تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     23-07-2018

اپنے ووٹ کا حق ادا کریں!

رواں ہفتے، 25 تاریخ کوہماری قوم کے غریب اور نڈھال لوگ ، آزادی کی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک بار پھر اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ ڈالیں گے اور نئی حکومت کے نئے ارکان کا تقرر کریں گے۔ بے شک رائے دہی کا حق جمہوری عمل میں سب سے مقدس استحقاق ہے۔ یہ واضح خوبی جمہوریت کو بہت سے دیگر طرزہائے حکومت سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ اس اہم حق کی علامت ہے جس کے استعمال سے ہم انتخاب کرتے ہیں کہ کس طرح سے ہماری خواہشوں کے عین مطابق ہم پر حکومت کی جائے، دوسرے لفظوں میں ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی تقدیر کے مالک خود ہیں۔ مختصر یہ کہ ووٹ ڈالنا صرف استحقاق ہی نہیں بلکہ یہ ہم میں سے ہر ایک کی نہایت اہم ذمہ داری بھی ہے۔ 
نظریاتی طور پر تو یہ بہت دلفریب کارروائی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ہمیں آئینی اور قانونی طور پر ایک حکومت ختم کرنے اور اپنی آزادی کے نئے محافظ متعین کرنے کاحق ملتا ہے‘ تاہم پاکستان کے ضمن میں نظریہ اور حقیقت میں بُعدالمشرقین ہے، کیونکہ نظریے کے ساحل پر حقیقت کی ریت دور تک پھیلی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مخصوص سیاسی جماعتوں کے لیے انفرادی سیاسی جذبے سے محروم‘ آنے والے انتخابات کم درجے کی برائی کا انتخاب ،ہیں۔ 
پچھلی سات دہائیوں میں ہماری جمہوریت نے لوگوں کے لیے زیادہ فوائد فراہم نہیں کئے۔ہم نے مذہبی اقلیتوں کے قتال‘ بر سر عام کرپشن‘ موروثی سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال سیاسی اقتداراور فوجی آپریشنز کے ذریعے بحال کئے گئے امن کے باریک پردے کے پیچھے سے رینگتی ہوئی عسکریت پسندی دیکھی ہے۔لہٰذا 2018ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کچھ دیر رک کر غور کر لیا جائے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور یہاں سے کس سمت جانا چاہتے ہیں۔ 
کم و بیش 20 کروڑ عوام پر مشتمل نسبتاً ایک نوجوان قوم کی حیثیت سے پاکستان کے دکھ اور تکلیفیں اس کے حصے سے زیادہ ہیں۔ قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود ہمارے ہاں بجلی کا شدید بحران ہے‘ وافر خوراک پیدا کرنے کے باوجود ہمارے ہاں بچے بھوک سے مرتے ہیں‘ آئینی جمہوری نظام کے باوجود ہماری سیاست میں سیاسی خانوادے پیوستہ ہیں، امن کے مذہب کی پیروی کے باوجود ہم اسی مذہب کے نام پر قتل و غارت اور بربریت کئے جاتے ہیں۔ 
ہمارے قومی سفر پر ایک نظر ڈالنے سے ظاہر ہو جائے گا کہ پاکستان کے اگر تمام نہیں تو اکثر مسائل ہماری آپسی بے مقصد کشمکش اور شہریوں کے سماجی و معاشی مسائل کی طرف توجہ نہ دینے سے پیدا ہوئے ہیں۔1970 ء کی دہائی سے شروع کریں ،جب روسی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو جنرل ضیا کی اقتدار کی غلام گردشوں کی طرف پیش قدمی کی راہ ہموار ہوئی‘ جنہوں نے اقتدار کی بھوکی پنجابی اشرافیہ (اسے نواز شریف پڑھا جائے)کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جو آمر کے زیرسایہ جمع ہونے پر آمادہ تھے۔ اسی سیاہ دور میں پاکستان کا واسطہ افغان پناہ گزینوں اور عسکریت پسندوں کے انبوہِ کثیر سے پڑا‘ جو اپنے ساتھ ہیروئن اورکلاشنکوف لائے۔ انہی برسوں میں چونکہ مذہب ریاست کا نیا منتر بن چکا تھا؛چنانچہ ملاملٹری اتحاد میں مُلا کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے ملک کے آئین اورقوانین میں ترمیم کی گئی۔ حدود آرڈیننس نافذ کیا گیااور ایک بار پھر کمزور عدلیہ نے ان اعمال کی توثیق کی۔
17 اگست 1988ء کو بہاولپور میں جہاز حادثے کے ساتھ نواز شریف بے نظیر دہائی کا آغاز ہوا، ایک ایسی دہائی جو ہماری جماعتی سیاست کی سطحی فطرت کی شہادت کے طور پر بدستور جاری ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں نے خود کو مکمل طور پر خاندانی اقتدار اور باہمی سازشوں میں مشغول رکھا، جس کے نتیجے میں ہر دو جماعتیں دو دوبار اقتدار میں آئیں مگر کوئی بھی اپنے دورِ اقتدار کو پورا نہ کر سکی۔ اس دوران عسکریت پسندی‘ فرقہ واریت‘صوبائی تنازعات یا مالی بد عنوانی پر قابو پانے کی کوئی حقیقی کوشش نہ کی گئی۔ 
صدی کے اختتام پر جنرل مشرف نے آئینی اختیارات کو پامال کیا ‘ جسے ایک بار پھر عدالتی توثیق مل گئی ‘ اتفاق سے اس میں افتخار چوہدری بھی شامل تھے۔ اسی دوران جب امریکہ میں 11/9 کے واقعات ہوئے تو افغانستان از سر نو میدان جنگ بن گیا۔آنے والی ایک دہائی میں پاکستان دہشت گرد کے خلاف جنگ کی لپیٹ میں رہا‘ اور دہشت گرد ملک کے کونے کونے سے نکلتے رہے۔اس دوران کچھ بڑی طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کو دہشت گردقرار دے دیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے پاکستان سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔اس وقت کسی کی توجہ مالی بدعنوانی کے خلاف کوشش یا سماجی اور معاشی اہمیت کے حامل دیگر معاملات کی جانب مبذول نہ ہوئی‘ جبکہ معصوم بچے پاکستان کے شہروں میں دھماکوں میں اڑائے جاتے رہے۔اس دوران جب دنیا نے اپنا فوکس پاکستان میں دہشت گردی پر بنا رکھا تھا ‘ مالی بدعنوانی اور موروثی سیاست کا رجحان پاکستان میں بلا روک ٹوک قائم رہااور پس پردہ مزید قوت پکڑتا چلا گیا۔ 
بالآخر 2008 ء میں جمہوریت پاکستان کی طرف لوٹ آئی۔مضبوط وکلا تحریک کے بعد اس بار جمہوریت کو مضبوط عدلیہ کا ساتھ بھی حاصل تھا۔ عدلیہ نے سیاسی اشرافیہ کے مالی معاملات اور میگا کرپشن سکینڈلز پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس دوران جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے اچھے اور برے طالبان کی پرانی روایت ترک کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کا فیصلہ کیا۔ 
پاکستان نے چالیس سال سے زائد عرصے میں پہلی بار پانچ سالہ جمہوری دور مکمل کیااور 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت بنی۔ امید کی جا رہی تھی کی جمہوری دور کی تکمیل ہمارے آئینی بندوبست میں مضبوطی کا باعث بنے گی۔ نیب‘ ایف آئی اے‘سٹیٹ بینک اورریاست کے دیگر ادارے بغیر رُو رعایت اور خوف کے اپنا کام کرنے لگ جائیں گے‘ جمہوری قدریں موروثی قیادت کی جگہ لے لیں گی اور عوامی مسائل ذاتی مفادات پر غالب آجائیں گے، مگر مسلم لیگ ن کی سابق حکومت اس قسم کی کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ذاتی مفادات اگر مضبوط نہ ہوئے تو زیادہ تر مدت کے لیے یہ بالاتر ضرور رہے اورسعید احمداور نیب کے قمر زمان جیسے افراد ہماری حکمران اشرافیہ کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ اس دوران پاکستان کے عوام اس جمہوری وعدے کی تکمیل کے منتظر رہے کہ شہریوں پر حکومت کے بجائے ان کی خدمت کی جائے گی۔ 
اس تناظر میں پاکستان کے عوام کو ہمارے مشترکہ مستقبل کے لیے ایک بار پھر ووٹ ڈالنے کے لیے آواز دی جا رہی ہے۔ اگرچہ مخصوص جماعتوں کی جانب سے بہت کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ووٹ کو مختلف ایشوز سے جوڑا جائے جیسا کہ ووٹ کو عزت دو اورسول ملٹری عدم توازن کا غیر واضح نعرہ‘ مگر یہ واضح ہونا چاہیے کہ دو بنیادی ایشوز وضاحت کے متقاضی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ شدت پسندی کی بیخ کنی اور ہمارے سیاسی طبقے میں کرپشن کاخاتمہ۔ بے شک ہم جس سیاسی جماعت کو بھی ووٹ دیں یا جو امیدوار بھی ہماری توجہ حاصل کرے ‘ کوشش کریں کہ ہمارا ووٹ پاکستان کے ان دو بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کام آئے۔آئیں اس ووٹ سے یقینی بنائیں کہ ہم ایسے سیاستدانوں کو اقتدار میں نہیں لانا چاہتے جو اب بھی اچھے اور برے شدت پسندوں کی تفریق کرتے ہیں نیز یہ کہ دہشت گردی‘ فرقہ واریت‘صوبائیت یا خواتین پر تشدد ہر صورت میں ووٹ ہی کی طاقت سے ختم ہو گا۔ اسی طرح ہم اپنے ووٹ کو ایک طے شدہ حقیقت کے طور پر پیش کریں کہ ہم اپنا قومی خزانہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتے جنہوں نے مشکوک مالی لین دین سے اپنی امارات بنا لی ہیں‘ اوریہ کہ ہم ایسے افراد کو حکمرانوں کے طور پر قبول نہیں کریں گے جنہوں نے بیرون ملک اپنی جائیدادیں چھپا رکھی ہیں اوراُن کی دولت تو تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کا سکہ بے قدری کا شکار ہے۔ 
کئی حوالوں سے یہ الیکشن ہمارے پاس یہ سب ثابت کرنے کا شاید آخری موقع ہے۔ اگلا الیکشن جو کہ 2023ء میں ہو گا‘ ہو سکتا ہے بہت تاخیر کا شکار ہو جائے۔ یہ، یہاں اور ابھی ہمارے پاس موقع ہے، اگر ہم اس موقعے کو درست طور پر بروئے کار لانے کی ہمت کا مظاہرہ کر سکیں تو۔ 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved