تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-07-2018

کاک ٹیل

وضاحت مطلوب ہے!
گزشتہ اتوار کو ایک انگریزی روزنامے نے اُردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر اور ہمارے دوست سرمد صہبائی سے گیارہ سوال کیے تھے‘ جو یقیناسنجیدہ تھے‘ لیکن ان میں سے اکثر کے جواب بظاہر خاصے غیر سنجیدہ تھے‘ مثلاً :ایک سوال تھا: آپ کی نظر میں غیر ضروری طور پر بہت زیادہ اہمیت اختیار کرنے والی کتاب؟ 
جواب دیا: دیوانِ غالب ؔ(یہ ان کی ذاتی رائے بھی ہو سکتی ہے)
سوال: کس کتاب کو ضرورت سے زیادہ نظر انداز کیا گیا؟
جواب تھا: دیوانِ چرکیں
پھر پوچھا: فیض احمد فیضؔ اور ن م راشد؟
جواب دیا: جعفر زٹلی
پھر پوچھا گیا: ایک مرحوم شاعر جسے ادب کا نوبیل پرائز ملنا چاہئے تھا‘ لیکن نہ ملا؟
جواب تھا: استاد امام دین
ان میں سے کچھ جواب سنجیدہ تھے‘ مثلاً: 
زندہ ادیبوں میں کوئی نوبیل پرائز کا حقدار؟
جواب تھا: مقابلہ مستنصر حسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ میں ہے۔
اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انہوں نے کچھ جوابات تو سنجیدگی میں دیئے اور کچھ میں غیر سنجیدہ ہو گئے ہوں‘ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ یا تو سارے جوابات سنجیدہ تھے یا سب کے سب غیر سنجیدہ‘ کیونکہ کچھ جواب توہین آمیز بھی تھے۔ اس لیے صاحب موصوف سے یہ وضاحت ضروری ہو گئی ہے ‘اگر سارے جوابات سنجیدہ تھے‘ تو وہ کس بناء پر دیئے گئے؟
کیا ہمیں ڈیمز کی واقعی ضرورت ہے؟
اسی روز ایک اور مؤقر انگریزی روزنامے میں اس عنوان سے ''کیا ہمیں ڈیمز کی واقعی ضرورت ہے؟‘‘ ڈاکٹر فرخ سلیم کا مضمون شائع ہوا ہے‘ جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا مسئلہ قلّت آب نہیں‘ بلکہ بد انتظامی ہے۔ ان کے خیال میں جن دریائوں سے ہمیں پانی دستیاب ہے ‘ یہ 2050ء تک اسی طرح جاری رہے گا۔ ہمارا زیادہ تر پانی راجباؤں‘ کھالوں اور کھیتوں میں ضائع کر دیا جاتا ہے اور اگر اس ضیاع سے بچا جا سکے‘ تو ہم قلت آب سے بچ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ڈیمز سے پیدا ہونے والی بجلی بہت مہنگی پڑتی ہے اور اگر ہم بجلی درآمد کریں‘ تو وہ سستی پڑے گی اور یہ کہ ڈیمز اب قصۂ ماضی ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جتنے پانی سے جو فصلیں اٹھاتے ہیں‘ دنیا میں اس سے آدھے پانی سے اتنی ہی فصلیں برداشت کی جا رہی ہیں‘ کیونکہ ہمارا مسئلہ پانی کی صرف مینجمنٹ ہے ‘جس پر اگر قابو پا لیا جائے‘ تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اس تناظر میں کہ چیف جسٹس پاکستان نے ڈیمز کے حوالے سے جو پر جوش پیش رفت کی ہے‘ جبکہ اس فنڈ میں معقول رقوم بھی جمع ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ مناسب ہے کہ ڈاکٹر فرخ سلیم کے دعوئوں پر باقاعدہ بحث کی جائے کہ ان حالات میں ہمیں کیا واقعی ڈیمز کی ضرورت ہے یا موصوف کی تجاویز پر عمل کر کے اس ''فضول خرچی‘‘سے بچا جا سکتا ہے‘ تاہم یہ فنڈ ریزنگ جاری رکھی جائے ‘کیونکہ اگر بالآخر ڈیمز نہ بنانے کے حق میں فیصلہ ہو جائے‘ تو یہی فنڈز قرضوں کی ادائی میں کام آ سکتے ہیں!
بھارتی فلمی گانے
میں بھارتی فلمی گانے شوق سے سنتا؍ دیکھتا ہوں‘ لیکن ان کے بارے میں میرے تحفظات بھی ہیں‘ مثلاً: ششی کپور اور اکشے کمار جیسوں کو فلم میں ہیرو کی بجائے چاچے مامے کا رول ملنا چاہئے‘ کیونکہ ہیروئن ان کی پوتی نہیں تو بیٹی ضرور لگتی ہے‘ نیز سلمان خان کا منہ اتنا بڑا ہو گیا ہے اور اسے پتا ہی نہیں چلا۔ گانے کے دوران ہیرو اور ہیروئن کوئی دس بار لباس تبدیل کرتے ہیں‘ بلکہ ایک سین میں ہیرو کی ڈاڑھی دکھائی جاتی ہے‘ تو دوسرے میں وہ کلین شیوڈ نظر آتا ہے۔ گویا گانے کے دوران وہ شیو بھی کر آیا ہے‘ یہ غیر قدرتی‘بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ ہیروئن روتی ہوئی ایسا ایسا منہ بناتی ہے کہ ہنسی آتی ہے۔ اگر گلیسرین دستیاب ہے‘ تو آنسو نکالنا ہی کافی سمجھا جانا چاہئے۔ بوسہ بازی اس طرح دکھائی جاتی ہے‘ جیسے دونوں کشتی لڑ رہے ہوں۔ ہیروز کے جسم جس قدر سُتے ہوئے اور کمائے ہوئے لگتے ہیں‘ اس میں ان کے ڈانس کا بھی حصہ ہے۔ ہیروئن بھی ٹھیک ہیں‘ لیکن جو اندازِ دلربائی کترینہ کیف میں ہے ‘کسی اور میں نہیں پایا جاتا۔ 
اور اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
چھپی ہوئی کوئی بجلی گھٹا میں شامل ہے
کہ ایک اور ہوا بھی ہوا میں شامل ہے
یہ ایک میں ہوں کہ خود میں بھی دستیاب نہیں
اور‘ ایک تو ہے کہ جو جابجا میں شامل ہے
یہ اور بات کہ تُو اس سے بے خبر ہے ‘ ابھی
وگرنہ میری معافی خطا میں شامل ہے
اگرچہ تُو نظر انداز کررہا ہے ‘ مگر
مری جگہ تری مہماں سرا میں شامل ہے
مری گرفت میں جو آ نہیں رہا کب سے
وہ لمحہ بھی مرے صبح و مسا میں شامل ہے
کہیں بھی کوئی اثر ہو نہیں رہا‘ جیسے
کوئی دعا بھی مری بددعا میں شامل ہے
کسی طرح سے بھی کیا ہم سے مختلف ہو گا
یہاں پہ جو بھی ہما و شُما میں شامل ہے
کسی طرح بھی اکیلا نہ جانیے گا اسے
کہ اس کی ساری خدائی خدا میں شامل ہے
پھر ان کی ساری کرامات کا خدا حافظ
گر ظفرؔ بھی ان اہل صفا میں شامل ہے
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بنایا ہوں‘ ظفرؔ
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved