تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     21-07-2018

شرفا بازاری زبان کیوں بولتے ہیں؟

شائستگی کہاں گئی‘ تہذیب و اخلاق کیا ہوئے؟ شرفا حیران ہیں، اہلِ زبان پریشان ہیں۔
بہت سے لوگوں کو اس پر افسوس ہے کہ ہماری سیاست سے شائستگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ قومی لیڈر جن الفاظ میں ایک دوسرے کو یاد فرماتے ہیں، جن القابات سے نوازتے ہیں، وہ حیران کن اور افسوسناک ہے۔ 
یہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، دنیا کے چند دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو جہاں کہیں بھی ایسا ہو رہا ہے وہاںتہذیب کا زوال ہے۔ تہذیب کی عام طور پر تسلیم شدہ تعریف یہ ہے کہ انسانی سماج کی ایک ایڈوانس حالت، جس میں اونچے درجے کی ثقافت، سائنس، صنعت اور حکومت قائم ہو چکی ہو۔ ان چیزوں میں صنعت، سائنس اور حکومت کی بات سمجھ میں آتی ہے‘ یعنی ایک ایسا سماج جس میں اونچے درجے کی صنعت کاری ہو چکی ہو‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں قابل ذکر ترقی ہو چکی ہو اور ایک منظم، جدید اور مؤثر حکومت قائم کی جا چکی ہو‘ تو اس کا مطلب ہے ، وہ سماج تہذیب یافتہ ہو چکا۔ لیکن تہذیب کی اس تعریف کا ایک اہم عنصر کلچر ہوتا ہے۔ گویا ایک ترقی یافتہ اور اعلیٰ درجے کا کلچر تہذیب کی پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ 
کلچر کیا ہے؟ انسانوں کے ایک گروہ کے رہنے سہنے کا طریقہ کار، رسم و رواج، عقائد، جو ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہتے ہیں‘ کلچر کہلاتا ہے۔ کلچر کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک مادی کلچر اور دوسرا غیر مادی کلچر۔ مادی کلچر میں انسان کا رہنا سہنا، کھانا پینا، طرزِ تعمیر، آرٹ وغیرہ شامل ہیں۔ غیر مادی کلچر میں انسان کا مذہب، عقیدہ، خیالات، نظریات وغیرہ آتے ہیں۔ زبان انسانی کلچر کا ایک بڑا مظہر ہے۔ انسان لکھنے پڑھنے میں کس قسم کی زبان استعمال کرتا ہے، وہ دوسروں کے ساتھ مکالمے میں کیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، کس انداز میں دوسروں کو مخاطب کرتا ہے، ایک انسان دنیا کے بارے میں کیا سوچتا ہے، دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اس سب باتوں پر زبان کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہ دراصل آپ کی تہذیبی ترقی کی سطح اور معیار کی عکاس ہوتی ہے۔ 
الفاظ کا چنائو اور زبان کا استعمال ہر تہذیب کے لیے اہم رہا ہے۔ آواز اونچی کرنا، کرخت لہجے میں بات کرنا، سخت زبان استعمال کرنا، نا شائستہ الفاظ کا چنائو ماضی میں ہر سماج کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ دنیا بھر میں سکولوں کے آغاز اور تعلیم عام ہونے کے بعد بچوں کی بنیادی اخلاقی تربیت میں دنیا کے بیشتر ممالک میں اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ بچے گفتگو کے انداز اور آداب سے آشنا ہوں۔ اس باب میں بعض مغربی ترقی یافتہ ممالک میں بہت زور دیا گیا۔ اس خصوصی توجہ کے بہت بڑے نتائج نکلے؛ چنانچہ جن ممالک میں گالی گلوچ یا بیہودہ زبان کا استعمال بہت زیادہ تھا، اس میں خاطر خواہ کمی آئی۔ یورپ کے بعض ممالک اور جاپان وغیرہ میں تعلیمی اداروں اور پڑھے لکھے حلقوں میں زبان کو بڑے پیمانے پر گالی گلوچ اور بازاری زبان سے پاک کر دیا گیا۔
اگرچہ امریکہ سمیت کئی دوسرے ممالک میں یہ مسئلہ اب بھی موجود ہے، لیکن آبادی میں اس بات کا اجماع ضرور ہے کہ جس حد تک ہو سکے‘ ناپسندیدہ الفاظ کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔ خصوصاً بچوں کی موجود گی میں بیہودہ الفاظ کا استعمال بہت بُرا تصور کیا جاتا ہے، اگرچہ اب بھی عامیانہ اور بازاری زبان کافی بڑے پیمانے پر خاص قسم کی جرم و سزا کی کہانیوں پر مبنی ادب یا پُر تشدد فلموں وغیرہ میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے، اور قانونی اعتبار سے ایسی فلمیں عموماً سولہ یا اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے لیے ممنوع ہوتی ہیں۔
