تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     23-07-2018

کیا نظام اسی طرح چلتا رہے گا؟

عابد حسین قریشی7جون 1988ء کو کھیلوں کے کوٹے پر پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے پر بھرتی ہواتھا۔سپورٹس کوٹے پر بھرتی ہونے کے باعث ‘اسے عابد باکسر کے نام سے پکارا جانے لگا اور پھر باکسر اُس کے نام کا لازمی جز بن گیا۔لڑکا تیز تھا‘ جلدہی سمجھ گیا کہ اعلیٰ شخصیات سے تعلقات استوار کرکے‘ وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عابد باکسر نے اعلیٰ سیاسی اور سرکاری شخصیات سے بہت اچھے تعلقات استوار کر لیے اور جب اس ڈگر پر چلا ‘تو اعلیٰ شخصیات کی آشیر باد بھی حاصل ہونا شروع ہوگئی اورجلد اُس کے پر پرزے نکلنا شروع ہوگئے‘ جس کے ساتھ ہی شہر کے بڑے جرائم پیشہ گروہ بھی رابطے میں آنے لگے۔ الغرض مفادات کا کھیل آگے بڑھا ‘تو ان کا نتیجہ پولیس مقابلوں کی صورت میں سامنے آنا لگا‘ لہٰذاموصوف نے صرف چھ سال کے دوران قریباً پینسٹھ پولیس مقابلے کرڈالے ‘ جن میں درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
انہی دنوں شوبز کی چکا چوند روشنیوں سے آنکھیں خیرہ ہوئیں‘ تو لاہور کی معروف سٹیج ڈانسر نرگس‘ عابد باکسر کے دوستوں میں شامل ہو گئی۔کافی عرصے تک دونوں کے درمیان گاڑھی چھنتی رہی‘ پھر کسی بات پر اختلافات ہوئے‘ تو انسپکٹری جوش میں آگئی۔ عابد باکسر نے ایک مقدمے کی تفتیش کے بہانے نرگس کو اٹھایا اور اسے بعض صورتوں میں ناقابلِ بیان تشدد کا نشانہ بنایا ۔ سر کے بال اور بھنویں تک مونڈ دیں۔ نرگس نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور عابد باکسر کے خلاف 28 مارچ 2006ء کو تھانہ جوہر ٹاؤن میں مقدمہ درج کروادیا۔یہ الگ بات کہ اس مقدمے کا نتیجہ کچھ نہ نکلا۔تب تک انسپکٹر عابد باکسر پر قتل‘ اقدامِ قتل اور جائیدادوں پر قبضے سمیت متعدد مقدمات قائم ہوچکے تھے۔ حوصلہ اتنا بڑھا کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر محمود شریف کی بیوہ نسیم شریف کو قتل کرکے ‘ ان کی جائیداد پر جعلی دستاویزات کے ذریعے قبضہ کرنے کا الزام بھی سامنے آیا۔کہا گیا کہ اس میں عابد باکسر کے دوبھائی بھی اس کے شریک کار تھے۔ اس کیس میں 20 جولائی 2011ء کو عدالت نے عابد باکسر کے دو سگے بھائیوں علی عباس اور ندیم عباس کو سزائے موت سنائی‘ جبکہ مقدمے میں اغوا اور قتل میں ان کا ساتھ دینے والے عابد باکسر کو مفرور قرار دیا گیا‘ جس کے ناقابل ِضمانت وارنٹ گرفتار جاری ہوئے ۔عابد باکسر پر قتل کا ایک اور مقدمہ نمبر 658 تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کیا گیا‘ جس میں سینما منیجر کو قتل کرنے کا الزام تھا۔جعلی انکاؤنٹرزمیں لوگوں کو مارنے سمیت دیگر جرائم سامنے آنے کے بعد انسپکٹر عابد باکسر ملک سے فرار ہوگیا۔
مجموعی طور پر عابد باکسر کے خلاف 109 مقدمات درج ہوئے‘ جن میں سے آخری مقدمہ 2017ء میں تھانہ ملت پارک میں درج کیا گیا ۔اس میں مدعی کی طرف سے کہا گیا کہ عابد باکسر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کے بیٹے کو مبینہ طور پر قتل کردیا ہے۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے دور میں عابد باکسر کے خلاف دومرتبہ ریڈ وارنٹ جاری کیے گئے‘ لیکن دونوں مرتبہ یہ فائلوں کی نذر ہوگئے۔2007ء کے بعد وہ پاکستان نہیں آیا۔ستمبر 2015ء میں پنجاب حکومت کی جانب سے عابد باکسر کے سر کی قیمت 3 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔آخر کار 11 سال کے بعد یہ قانون کی گرفت میں آہی گیا۔ دبئی سے واپس لائے جانے کے بعد یہ کئی مہینوں تک منظر سے غائب رہتا ہے ‘ اس کے سسر کی طرف سے ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاتی ہے کہ اس کے داماد کو پولیس مقابلے میں ہلاک کردئیے جانے کا خدشہ ہے۔ عدالت کے حکم پر اسے ماتحت عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ چہرے پر کسی پریشانی کے آثار کے بغیر عدالت میں پیشی ہوتی ہے۔اور ایک ہی پیشی پر دس مقدمات میں ضمانتیں بھی منظور ہوجاتی ہیں۔ ضمانت منظوری کے بعد اس کی طرف سے ہرجگہ یہی بیان دہرایا جاتا ہے کہ اس نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے کہنے پر پولیس مقابلے کیے۔گویا یہ عابد باکسر کا ایسابیانیہ ہے‘ جسے انتخابات سے عین چندروز قبل عوام کے سامنے لایا گیا ۔
کہا جارہا ہے کہ عابد باکسر اب بھی قانون کی گرفت میں نہ آتا‘ اگر اسے پاکستان لانے کے پس پردہ کچھ مقاصد کارفرما نہ ہوتے۔ تبھی تو واپسی کے بعد موصوف قوم کو حقائق سے آگاہ کرنے کی باتیں کررہے ہیں ۔اب اس تمام صورت ِحال سے جہاں دوسرے بہت سے نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں‘ وہیں یہ کہنا بھی شاید غلط نہیں ہوسکتا کہ درجنوں بندوں کو مارنے والا بھی کسی کھیل کا حصہ بن گیا ہے۔ اب وہ کھیل کیا ہے؟اس کے بارے میں دوآراء تو ہونہیں سکتیں۔اب کراچی کے بہادر بچے راؤ انوار کی بات بھی ہو جائے‘ جس کا کھل کھیلنا توکل کی بات ہے۔ دہائی خدا کی کہ خود سندھ پولیس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اکیلے پولیس آفیسر نے صرف سات سال کے دوران 745 پولیس مقابلوں کے دوران چار سو چوالیس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا‘ جبکہ کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 891 افراد کو ہلاک کرنے کی بجائے صرف گرفتار کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا۔وہ تو راؤ انوار کو نقیب اللہ کا قتل مہنگا پڑ گیا ۔ محسود قبیلے کے اس نوجوان کے قتل پر اس کے قبیلے نے احتجاج شروع کردیا‘ جس نے ایسا رخ اختیار کیا کہ بہادر بچے کو سرنڈر کرنا ہی پڑا ‘لیکن کئی ہفتوں تک سندھ پولیس کو پوری طرح چکر دینے کے بعد‘ایسا ممکن ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ سندھ پولیس کو معلوم نہ ہو کہ بہادر بچہ کہاں چھپا ہواہے؟ لیکن پولیس وہاں تک پہنچ نہیں رہی تھی‘ کیونکہ پر جلتے تھے‘اسی لیے بہادر بچے نے تب ہی سرنڈر کیا‘ جب اس کی اپنی مرضی تھی۔راؤانوار کو نقیب اللہ کا قتل مہنگا پڑ گیا۔نقیب اللہ کا خون بھی شاید رائیگاں ہی جاتا ‘اگر اس کا تعلق ایک بڑے قبیلے سے نہ ہوتا اور بات اتنی نہ بڑھ جا تی ۔نقیب اللہ قتل کیس کا تو شاید کوئی فیصلہ ہوہی جائے ‘لیکن اس شخص نے جن دیگر افراد کو اتنی بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارا ہے‘ان کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کون کرے گا؟
اگر یہ سب کچھ درست ہے‘ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہے‘ ہمارا نظام کہ ایک شخص پولیس مقابلوں میں 444 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے‘ لیکن کوئی چیک کرنیوالا نہیں۔ دہشت گرد کا نام دو اور کام تمام کردو۔دوسرے کے خلاف قتل جیسے سنگین جرائم سمیت 109 مقدمات درج ہوتے ہیں اور وہ گیارہ سال تک قانون کی گرفت سے دور‘ بیرون ملک میں مقیم رہتا ہے ۔ دوران ِسروس وہ کیسے ماؤں سے ان کے لخت ِجگر چھینتا رہا اور پورا نظام سکون کی نیند سوتا رہا۔ دوسروں کی جائیدادوں پر قبضے کرتا رہا ۔بے گناہوں کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ یہ سب کچھ قریباً 10سال تک چلتا رہا ‘لیکن حکومتی شخصیات کو کچھ دکھائی دیا‘ نہ انتظامی حکام کی آنکھیں کھل سکیں ۔وہ کھل سکتی بھی نہیں تھیں کہ مفادات کے کھیل میں سب چلتا ہے۔اب ہوگا یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ بہادربچہ کے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرہی لیا جائے گا۔ آخری اطلاع کے مطابق بہادر بچے کی ضمانت منظور ہو چکی ہے۔ دوسری طرف نئے بیانئے کے ساتھ سامنے لائے جانے والا کردار بھی اپنا بیانیہ دہراتا رہے گا۔قوم کو حقائق سے آگاہ کرتا رہے گا‘ پھر دائیں بائیں کردیا جائے گا۔ یوں بھی ہمارا معاشرتی طرز ِعمل بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ظالم بھی مظلوم بننا شروع ہوجاتا ہے۔ راؤ انوار اور عابد باکسر کے معاملے میں بھی یہی ہوگا اور نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved