حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے (صحابۂ کرام سے) دریافت کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم مفلس اُسے سمجھتے ہیں جس کے پاس دنیاوی مال ومتاع نہ ہو آپ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میںدرحقیقت مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گاکہ (اس کے نامۂ اعمال میں )نماز یں‘روزے اور زکوٰۃ(یعنی عبادات)تو ہوںگی ‘ لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ‘کسی پر ناجائز تہمت لگائی ہوگی ‘کسی کا مال کھایا ہوگا ‘کسی کا خون بہایا ہوگا ‘کسی کو مارا پیٹا ہوگا ‘تو ان تمام حق داروں کو (اُن کے حقوق کی تلافی کے لیے) اُس کی نیکیاں منتقل کی جائیں گی ‘پھر جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ذمے حقوق (بدستور) باقی رہیں گے ‘تواُن (حق داروں )کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے‘پھر اسے جہنَّم میں جھونک دیا جائے گا(صحیح مسلم:2581)‘‘۔آج کل ہمارے وطنِ عزیز میں قومی انتخابات کی مہم اپنے آخری مراحل میں جاری وساری ہے اوران انتخابات کے بعد پتا چلے گاکہ انتخابات کے نتیجے میں قوم کے حالات میں پہلے سے بہتری آتی ہے یا حالات حسبِ سابق جاری وساری رہتے ہیں یا اُس سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں ‘اس کا علم اللہ کے پاس ہے ‘ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے بہتری کی امید رکھنی چاہیے اور اسی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔لیکن اس انتخابی مہم نے سرِدست قوم کوجو تحفہ دیا ہے ‘ وہ سیاسی قائدین کی اخلاقی گراوٹ کا ہے جوکہ افسوسناک ہے ۔عربی کا مقولہ ہے :''لوگ اپنے بادشاہوں (یاحکمرانوں) کی روش کو اپناتے ہیں ‘‘، سو ہمارے مستقبل کے حکمران قوم کو بداخلاقی کا جوتحفہ دے چکے ہیں‘ اس کے مظاہر سوشل میڈیا پردیکھے جاسکتے ہیں ۔
ہمارے سیاستدانوں کو صرف تعریف پسندہے‘ تنقید انہیں ناپسند ہوتی ہے ‘حالانکہ منہ پر تعریف ہلاکت کا باعث ہے‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1) ''جب تم (منہ پر)تعریف کرنے والوں کو دیکھو تواُن کے چہروں پر مٹی ڈال دو‘(صحیح مسلم: 3002)‘‘۔ (2)ابومعمر بیان کرتے ہیں:'' ایک شخص کھڑا ہوا اور حاکمِ وقت کی تعریف کرنے لگاتو مقداد نے اس کے چہرے پر مٹی ڈال دی اور کہا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم خوشامدیوں کے چہروں پر مٹی ڈالیں‘ (صحیح مسلم:3002)‘‘۔اس کی شرح میں امام یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا: ''حضرت مقداد نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر محمول کیا اور بعض دیگر محدثین نے بھی اسے ظاہری معنی میں لیا ہے اور وہ خوشامدیوں کے چہروں پر فی الواقع مٹی ڈالتے تھے اور دوسرے محدثین نے فرمایا: اس کا معنی یہ ہے کہ ایسے خوشامدیوں کو نامراد کرو‘ انہیں تعریف پر تھپکی نہ دو اور جب تمہاری تعریف کی جائے تو یاد رکھو کہ تم مٹی سے ہو ‘سو تواضع کرو اور اِترائو نہیں (کیونکہ مٹی کی خاصیت عَجز اور اِنکسار ہے )‘‘۔
خوشامدی لوگ مخلص اور خیرخواہ کاروپ اختیار کر تے ہیں‘لیکن درحقیقت وہ بدخواہ اورمطلب پرست ہوتے ہیں ‘جو انسان کے دل ودماغ میں حقائق کا سامنا کرنے کی اہلیت کو سَلب کرلیتے ہیں‘جبکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:''دین خیرخواہی کا نام ہے ‘ صحابۂ کرام نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) کس کی خیرخواہی‘ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ‘اُس کی کتابِ مقدّس‘ اُس کے رسولِ مکرّمﷺ‘ مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی (دین) ہے‘ (صحیح مسلم:55)‘‘۔اللہ تعالیٰ ‘قرآنِ کریم اور رسول اللہ ﷺ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے احکام پر عمل کیا جائے اور اس کا فائدہ خود عمل کرنے والے کو ملتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ‘اس کی کتاب ‘ اس کے رسول مکرّمﷺ کی شان تو ویسے ہی بلند ہے ‘ وہ ہماری کسی تعریف یا خیرخواہی کے محتاج نہیں ہیں ‘بلکہ ہم سب اُن کے محتاج ہیں۔
مُحَدِّثینِ کرام نے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیان کیے گئے چند کلمات کو نہایت جامع قرار دیا ہے ‘اُن میں نصیحت (خیرخواہی)‘ فلاح اور عافیت کے کلمات شامل ہیں‘ یہ پورے دین پر محیط ہیں ۔
انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں :ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یارسول اللہﷺ افضل دعا کون سی ہے؟ ‘آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے رب سے عافیت اور دنیا اور آخرت کی سلامتی مانگو‘ پھر وہی شخص دوسرے دن آیا اور یہی سوال کیا ‘ آپ ﷺ نے پھر یہی جواب دیا ‘پھر وہی شخص تیسرے دن آیا اوریہی سوال کیا ‘آپ ﷺ نے فرمایا:جب تمہیں دنیا اور آخرت کی عافیت عطا ہوگئی تو تم نے فلاح پالی‘ (سنن ترمذی:3512)‘‘۔اس کی شرح میں علامہ طِیْبِی نے لکھا: ''عَفو‘ عافیت اور مُعافات کے معانی تقریباً ایک جیسے ہیں :عفو کے معنی ہیں:'' گناہوں کا مٹ جانا‘‘اورعافیت کے معنی بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہناہے ‘اس کے معنی صحت وعافیت کے بھی ہیں‘‘ اور معافات کے معنی ہیں:''اللہ تعالیٰ تمہیں لوگوں کے شر سے اورلوگوں کو تمہارے شر سے محفوظ رکھے ‘ لوگوں کو تمہاری اذیت سے اور تمہیں لوگوں کی اذیت سے اپنی پناہ میں رکھے ‘‘۔وہ لوگ جو ایک دوسرے کولَعن طَعن کرتے ہیں ‘اُن کی بابت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے ‘تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے اوراس پر آسمان کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں‘ پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس پر زمین کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ‘پھر وہ دائیں بائیں رخ کرتی ہے ‘پھر جب اُسے کوئی ٹھکانا نہیں ملتا تو یہ اُس کی طرف لوٹ آتی ہے جو اس لعنت کا حقدار ہے‘ ورنہ لعنت کرنے والے پرواپس نازل ہوتی ہے‘ (ابودائود:4905)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا: ''بے شک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی ‘برائی اور سرکشی سے منع فرماتا ہے ‘وہ تم کو نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو‘ (النحل:90)‘‘۔سفیان بن عیینہ نے کہا: ''عدل یہ ہے کہ بندے کاظاہر وباطن یکساں ہواور احسان یہ ہے کہ بندے کاباطن اُس کے ظاہر سے بھی زیادہ پاکیزہ ہو ‘‘۔ امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''عدل کے معنی ہیں انصاف کرنا اور احسان کے معنی ہیں:فضل وکرم کا برتائو کرنا‘‘۔مفسرین کرام نے فرمایا:''عدل یہ ہے کہ اپنا حق پورا لو اور دوسرے کو اُس کا حق پورا دو اور احسان یہ ہے کہ خوداپنے حق سے کم لو یا مکمل ایثار کرواور دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دو‘‘۔ہر قبیح فعل کو'' فَحشائ‘‘ کہتے ہیں اور قباحت کے اعتبار سے اس کے مختلف درجات ہیں‘ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی برائی کو ''مُنکَر‘‘ کہتے ہیں۔جب یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کے غالی دشمن ولید بن مغیرہ کی سماعت سے ٹکرائی ‘تو اس نے کہا: ''اے بھتیجے!اسے دوبارہ پڑھو ‘بخدا اس میں بڑی مٹھاس ہے ‘اس کا ظاہر بڑا دلکش ہے ‘اس کا تنا برگ وبار والا ہے ‘ اس کی شاخیں پھولوں اورپھلوں سے لدی ہیں اور یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہے ‘‘۔یہ آیۂ مبارکہ قرآنِ کریم کی جامع ترین آیات میں سے ہے ‘جو خیر وشر کے تمام شعبہ جات پر محیط ہے اور اسی لیے اسے بالعموم ہر خطبے میں پڑھا جاتا ہے ‘کاش کہ اس کے نورانی وروحانی اثرات کو ہم قبول کریں اور اپنے دل ودماغ میں اس طرح جذب کریں کہ ہمارے دل ایمان وایقان سے معمور ہوجائیں اورہم اعمالِ حسنہ کے برگ وباراور پھلوں اور پھولوں سے مزین ہوجائیں۔اس وقت تو منظر یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تذلیل سے لطف اٹھاتے ہیں ‘توہین سے لذت پاتے ہیں اور دوسروں کی بے توقیری کو اپنے وقار کی علامت سمجھتے ہیں ۔کاش کہ بندے کو سمجھ میں آجائے کہ عزت وذلت اُس کے اختیار میں نہیں ہے ‘اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے اللہ!ملک (واقتدار )کے مالک ِ(حقیقی)‘تو جسے چاہتا ہے ‘ سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے ‘تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے ‘ سب بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے اور تو ہرچیز پر قادر ہے‘(آل عمران:25)‘‘۔
الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں پر بھی جانب داری کے الزامات لگ رہے ہیں ‘جو مثبت علامت نہیں ہے ‘اگر آنے والے انتخابات حقیقی معنی میں منصفانہ اور شفاف نہ ہوئے ‘تو خدانخواستہ ملک انتشار اور عدمِ استحکام کی طرف جاسکتا ہے اورموجودہ حالات میں ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ‘کیونکہ ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے‘زرِ مبادلہ کے ذخائر روز بروز کم ہورہے ہیں ‘ پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں روزانہ کے اعتبار سے اپنی قیمت کھو رہی ہے ‘ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان بھی آسکتا ہے ‘ میڈیا نے بتایاکہ نگراں حکومت آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے جارہی ہے ۔ درآمدات وبرآمدات کا تناسب دو اور پانچ کا ہے ۔ بڑی سیاسی جماعتیں جو اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کی حریف ہیں ‘اُن کے منشور محض لفاظی ہیں ‘پرکشش اور خوش کن وعدے ہیں ‘ ملک کو درپیش مشکلات کا عملی حل کسی نے پیش نہیں کیا ۔سرِدست رائے دہندگان کو بہلانے کا عمل جاری ہے ‘ حقیقت پسندی کے دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے ۔وہ قوتیں جن پر منصوبہ بندی کا الزام لگایا جارہا ہے ‘ہمیں معلوم نہیں کہ اُن کے پاس بھی حالات کی اصلاح کا کوئی عملی خاکہ ہے یا نہیں ‘ بگاڑ آسان ہے ‘سدھار بہت مشکل ہے ۔یہ تو سب کھلی آنکھوںسے دیکھ رہے ہیں کہ دینی جماعتوں کو میڈیا پراپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا ‘بلکہ بلیک آئوٹ ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی ہے یا اس کا سبب لبرل میڈیا کی اپنی عصبیت ہے یا یہ صرف پیسے کا کھیل ہے ‘ کیونکہ ہمارے ملک میں انتخابات میں حصہ لینا بہت مہنگا کھیل ہے اور صرف اہل ِثروت اس کا شوق پال سکتے ہیں یا وہ جن کے پیچھے کوئی باوسائل طاقت موجود ہے ۔سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر یہ عیاں ہوگیا کہ پچیس تیس ارب روپے میں سینیٹ کا کنٹرول حاصل کیا جاسکتا ہے۔سو جب سب کچھ قابلِ فروخت ہو توکوئی طاقت قومی اسمبلی کی قیمت کا کوئی تخمینہ لگاکر بازی لگاسکتی ہے۔