تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-07-2018

ایک بار پھر قوم کی آزمائش

اس بات میں یہ کہ یہ قوم ایک بار پھر حقِ رائے دہی استعمال کرے‘ اب صرف ایک دن کی دوری رہ گئی ہے۔ کل کا دن گزرے کی دیر ہے‘ پھر وہی ہم ہوں گے‘ وہی بیلٹ پیپر اور وہی بیلٹ باکس۔ نئے حکمران منتخب کرنے کا اعزاز ہر پانچ سال بعد ملتا ہے اور ہم نئی امیدوں کو اپنے دل و دماغ سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ ہر بار ووٹ کاسٹ کرتے وقت یہی تو ہوتا ہے۔ کچھ ارمان ہوتے ہیں اور کچھ امیدیں۔ کچھ دیر کے لیے دل کو ڈھارس سی بندھتی ہے کہ اب معاملات درست ہوجائیں گے‘ مسائل حل ہونے لگیں گے‘ پرنالے وہیں بہنے لگیں گے‘ جہاں انہیں بہنا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ ڈھارس کچھ دیر کے لیے ہوتی ہے۔ 
جمہوریت کے دامن سے کیا وابستہ ہونا چاہیے اور کیا نہیں اس سے قطعِ نظر ہم ضرورت اور گنجائش سے کہیں زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم بنیادی طور پر حقائق اور حقیقت کے دامن سے لپٹ کر زندگی بسر کرنے والی قوم ہیں ہی نہیں۔ کچھ خواب دیکھے جاتے ہیں‘ ان کی تعبیر کے ارمان دل میں جنم لیتے ہیں‘ کچھ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ غیر حقیقی انداز سے سوچنے اور برتنے کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ وہی ہر انتخابات کے بعد برآمد ہوتا ہے۔ 
2013ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ تب بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا تھا۔ وہی وعدے اور دعوے تھے اور وہی خواہشات اور امیدیں۔ عوام کیا چاہتے ہیں؟ اپنے مسائل کا حل‘ بہتر زندگی کا امکان ... اور کیا؟ ووٹ کاسٹ کرتے وقت آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں۔ انسان جاگتی آنکھوں سے کئی خواب دیکھتا ہے۔ ''چشم ِتصور کی آنکھ‘‘ سے پتا نہیں کیا کیا ہوتا ہوا دیکھ لیا جاتا ہے! جاگتی آنکھوں کے خوابوں کا انجام؟ ان سپنوں کو دن کی دھوپ میں تپنا ہوتا ہے اور وہ تپتے ہیں۔ جب نئی حکومت کے قیام کے عمل میں شریک ہونے کا نشہ اترتا ہے‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ تو وہی ڈھاک کے تین پات رہا ہے۔ ؎ 
وائے ناکامی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سُنا افسانہ تھا 
ایک بار پھر قوم کو بیلٹ باکس تک پہنچنے کا موقع ملا ہے۔ اب کے بھی وعدے اور دعوے ہیں کہ ریلے کی طرح بہتے آرہے ہیں۔ تبدیلی کا غلغلہ بلند کیا جارہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ملک اور قوم کو علاقائی اور عالمی حالات کی روشنی میں کس طرح کی حکومت درکار ہے‘ یہ ایک الگ بحث ہے اور کس طرح کی حکومت بننے کا امکان ہے‘ یہ بالکل الگ معاملہ۔ پاکستان عجیب دو راہے پر کھڑا ہے۔ علاقائی اور عالمی قوتیں خدا جانے کیا کیا چاہتی ہیں۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ بڑوں کے لیے انتہائی پرکشش محلِ وقوع کے حامل ہونے کے باوجود ہم اب تک سلامت ہیں۔ دوسرے خریدنے کے لیے بے قرار ہیں اور اپنے ہیں کہ بیچنے کے لیے اتاؤلے ہوئے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا‘ آپ کو اپنی جگہ ہونا محض حیرت انگیز حقیقت نہیں ‘بلکہ معجزہ ہے۔ 
بات ہو رہی ہے‘ حقِ رائے دہی کی‘ جو محض ایک دن بعد بروئے کار لایا جانا ہے۔ قوم ایک بار پھر شش و پنج میں مبتلا ہے۔ گو مگو کی یہ کیفیت قوم کے ذہن میں تھی نہیں‘ بلکہ پیدا کرکے ٹھونسی گئی ہے‘ کیل کی طرح ٹھونکی گئی ہے۔ کیوں؟ مقصود یہی ہے کہ 25 جولائی کے عوامی فیصلے کی روشنی میں تشکیل پانے والی حکومت ایسی نہ ہو جو مذموم عزائم کی راہ میں مزاحم ہو۔ نادیدہ قوتیں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ قوم فکری اور نظریاتی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ منتشر ہو اور ایک ایسی حکومت قائم ہو جو برائے نام بھی مستحکم نہ ہو۔ ایسی حکومت جمہوریت کے لیے کس کام کی ہوسکتی ہے؟ اور اس سے بڑھ کر ایک سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا ملے گا۔ عام پاکستانی اب تک بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہا ہے۔ گھر میں وہ پانی اور بجلی کے لیے ترستا ہے اور کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو سڑک پر یومیہ نقل و حمل کے معقول نظام کے لیے ترستا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہم کیسی دلدل میں دھنس کر رہ گئے ہیں۔ اور یہ کہ اس سے نکلنا نصیب بھی ہوگا یا نہیں۔ 
پولنگ ڈے ایک دن کی دوری پر ہے اور قوم کا یہ حال ہے کہ اب تک طے نہیں کر پائی کسے گلے لگانا ہے‘ کسے مسترد کرنا ہے۔ انتخابی مہم عجیب انداز سے چلائی گئی ہے۔ سب کچھ ایسی تیزی سے اور ہڑبونگ کے عالم میں ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی پریشان ہیں اور ووٹرز بھی شدید الجھن سے دوچار ہیں۔ یہ شش و پنج کی کیفیت بالالتزام پیدا کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو خوب بروئے کار لایا گیا ہے۔ دونوں کو آلے کی حیثیت عطا ہوچکی ہے۔ انہیں آلۂ کار بناکر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ بڑے کیسز کے عدالتی فیصلوں نے فضاء کو مزید مکدر کیا ہے۔ لوگ ہر معاملے کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ دونوں بڑی جماعتیں ابھی سے کہہ رہی ہیں کہ اُنہیں دیوار سے لگاکر ''لاڈلے‘‘ کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ 
سب سے بُرا حال کراچی کا ہے۔ قومی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے کراچی کا استحکام لازم ہے۔ کراچی کوئی بھی جماعت واضح مینڈیٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ' کھچڑا‘ پکے گا۔ معاملہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی منزل سے بھی بہت پیچھے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں کراچی کا مجموعی ماحول ایک بار پھر شدید عدم استحکام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ شہر کا مینڈیٹ متعدد جماعتوں میں تقسیم کرنے کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ شہر کو ''اون‘‘ کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور یوں تمام چھوٹے بڑے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ 
علاقائی اور عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اندرون ملک بھی سیاسی حرکیات کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہیں۔ قوم کو زیادہ متحد اور منظم ہوکر عالمی حالات کا سامنا کرنا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اس امر کا متقاضی ہے کہ نئی حکومت انتہائی مستحکم ہو تاکہ چین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے ڈٹ کر بات کرسکتے۔ کمزور حکومت اندرونی اور بیرونی انتشار میں اضافے کا باعث بنے گی۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کسی فوری بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ قوم‘ حسب ِمعمول‘ انتشار کی کیفیت سے دوچار ہے۔ حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ایک بار پھر ضرور مل رہا ہے ‘مگر کچھ اندازہ نہیں کہ کرنا کیا ہے۔ معلّق پارلیمنٹ قوم کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دے گی۔ پارلیمنٹ میں کسی ایک جماعت کا‘ غیر مصنوعی طریقے سے‘ ابھرنا قوم کی ایک بنیادی سیاسی ضرورت ہے۔ بڑا مینڈیٹ رکھنے والی جماعت ہی مضبوط حکومت بناسکے گی‘ برقرار رکھ سکے گی۔ 
ایک بار پھر مقطع میں سخن گسترانہ بات آ پڑی ہے۔ قوم کو پھر ایک آزمائش سے گزرنا ہے۔ لنگڑی لُولی حکومت کو جھیلنا بھی ایک بڑی آزمائش ہے‘ مگر اس سے بڑی آزمائش ہے کسی بھی لنگڑی لُولی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے سے متعلق رو بہ عمل لائی جانے والی سازشوں کو ناکام بنانا اور قوم کو اس آزمائش میں پورا اترنا ہے۔ ع 
دیکھیے اس (بار) بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved