کبھی آپ نے اُن کا دُکھ سمجھنے کی کوشش کی ہے‘ جو کسی بھی معاملے میں کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے اور کوئی حتمی نوعیت کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے؟ ہم بھی بہت سے معاملات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور پھر کسی ایسے فیصلے تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے ‘جو ہمارے مفادات کا بھی نگہبان ہو اور دوسروں کو بھی خوش یا مطمئن رکھ سکے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر واضح سوچ کا مطالبہ کرتی ہے۔ واضح سوچ پروان چڑھے گی‘ تو ہم معاملات کو اچھی طرح سمجھنے کے قابل ہوسکیں گے اور جب معاملات کی تفہیم آسان ہو تو کسی قابل ِقبول موقف اختیار کرنا اور درست فیصلے تک پہنچنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ سوچنے کی حد تک تو بہت آسان لگتا ہے‘ مگر در حقیقت ہے بہت مشکل۔ بہت سے معاملات کو اُن کی نوعیت الجھا دیتی ہے۔
اس وقت ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ لوگ اندھے ہیں‘ نہ بہرے۔ بہت کچھ ہے‘ جو عام آدمی کی سمجھ میں آرہا ہے‘ بلکہ آگیا ہے۔ ایک بڑے غیر ملکی نشریاتی ادارے نے جمعہ کو دن بھر ''معلّق‘‘ پارلیمنٹ کا ڈھول پیٹا۔ اور پھر تحریک ِانصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی معلّق پارلیمنٹ کا راگ الاپنا شروع کردیا۔ اُن کا یہ جملہ شہ سُرخی بنا کہ معلّق پارلیمنٹ بدقسمتی ہوگی۔ سیاست کے نام پر جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا رہا ہے‘ اُس کا ایک منطقی نتیجہ تو وہی برآمد ہونا تھا‘ جو برآمد ہوا ہے۔ اس وقت ملک سیاسی انتشار کے اعتبار سے ''درجۂ کمال‘‘ پر ''فائز‘‘ ہے! کوئی بھی چیز ٹھکانے پر نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی طور پر بھی غیر معمولی انتشار ہے۔ مفاد پرستوں کے ٹولے ہیں جنہوں نے سیاسی جماعتوں کو نرغے میں لے رکھا ہے۔ ''الیکٹ ایبلز‘‘ کو محض ''کور‘‘ درکار ہے‘ جو اُنہیں سیاسی جماعتوں نے فراہم کر رکھا ہے۔ نظریات کی سیاست کا زمانہ لد گیا ہے۔ ع
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
فطری سیاسی عمل کی پیداوار کے طور پر یا پھر ''پولیٹکل انجینئرنگ‘‘ کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں‘ جن کے باعث کوئی بھی سیاسی جماعت ملک بھر میں واضح جڑیں رکھنے کی منزل سے دور ہے اور تنہا حکومت بنانا‘ تو خیر محض خیال و خواب کا معاملہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر معاملے میں بندر بانٹ کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ حکومت سازی کے عمل میں کئی جماعتوں کو شریک ہونا‘ ایک پلیٹ فارم پر آنا معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے کا باعث بن رہا ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی‘ تو برائے نام بھی نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں مخلوط حکومت کا بننا صرف اور صرف مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کا معاملہ ہوتا ہے۔ جب معاملہ صرف مفادات تک محدود ہوکر رہ جائے اور ہر بحث صرف ''اسٹیکز‘‘ کے گرد گھومتی سنائی دے ‘تو قومی مفادات کے لیے کسی بھی نوع کی بہتری کی کوئی گنجائش کیوں کر پیدا ہو؟
معلّق پارلیمنٹ کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ کیا اشارے دیئے جاچکے ہیں؟ ملک میں ''مقتدر‘‘ حلقوں کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے‘ اور یہ حلقے‘ جنہیں لاتے ہیں وہ تو‘ظاہر ہے‘ ان حلقوں سے بڑے نہیں ہوسکتے اور اپنی بات اُن سے منوانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوسکتے! عمران خان کا معلّق پارلیمنٹ کو بدقسمتی قرار دینا‘ اس امر کا غماز ہے کہ اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ تو سُن گُن مل ہی چکی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ بات اُن کی زبان پر آتی ہی کیوں؟ اور اگر کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے نے یہ راگ الاپا تھا تو اُس راگ کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے خود بھی الاپنے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی نشریاتی ادارے کو ''ٹاسک‘‘ دیا گیا کہ وہ معلّق پارلیمنٹ کے حوالے سے بحث کی گنجائش پیدا کرے اور ایسی فضاء پروان چڑھائے‘ جس میں پاکستانیوں کی غالب اکثریت معلّق پارلیمنٹ کو دل کی گہرائی سے قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے؟
قوم اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کی منزل سے اب صرف تین دن کی دوری پر ہے۔ ایسے میں معلّق پارلیمنٹ کی بات کیوں ہو رہی ہے؟ کیا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے؟ یا پھر یہ ہے کہ لوگ اُس صورتِ حال کو قبول کرنے کی ذہنی تیاری کرلیں‘ جو پیدا کی جانے والی ہے؟
کسی بھی گھرانے میں منجھلا بیٹا انتہائی قابلِ رحم حالت میں ہوتا ہے۔ تین بھائیوں میں سب کا لاڈ پیار سب سے چھوٹے کو ملتا ہے۔ احترام بڑے بھیا کے حصے میں آتا ہے۔ اور منجھلے لیے؟ وہ غریب تو ''بیچ کا بے چارہ‘‘ ہوتا ہے‘ یعنی اُس کے لیے بیشتر معاملات ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ...
کی منزل میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے‘ اُسے بھی چاؤ سے دیکھا جائے‘ لاڈ پیار کا برتاؤ کیا جائے تو اُس مقام پر ''چھوٹے میاں‘‘ آسن جمائے دکھائی دیتے ہیں اور اگر کماحقہ احترام چاہے تو وہ بھی نہیں ملتا کہ اس پر بڑے بھیا کا حق ہوتا ہے! کچھ کچھ ایسا ہی حال معلّق پارلیمنٹ کا بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتی۔ اور معلّق پارلیمنٹ کے اندر بھی بہت دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سب سے بڑی پارٹی بہت کچھ کھا پی کر بیٹھ جاتی ہے۔ چھوٹی پارٹیاں پریشر گروپ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے درمیانہ حجم رکھنے والی جماعتیں کماحقہ فوائد بٹورنے میں عموماً ناکام رہتی ہیں۔ جو کچھ معلّق پارلیمنٹ میں اندرونی سطح پر ہوتا ہے‘ بالکل ویسی ہی معاملہ بیرونی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ معلّق پارلیمنٹ قانون سازی کے اعتبار سے بھی کمزور رہتی ہے اور محاسبے کے عمل کو بھی چلانا تو دور کی بات ہے‘ ڈھنگ سے شروع بھی نہیں کر پاتی۔ اور کا نتیجہ ملک میں سیاسی نظام کے مزید کمزور ہو جانے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ معلّق پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتیں پریشر گروپ کی طرح کام کرکے اپنے اپنے مفادات کی بقائے دوام کا اہتمام کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ جب معاملہ ''میں‘‘ تک محدود ہوکر رہ جائے‘ تو ''ہم‘‘ کا خیال کسے رہتا ہے! جس سیاسی شخصیت کے دل و دماغ میں وزیر اعظم بننے کا بھرپور یقین سمایا ہوا ہے‘ وہ بھی اگر معلّق پارلیمنٹ کا رونا رو رہی ہے‘ تو متوجہ ہوئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ ملک کو ایسی پارلیمنٹ درکار ہے‘ جس میں ایک یا دو جماعتوں کی انتہائی مضبوط پوزیشن ہو‘ تاکہ نئی حکومت اپنی بات ٹھوس انداز سے کہنے کی پوزیشن میں ہو‘ جس پارلیمنٹ میں کوئی بھی مستحکم نہ ہو ‘اُس کی بات کون سُنے گا اور وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پوزیشن میں ہوگی ہی کہاں؟!
معلّق پارلیمنٹ کے عذاب سے مستقل گلو خلاصی کی ایک بہتر اور قابل عمل صورت یہ ہے ہوسکتی ہے کہ ملک کو مرحلہ وار ٹو پارٹی سسٹم کی طرف لے جایا جائے۔ معاملہ جب واضح طور پر دائیں اور بائیں بازو کا ہو تو عوام کے لیے بھی کوئی واضح موقف اختیار کرنا‘ ٹھوس سیاسی سوچ اپنانا بہت حد تک ممکن ہو جاتا ہے۔ عوام کو معیاری سیاسی سوچ اپنانے سے روکنا صریح ظلم‘ بلکہ ملک سے غدّاری ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کی واحد صورت یہ نہیں کہ بیلٹ باکس میں جعلی ووٹ بھرے جائیں۔ رائے عامہ پر شرمناک حد تک کھلے پن کے ساتھ اثر انداز ہونا بھی انتخابی دھاندلی ہی کی ایک صورت ہے۔ دعا کی جانی چاہیے کہ قوم کے حصے میں ایک اور کمزور یا بہت حد تک معلّق پارلیمنٹ نہ آئے۔ بیچ کے بے چاروں سے بھری ہوئی پارلیمنٹ ملک و قوم کے لیے کچھ ڈلیور نہ کر پائے گی‘ کیونکہ اس کے مینڈیٹ کی میعاد کا بیشتر حصہ اپنے بانجھ پن کے ماتم ہی میں ضائع ہوجائے گا!