تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-07-2018

دو سو ارب ڈالرز کی کہانی

عامر متین نے اپنا فون میری طرف بڑھایا‘آواز آئی: گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ ہیں‘ وہ دو سو ارب ڈالرز سوئس سٹوری پر موقف دینا چاہتے ہیں...جی میں طارق باجوہ بول رہا ہوں ‘ میں نے دو ہزار تیرہ میں نواز شریف حکومت کو سمری بھیجی تھی جس میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالرز سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں‘ میں نے ہی بعد میں ایف بی آر کی ایک ٹیم تشکیل دے کر سوئٹزرلینڈ بھیجی تھی اور آپ نے رات پروگرام میں کہا کہ میں ان ڈالروں کو واپس لانے میں رکاوٹ بنا تھا؟ میں نے کہا : باجوہ صاحب میں آپ کو ہی اس دو سو ارب ڈالرز نہ لانے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ وہ بولے کہ یہ آپ کی رائے ہے‘ میں ایسا نہیں سمجھتا‘ میںنے تو باقاعدہ کوشش کی‘میں نے سوئس بینک کے سربراہ اور اعلیٰ عہدے دار کا حوالہ دے کر کابینہ کو بتایا تھا کہ پاکستانیوں کے پیسے سوئس بینکوں میں پڑے ہیں‘ اور آپ ہیں کہ الٹا مجھے ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔میں نے کہا :باجوہ صاحب یہاں تک درست ہے کہ آپ نے سمری کابینہ کو بھیجی‘ آپ نے ایف بی آر ٹیم بنائی‘ آپ نے سوئس حکومت سے جا کر ان دو سو ارب ڈالروں کی ڈیل کرنی تھی‘ لیکن یہیں سے سارا کھیل شروع ہوا۔ جس رات ٹیم نے سوئٹزرلینڈ جانا تھا آپ نے اپنی سیٹ کینسل کرادی اور ایک اور افسر کو کہا کہ تم میری جگہ جائو۔ آخری لمحے پر ٹیم کی سربراہی سے انکار کر دیا اور جونیئر افسر کو بھیج دیا۔انہوں نے کہا:کلاسرا صاحب اس وقت عمران خان کا دھرنا اسلام آباد میں چل رہا تھا‘ شرکا نے ایف بی آر دفتر کے قریب ہی دھرنا دیا ہوا تھا ‘ دھرنے کی وجہ سے ہمارا دفتر فرنٹ سائیڈ پر بند تھا۔ افسران پچھلے دروازے سے آجارہے تھے۔ میرے لیے نکلنا مشکل تھا۔ 
میں نے حیران ہو کر پوچھا: آپ اس وجہ سے سوئٹزرلینڈ نہیں گئے کہ عمران خان نے دھرنا دے رکھا تھا۔ آپ باہر نہیں نکل سکتے تھے‘ لہٰذا آپ نے سیٹ کینسل کرا کے کسی اور کو بھیج دیا؟ نہوں نے کہا: جی میں بھلا کیسے جاسکتا تھا؟ دوسرا میری کچھ اور بھی ذمہ داریاں تھیں‘ جو میں نے دفتر میں نبھانا تھیں‘ اس لیے میں نے کسی اور کو بھیج دیا۔ میںنے کہا: باجوہ صاحب پھر آپ دفتر سے گھر کیسے جاتے تھے؟ دھرنے کی وجہ سے آپ دفتر سے نکل کر ائیرپورٹ تک نہیں جاسکتے تھے‘ تو وہ افسران کیسے دفتر سے نکل کر ایئرپورٹ پہنچے جنہوں نے سوئس حکومت سے مذاکرات کرنے تھے؟ 
باجوہ صاحب بولے :آپ کو میں نے بتایا تو ہے کہ وہ دفتر کے پچھلے گیٹ سے آجارہے تھے۔ میں نے کہا:تو آپ بھی اسی گیٹ سے ائیرپورٹ چلے جاتے۔ پھر میں نے اگلا سوال کیا:باجوہ صاحب جب وہ ٹیم سوئس حکومت سے کامیاب مذاکرات کر کے لوٹی‘ سوئس حکومت پاکستان کے دو سو ارب ڈالرز واپسی کا معاہدہ کرنے کو تیار تھی تو پھر آپ نے اس ٹیم کا معاہدہ کیوں نہیں ہونے دیا؟ الٹا آپ نے ٹیم کی واپسی پر نوٹ لکھ کر وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کو بھیجا جس میں آپ نے لکھا کہ میری ٹیم سوئس حکومت سے مذاکرات کر کے لوٹ آئی ہے‘ لیکن ابھی دو اہم پوائنٹس ہیں جن پر دوبارہ بات ہونی چاہیے‘ لہٰذا آپ سوئٹزرلینڈ میں پاکستانی سفارت کاروں کو کہیں کہ وہ سوئس حکومت کوبتائیں کہ وہ اس ٹیم سے کیے گئے مذاکرات کو فائنل نہ سمجھیں۔آپ کے اس نوٹ کا مقصد اور کچھ نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ جو کامیاب مذاکرات ہوگئے تھے ان کو ناکام بنایا جائے۔ آپ نے دراصل فنانس منسٹر ڈار کے کہنے پر ان پاکستانیوں کو وقت لے کر دینا تھا جن کے پیسے اب خطرے میں آگئے تھے‘ تاکہ وہ کہیں اور شفٹ کر لیں ۔ اس لیے آپ نے فورا ًاس معاہدے کو رکوا دیا۔ باجوہ صاحب بولے :آپ کو پتہ ہے جو ٹیم سوئٹزرلینڈ مذاکرات کرنے گئی وہ جو نیئر ٹیم تھی‘ ہم چاہتے تھے کہ کچھ باتیں رہ گئی تھیں وہ اگلے راؤنڈ میں کی جاتیں۔ میں نے کہا :باجوہ صاحب آپ فرما رہے ہیں جونیئر ٹیم گئی تھی جس نے وہ معاہدہ فائنل کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی؟ پہلے آپ خود اس ٹیم کے سربراہ کے طور پر جارہے تھے تو پھر آپ کیوں نہ گئے؟ دراصل آپ کو اسحاق ڈار نے کہا کہ ابھی رک جائیں‘ یہ معاہدہ نہیں ہونا چاہیے ‘ کیونکہ دھرنے کی وجہ سے حکومت خطرے میں تھی۔ نواز شریف کو زرداری کی پارٹی کی سپورٹ درکار تھی اور زرداری کے ساٹھ ملین ڈالرز بھی اس معاہدے کے بعد پاکستان کو مل سکتے تھے۔ آپ کا باس اسحاق ڈار کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا کہ کہیں پیپلز پارٹی ناراض نہ ہوجائے‘ اس لیے آخری لمحے پر آپ کو کہا گیا کہ کوئی جگاڑ نکالیں اور معاہدہ نہ ہونے دیں۔ آپ نے یہ حل نکالا کہ خود کو ٹیم سے الگ کیا ‘ ٹیم کو جانے دیا ‘ جب وہ ٹیم کامیاب مذاکرات کر کے لوٹی جس سے پاکستان کو دو سو ارب ڈالرز واپسی کی راہ ہموار ہوسکتی تھی تو آپ نے فوراً ایک خط اسحاق ڈار کو لکھا جس کی کاپی میرے پاس موجود ہے‘ جس میں آپ نے اس ٹیم پر اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ ابھی ہم یہ معاہدہ نہیں کرنا چاہتے۔ باجوہ صاحب بولے کہ دراصل ہماری ٹیم نے جو سوئس حکومت کی باتیں مان لی تھی وہ ہمارے لیے قابل قبول نہ تھیں‘ ہم اس پر دوبارہ بات کرنا چاہتے تھے؟ 
میں نے کہا: کون سی شرائط تھیں جو آپ نہیں مان سکتے تھے؟بولے سوئس کہہ رہے تھے کہ ان کی کمپنیاں جو پاکستان میں بزنس کرتی ہیں ان کے پرافٹ پر دس فیصد کے بجائے پانچ فیصد ٹیکس کیا جائے اور سوئٹزرلینڈ کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دیا جائے۔ ہمیں ان دونوں باتوں پر اعتراض تھا لیکن ہماری ٹیم مان آئی تھی ‘ اس لیے ہم دوبارہ بات کرنا چاہتے تھے۔میں صدمے کی کیفیت میں بولا کہ باجوہ صاحب سوئس حکومت کتنے ارب ڈالرز کا بزنس پاکستان میں کرتی ہے کہ اگر ہم ٹیکس دس سے پانچ فیصد کر دیتے تو پاکستانی اکانومی بیٹھ جاتی ؟ یا موسٹ فیورٹ کا درجہ دینے سے ہمارا کباڑہ ہوجاتا؟ جو ملک آپ کو دو سو ارب ڈالرز دینے کو تیار تھا اسے پانچ فیصد پرافٹ ٹیکس میں چھوٹ دینے یا موسٹ فیورٹ نیشن کادرجہ تو آپ کو بھاگ کر دینا چاہیے تھا‘ جیسے آپ کی ٹیم دے آئی تھی۔ آپ کو دو سو ارب ڈالرز عزیز تھے یا چند ملین ڈالرز کم ٹیکس مل جاتا تو وہ مسئلہ تھا؟ 
باجوہ بولے: کلاسرا صاحب اس کا بہت اثر ہونا تھا ‘ دوسرے ملک جنہیں ہم دس فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ ناراض ہوتے اور کہتے ہمارا بھی ٹیکس پانچ فیصد کرو۔ میں نے کہا :مجھے سمجھائیں وہ ملک کیسے ناراض ہوتے‘ کیا وہ سوئٹزرلینڈ کی طرح پاکستان کو دو سو ارب ڈالرز تک رسائی دینے کو تیار تھے؟ سوئس آپ کو کہتے ہمیں زیرو ٹیکس کرو‘ تو بھی آپ کو ماننا چاہیے تھا ‘کہ ہمیں دو سو ارب ڈالرز آرہے تھے۔ باجوہ بولے: لیکن ضروری نہیں کہ ان کے پاس ہمارے دو سو ارب ڈالرز ہی ہوتے۔ میرے منہ سے پھر قہقہہ نکلا اور میں نے کہا کہ حضور یہ دو سو ارب ڈالرز کا فگر تو آپ نے ہی اپنی کابینہ کو بھیجی گئی سمری میں لکھا تھا اور اب آپ پانچ سال بعد اس پر شک اٹھا رہے ہیں جب میں اس پر سٹوری کررہا ہوں؟
میں نے کہا :ایک بات کہوں‘میرا دل صدمے سے بھر گیا ہے‘باجوہ جٹ قوم ہے‘ اس دھرتی سے جڑی ہوئی ہے ‘ آپ Son of Soil ہیں۔ آپ کیسے اس دھرتی کے ساتھ یہ سلوک کرسکتے ہیں‘ جو آپ نے کیا ۔ الٹا آپ نے اس افسر کو بھی سزا دی جو یہ ڈیل کر کے آیا تھا۔ باجوہ بولے :میں نے ہرگز اس افسر کو سزا نہیں دی‘ میرے بعد جو ہوا وہ ہوا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس اس کے دستاویزی ثبوت ہیں ۔ باجوہ بولے: تو ابھی بھی سوئٹزرلینڈ سے دو سو ارب ڈالرز واپسی کا معاہدہ ہوسکتا ہے۔ میں ہنس پڑا کہ جب معاہدہ ہوگیا تھا چار سال قبل تو آپ نے اسے اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اس دوران اسحاق ڈار نے چالیس ارب ڈالرز کے مہنگے قرضے لیے۔ موٹرویز‘ ٹی وی سٹیشن‘ریڈیو سٹیشن‘ ائیر پورٹس تک گروی رکھ کر سکوک بانڈز‘ یورو بانڈز مہنگے سود پر لیے۔ آپ خود گورنر ہو کر ڈالر زکو ایک سو تیس روپے تک لے گئے۔ آج کہتے ہیں کوئی بات نہیں‘ آج پھر معاہدہ کر لیں۔ ان پانچ سالوں میں آپ سب نے مل کر ہمیں برباد کیا ۔ دو سو ارب نہ سہی اگر پچاس ارب ڈالرز بھی آجاتے تو پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا جو آپ نے اسحاق ڈار‘ طارق پاشا اور دیگر کے ساتھ مل کر کر دیا ۔
عامر متین نے میری طرف اور میں نے ان کی طرف دیکھا ۔ دونوں بڑی دیر تک چپ چاپ صدمے کی حالت میں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ کیا طارق باجوہ کے لیے ایف بی آر چیئر مین کا عہدہ‘ پاکستان کے دو سو ارب ڈالرز سے زیادہ اہم تھا ؟ اسحاق ڈار‘طارق باجوہ اور طارق پاشا کے ملک کو برباد کرنے کے لیے خطرناک گٹھ جوڑ کی باقی کہانی ‘الیکشن کے بعد سہی! 


 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved