘ خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ جو قریبی صحافی تھے انہیں ہر جگہ حکومتی اداروں میںپوزیشنیں دی گئیں ۔ کسی کو سفیر‘ کوئی وزیر تو کوئی مشیر لگ گیا ۔ جو جتنا ان کے حق میں طبلہ بجا سکتا تھا اسے اتنی ہی بڑی پوزیشن ملی۔ شریف خاندان کو
صحافیوں کو کھلانا آتا ہے۔ اپوزیشن میں ہوں تو وہ ہر وقت صحافیوں میں گھرے رہیں گے‘ اقتدار میں آجائیں تو ان کے قریب کوئی نہیں جاسکتا۔ اپوزیشن کے دنوں میں وہ چن چن کر صحافیوں کی پلیٹوں میں کھانا ڈالیں گے اور انقلاب کے دعوے ہوں گے لیکن وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنتے ہی ان سے دور ہوجاتے ہیں ‘کیونکہ وہ صحافی کوئی مشکل سوال پوچھ سکتے ہیں‘ جس کا جواب ان کے پاس موجود پرچی پر شاید نہ ہو ۔ اپوزیشن کے دنوں میں انہیں وہ صحافی اچھے لگتے ہیں جو آزاد ہوں‘ جو کسی دبائو میں نہ آتے ہوں۔ حکومت میں آتے ہی وہ سب بُرے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر انہیں وہی اچھے لگتے ہیں جو ان کو دنیا کا عظیم لیڈر ثابت کریں۔ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کے لیے ایسے صحافی بہت کام آتے ہیں۔ یہ آئیڈیا زرداری اور بینظیر بھٹو نے بھی چرایا اور نواز شریف ماڈل سیاست میں متعا رف کرانے کا فیصلہ کیا ۔ زرداری کا وہی مشہور زمانہ جملہ کہ اگر نواز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر نواز شریف ماڈل اپنانا ہوگا ۔ ہرایک کی قیمت لگائو اور خرید لو۔ پھر وہی مال پانی اور اپنے اپنے صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ۔ چند ہی صحافی نواز شریف اور زرداری کے جال سے بچ سکے۔نواز شریف نے اگر ہیلی کاپٹر گروپ تشکیل دیا تو زرداری نے ناشتہ گروپ تشکیل دے دیا‘ جہاں سب بیٹھ کر ملک کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے۔ عمران خان نے بھی یہی ماڈل اپنایا کہ اس کے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی تھی ۔ عمران خان کو ایک فائدہ تھا کہ وہ ابھی اقتدار میں نہیں آئے‘ لہٰذا ان کے ساتھ ابھی میڈیا اور لوگوں کا رومانس باقی تھا۔ عمران خان جو بھی دعویٰ کرنا چاہتا ‘ کرسکتا تھا‘ لہٰذا عمران نے بھی خوب فائدہ اٹھایا اور دنیا بھر کے امیر ترین اپنی پارٹی میں اکٹھے کیے‘ چاہے کسی پر نیب اور ایف آئی اے میں دس دس کیسز ہی کیوں نہ ہوں۔ ہر وہ دعویٰ جو کیا جاسکتا تھا وہ بھی کیا اور وہ بھی دعوے کر ڈالے جو نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ اپوزیشن کے دنوں میں یہ سب چل جاتا ہے ‘اور عمران نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے ۔ عمران خان کی بھی میڈیا کے پسندیدہ لوگوں کی اپنی فہرست ہے۔ کچھ کو انہوں نے آج کل ہائر بھی کر لیا ہے جو انہیں بنی گالہ میں بیٹھ کر کنسلٹنسی کے نام پر بریفنگ دیتے ہیں کہ میڈیا کیسے مینج ہوگا اور کتنا خرچہ ہوگا ۔ جو صحافی ان میڈیا کنسلٹنٹس کے دوستانہ فونوں پر 'ہاتھ ہولا ‘نہیں رکھتے ‘ انہیں سوشل میڈیا پر بھرتی کی گئی ٹیموں کے ذریعے گالی گلوچ کرا کے مینج کیا جاتا ہے۔ کوئی اینکر یا صحافی اگر عمران خان کے اردگرد موجود کرپٹ ٹولے کا کوئی سکینڈل بریک کرتا ہے تو یہ سوشل میڈیا ٹیمیں ان پر چھوڑ دی جاتی ہیں‘ وہ بے چارا اگلے دن عمران خان کے ہاں بیٹھا نظر آئے گا ۔
سوال یہ ہے اگر عمران خان وزیراعظم بنتا ہے تو اسے اس اپروچ سے کوئی فائدہ ہوگا ؟ یہ اپروچ برسوں سے زرداری اور شریفوں نے اپنائے رکھی‘ جب انہوں نے میڈیا کو اپنی گورننس بہتر کرنے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اسے اپنا دشمن سمجھا اور اس کا نقصان اٹھایا ۔ زرداری اوربی بی سے لے کر نواز شریف تک سب نے یہ کام کر کے دیکھ لیا‘ تو کیا نتائج نکلے؟ جنرل ضیاء نے صحافیوں کو کوڑے مارے تو کیا ہوا؟ یا جنرل مشرف نے ستر ٹی وی چینلز ایمرجنسی لگا کر بند کر دیے تو پھر کیا ہوگیا؟ کہاں ہیں آج جنرل ضیائ‘جنرل مشرف‘بینظیر بھٹو ‘ زرداری اور نواز شریف‘ جو میڈیا کو پیسے اور ڈنڈے دونوں سے کنٹرول کررہے تھے؟
جمہوریت آزاد میڈیا اور طاقتور عدلیہ کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اگر سیاستدان جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر انہیں خود ہی میڈیا کو مضبوط کرنا ہوگا‘ انہیں عدالتوں کے آگے سر جھکانا ہوگا ‘ میڈیا کو خرید کر اپنے حق میں لکھوانے یا ٹی وی شوز کرانے کا رجحان ختم کرنا ہوگا‘ اپنی کارکردگی سے عوام کو متاثر کرنا ہوگا نہ کہ ذاتی تصویروں والے اشتہارات کی بھرمار سے ۔ یقینا میڈیا اور عدالتیں پاکستان جیسے ملکوں میں سو فیصد انصاف سے نہ جرنلزم کر سکتے ہیں اور نہ ہی انصاف‘ لیکن آپ کی وزیراعظم ہوتے ہوئے کوشش ہونی چاہیے کہ ا ن دونوں کو آزاد رکھا جائے‘ انہیں سپورٹ دی جائے‘ کیونکہ آزاد میڈیا اور آزاد عدالتیں ہی آپ کی سیاست اور حکمرانی کو محفوظ کر سکیں گی ۔ میڈیا اور عدالتوں کو نیچے لگانے کے جنون کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ کیا نواز شریف اور مریم نواز کی میڈیا اور عدالتوں سے طویل لڑائی اور ان کو دبانے کی کوششیںکامیاب ہوئی ہیں؟ کیا شریف خاندان عدالتوں اور میڈیا پر دبائو ڈال کر خود کو بچا سکا ہے ؟عمران خان کو ایسے مشیروں سے بچنا ہوگا‘ جیسے مشیر نواز شریف نے پال رکھے تھے۔ وہی مشیر جنہوں نے نواز شریف کو عدالتوں‘ میڈیا اور اداروں سے لڑایا اور خود لاہورائیرپورٹ سے آرام دہ گاڑی میںبیٹھ کر گھر چلے گئے۔
پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں بیس کروڑ میں سے دس کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہوں اور ان پڑھ ہوں‘ وہاں جمہوریت کے نام پر سیاسی حکمران بھی بدترین ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں‘ جنہیں خوشامدی اور درباری پسند ہوتے ہیں، ناقد نہیں ‘ اس لیے عمران خان کو شریف خاندان کے طرز حکمرانی اور زوال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے‘ خوش ہونے کی نہیں ۔ میڈیا پر اپوزیشن کے دنوں میں زبانی حملوں اور حکومت میں آنے بعد سرکاری ہتھکنڈوں کی مدد سے دبانے سے‘ عمران خان کو فائدہ نہیں ہوگا ‘جیسے جنرل ایوب ‘ بھٹو، جنرل ضیاء ‘ جنرل مشرف‘ بینظیر بھٹو، زرداری اور اب نواز شریف کو نہیں ہوا !