سیاست میں غیر شائستہ ، غیر مہذب اور بیہودہ زبان کا استعمال ہمیشہ سماج کے کچھ مخصوص گروہوں اور طبقات میں مروج رہا ہے، لیکن انسانی تہذیب میں اس کو کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔ تاہم گزشتہ کچھ دہائیوں سے دیگر تصورات کی طرح اس میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ آج سے دو عشرے پہلے کوئی امریکی صدارتی امیدوار یا منتخب صدر یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ سر عام ایسے الفاظ استعمال کر سکتا ہے، جو آج صدر ٹرمپ کے لیے ایک عام سی بات بلکہ روزانہ کی مشق ہے۔ صدر ٹرمپ نے متعدد بار میڈیا کے سامنے یا عام مجمع میں وہ الفاظ استعمال کیے جن کو بڑی آسانی سے، بلا شک و شبہ گستاخی، بد تمیزی، امتیازی، توہین آمیز وغیرہ کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اپنے صدر کے منہ سے ایسے الفاظ کئی امریکیوں کے لیے شروع شرو ع میں حیرت اور صدمے کا باعث تھے۔ بالخصوص سکولوں میں اساتذہ کے لیے بچوں کے سامنے ایک صدر کی طرف سے ایسی زبان کے استعمال کی وضاحت ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد صدر ٹرمپ کو ایک خاص کردار میں دیکھنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے، اور اس کی بعض قابل اعتراض باتوں پر اب ویسا شدید رد عمل نہیں ہوتا جو شروع شروع میں ہوتا تھا۔
یہ خیر مغرب کی بات ہے، جس کو ویسے بھی ہمارے دانشور اور کچھ علما شیطان کا گڑھ، اور ایسی زہریلی یا گلی سڑی تہذیب کہتے ہیں، جو خود اپنے خنجر سے خود کشی کر رہی ہے، مگر ثنا خوانِ تقدیس مشرق کا حال اس سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ 
ہمارے ہاں عام اخلاقی اعتبار سے بھی، اور مذہبی نقطہ نظر سے بھی شائستگی پر بہت زور دیا گیا۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر شرفا کی زبان اور عامیانہ یا بازاری زبان کے درمیان ہمیشہ ایک فرق کیا جاتا رہا ہے۔ اور تعلیم و تربیت میں اس بات پر خاص زور دیا جاتا رہا کہ کن الفاظ کا استعمال شرفا کو زیب دیتا ہے، اور کن کا نہیں۔ مذہبی اعتبار سے شائستگی اور اخلاق کے بارے میں بے شمار احادیث اور خلفائے راشدین کے اقوال موجود ہیں۔ ہمارے نرگسیت پسند دانشور سمجھتے ہیں کہ ہم مشرقی اور اسلامی تہذیب کے وارث ہونے کے ناتے شائستگی کے بہت ہی اعلیٰ درجے پر فائز ہیں، اور اس معاملے میں باقی اقوام سے برتر ہیں یا اس میدان میں ہمارا کوئی مد مقابل نہیں۔ مگر بد قسمتی سے حقیقی دنیا میں گزشتہ کئی سالوں سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ہم اس میدان میں بھی تیزی سے رو بہ زوال ہیں۔ روایتی طور پر سیاست دان ہمیشہ ہی کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور کبھی کبھار تذلیل کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس میدان میں قیام پاکستان کے بعد بہت تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کے رہنمائوں کا اس کے بیس سال بعد آنے والے رہنمائوں سے تقابل کیا جائے تو بہت نمایاں فرق نظر آئے گا۔ اسی طرح ستر کی دہائی کے پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی تہذیب اور شائستگی کا مقابلہ آج کے رہنمائوں سے کرنے والے کو حیرت اور افسوس ہوتا ہے۔ 
ہمارے کچھ رہنما ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں، اس کو کسی بھی طریقے سے تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے۔ مقبول سیاسی اور مذہبی قیادت نوجوان نسل کے کردار اور شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بات صرف سیاست دانوں تک محدود ہوتی تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا، مگر ہمارے کچھ مذہبی رہنما سیاست دانوں سے بھی کئی قدم آگے نکل گئے ہیں۔ آئے روز ہم لوگ کتنے ہی وڈیوز دیکھتے ہیں، جن میں گالیوں اور بیہودہ زبان کی بوچھاڑ کی گئی ہوتی ہے۔ یہ لوگ صرف نوجوان نسل کو ہی متاثر نہیں کرتے، عوام بھی ان کی بول چال اور انداز و اطوار سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ 
حاصلِ کلام یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور پیشوائیت کے نام پر ہمارے ارد گرد آئے روز جو کچھ کہا جا رہا ہے، کیا جا رہا ہے، اس میں سے بہت کچھ سیاسی و سماجی اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات سے براہِ راست متصادم ہے۔ انسان کی زبان اس کے رجحانِ طبع، کردار اور شخصیت کی عکاس ہوتی ہے۔ ایک انسان کی زبان سے اس کے کردار اور شخصیت کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شرفا کے منہ سے بازاری اور عامیانہ زبان ان کے اندر موجود شخصی اور فکری تضاد اور دہری شخصیت کی عکاس ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved