تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     23-07-2018

پچاس کروڑ؟؟

پچاس کروڑ؟؟ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ''جی ہاں پچاس کروڑ‘‘ وہ بولا ''اور وہ بھی صرف تین سال میں‘‘۔ میرے چہرے پر ایک رنگ آ اور ایک جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کام کیا کرتا ہے۔ میرا دوست بولا: فری لانسنگ۔ اس نے بتایا کہ وہ انٹرنیٹ پر کام کرتا ہے‘ اپنی مرضی سے کرتا ہے اور جتنا چاہے کرتا ہے اور یہ سارے پیسے اس نے انٹرنیٹ سے ہی کمائے ہیں۔ میں نے کہا: پھر تو وہ یقینا مائیکروسافٹ کا آئن سٹائن ہو گا‘ وہ آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہو گا یا پھر اس کے پاس ڈھیر سارا پیسہ ہو گا جو اس نے کاروبار میں لگایا اور اتنا مال کما لیا۔ میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا: ایسا کچھ بھی نہیں۔ نہ وہ آکسفورڈ کا پڑھا ہے نہ ہی اس نے کاروبار میں کوئی مال لگایا ہے۔ اس کا باپ دراصل اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا لیکن اسے دلچسپی نہ تھی۔ اس نے میڈیکل چھوڑ کر بی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ اسے کاروبار کرنے کا جنون تھا مگر وہ دوسروں سے کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ یہ دو ہزار دس کی بات ہے۔ اس نے فری لانسنگ کا ایک سیمینار اٹینڈ کیا۔ اس سیمینار نے اس کی زندگی کا رُخ موڑ دیا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ پر فائیور ڈاٹ کام اور دیگر ویب سائٹس پر مختلف کام کر کے بھی پیسے کمائے جا سکتے ہیں؛ تاہم انٹرنیٹ پر پیسہ کمانا آسان نہ تھا۔ اس کے لئے اسے مطلوبہ شعبوں میں مہارت درکار تھی۔ اس نے انٹرنیٹ اور یو ٹیوب کو اپنا استاد بنا لیا‘ اور سیلف لرننگ کرنے لگا۔ اس نے ویب سائٹ ڈویلپمنٹ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں۔ فائیور ڈاٹ کام پر ان تمام سروسز کی فہرست بنا لی جن کے زیادہ آرڈر دئیے جاتے تھے۔ کچھ لوگ اور کمپنیاں اپنی ویب سائٹ کی گوگل رینکنگ بڑھانے کی خواہشمند تھیں اور کچھ نئی ویب سائٹس بنوانے یا ان میں تبدیلی لانا چاہتی تھیں۔ وہ دو تین سال تک انٹرنیٹ سے سیکھتا رہا اور دو ہزار تیرہ میں اس نے فائیور پر اپنا اکائونٹ بنایا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک مہینے تک اسے کام ہی نہ ملا؛ تاہم وہ مایوس نہ ہوا۔ اس نے اپنی پروفائل میں تھوڑی سی تبدیلی کی۔ اپنی تیس سیکنڈ کی ایک ویڈیو بنائی جس میں اس نے بتایا کہ وہ کلائنٹس کو کون سی سہولیات کس قدر بہتر انداز میں بروقت دے سکتا ہے۔ جیسے ہی اس نے یہ تبدیلی کی اسے اگلے ہی روز پانچ ڈالر کا ایک آرڈر موصول ہو گیا۔ اس نے وہ کام کر دیا اور یوں چار ڈالر اس کے اکائونٹ میں آ گئے جبکہ ایک ڈالر فائیور نے بطور کمیشن رکھ لیا۔ اس کا کام اعلیٰ معیار کا تھا؛ چنانچہ کلائنٹ نے جو ریویو لکھا اس میں اس کے معیار کی تعریف کی۔ آہستہ آہستہ اسے مزید آرڈر ملنے لگے۔ فائیور پر کام کروانے والوں میں اسی فیصد کمپنیاں اور بیس فیصد انفرادی لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک سے زیادہ اکائونٹ بنا کر یا جعلی ناموں سے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح زیادہ کام ملے گا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس لڑکے نے ایک اکائونٹ بنایا اور وہی اس کی پہچان بن گیا۔ جیسے ہی اس کے پچاس آرڈر مکمل ہوئے‘ فائیور نے اسے لیول ٹو دے دیا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے کام کی فیس بڑھا دی۔ فی الوقت وہ ایک کلائنٹ سے ایک سو بائیس ڈالر وصول کر رہا ہے۔ اس کے اکائونٹ پر پینتیس ہزار ریویوز موجود ہیں۔ یعنی وہ گزشتہ پانچ سالوں میں پینتیس ہزار آرڈر مکمل کر چکا ہے جنہیں ایک سو بائیس ڈالر سے ضرب دی جائے تو پچپن کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔ یہ ایک سال کے گیارہ کروڑ اور ایک مہینے کے تقریباً ایک کروڑ بنتے ہیں۔ یہ لڑکا ساری زندگی نوکریوں میں ایڑیاں بھی رگڑتا رہتا تب بھی ایک مہینے کے ایک کروڑ نہیں کما سکتا تھا۔ یہ فائیور سے کام لیتا ہے اور اپنی ٹیم میں بانٹ دیتا ہے۔ یہ اس وقت فائیور کا سپر سیلر بن چکا ہے۔ پاکستان میں شاید دس بارہ افراد فائیور کے سپر سیلر ہوں گے۔ 
میں نے انٹرنیٹ پر ریسرچ کی تو حیران رہ گیا۔ دنیا میں نوکری اور کاروبار کا رخ انٹرنیٹ کی طرف موڑنے والی فری لانسنگ کی ویب سائٹ فائیور کا ہیڈ کوارٹر تل ابیب اسرائیل میں ہے۔ یہ رینکنگ میں امریکہ کی پہلی سو اور دنیا کی پانچ سو ٹاپ ویب سائیٹس میں شامل ہے۔ آٹھ برس قبل بننے والی ویب سائیٹ کے دو موجد طلبا کا مقصد یہ تھا کہ انٹرنیٹ پر ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں مختلف سروسز بیچی اور خریدی جا سکیں۔ جب آپ فائیور پر پر اپنا اکائونٹ بناتے ہیں اور کوئی آپ سے سروس لیتا ہے تو فائیور کی زبان میں آپ ایک gig (سروس) مکمل کر لیتے ہیں۔ آپ کی gigs جتنی زیادہ ہوں گی‘ اس پر جتنے اچھے ریویوز ہوں گے اتنا ہی زیادہ آپ کو کام ملنے کا مواقع زیادہ ہوں گے۔ فائیور کے علاوہ‘ فری لانسر ڈاٹ کام‘ پیپل پَر آور ڈاٹ کام اور اپ ورک ڈاٹ کام بہت زیادہ معروف ہیں۔ ابتدا میں لوگ زیادہ تر فائیور سے ہی شروع کرتے ہیں اور بڑے آرڈرز کے لئے اپ ورک کا رخ کرتے ہیں۔ فائیور نے موبائل ایپ بھی لانچ کی ہوئی ہے‘ اور آپ اس پر درجنوں کام کر سکتے ہیں۔ مثلاً لوگو ڈیزائننگ‘ ایس ای او‘ سوشل میڈیا مارکیٹنگ‘ ٹرانسلیشن‘ پروف ریڈنگ اور ایڈیٹنگ‘ میوزک پروموشن‘ ریسرچ‘ ویب پروگرامنگ‘ پروموشنل ویڈیوز‘ ویڈیو مارکیٹنگ‘ موبائل ایپس‘ ڈیٹا اینالیسز اینڈ رپورٹس‘ بزنس پلانز‘ پریس ریلیز‘ کاروباری آئیڈیاز‘ لیگل دستاویز کی تیاری وغیرہ۔
میرے گزشتہ کالم کے بعد بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ ہم بھی انٹرنیٹ پر کا م کرنا چاہتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں اور کیسے کریں۔ میں نے آپ کے سامنے ایک نوجوان کی مثال رکھ دی ہے۔ میرے پاس ایسی دس مثالیں اور بھی ہیں جو پاکستان سے ہیں اور یہ سب مہینے کے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو جنوبی پنجاب اور ایسے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں جہاں انٹرنیٹ بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا لیکن شوق اور محنت کا ملاپ ان کو ترقی کی بلندیوں پر لے گیا۔ انہوں نے اسی انٹرنیٹ کو اپنا استاد بنا لیا جس انٹرنیٹ پر میں اور آپ بیٹھ کر روزانہ گھنٹوں ضائع کرتے ہیں۔ بلا وجہ فیس بک پر کمنٹس کرتے ہیں اور سونے‘ اٹھنے‘ کھانے پینے کی تصاویر اپ لوڈ کرکے لوگوں کے لائکس وصول کرنے کو زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارے لاکھوں بیروزگار نوجوان چند ہزار کی نوکریوں کے لئے دھکے کھا رہے ہیں لیکن فری لانسنگ کرنے کو تیار نہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں بھی شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں جس دن وہ فائیور پر اکائونٹ بنائیں انہیں دھڑا دھڑ آرڈرز ملنے لگ جائیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ پہلے آپ کو چند ہفتے یا مہینے انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر فری لانسنگ کی معلومات حاصل کرنے میں گزارنے ہوں گے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کس کام میں ماہر ہیں۔ پھر آپ کو اس سے متعلقہ کورس کرنا ہوں گے۔ آپ گرافک ڈیزائننگ کر سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو فوٹو شاپ وغیرہ کا کورس کرنا ہو گا۔ اسی طرح اگر آپ ویب سائٹ ڈویلپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو پی ایچ پی جیسی دو تین لینگوئجز سیکھنا ہوں گی۔ اگر آپ اکائونٹنٹ ہیں تو آپ اکائونٹس سے متعلقہ سروسز سے پیسہ کما سکتے ہیں لیکن یہ سب کوئی آپ کو گھر آ کر نہیں سکھائے گا۔ آپ کو خود بھی کچھ کرنا ہو گا۔ دانیال سلیم‘ عائشہ زمان اور ادریس فاروق جو فری لانسنگ سے بے انتہا کما رہے ہیں ان سب کی بھی یہی کہانی ہے۔ سب نے اسی انٹرنیٹ‘ یوٹیوب اور فیس بک سے سیکھا جو ہم سب کے زیر استعمال ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ترجیحات تبدیل کر لیں لیکن ہم نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔ میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ اگر ہمارے لاکھوں بیروزگار نوجوان سنجیدہ ہو جائیں تو فری لانس کام کرکے بے انتہا پیسہ کما سکتے ہیں‘ انہیں سمجھنا ہو گا کہ سیاسی جماعتیں ووٹ لینے کیلئے لاکھوں نوکریاں دینے کے دعوے تو کر سکتی ہیں لیکن حقیقت میں ان کے لئے کچھ نہیں کریں گی۔ آپ جو کچھ اپنے لئے کر سکتے ہیں کوئی آپ کے لئے نہیں کرے گا‘ لہٰذا زندگی میں خوش حالی لانا چاہتے ہیں تو سیاسی دعووں کے سراب سے باہر نکلیں اور فری لانسنگ کے ذریعے اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں سنوار لیں‘ وگرنہ باقی عمر بھی یونہی پچھتاتے گزر جائے گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved