میں راولپنڈی کی بینک روڈ سے پہلے پہل اپنے کالج کے دنوں میں آشنا ہوا ۔ وہ بھی کیا دن تھے جب شام کے رنگوں کے ہمراہ ہم دوست بنک روڈ پر پہروں بے مقصدگھوماکرتے تھے۔بینک روڈ کی بہت سی عمارتیں ہمارے سامنے تعمیر ہوئیں اوربہت سی جگہیں دیکھتے ہی ہماری نگاہوں کے سامنے معدوم ہوگئیں۔اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے اگر صدر راولپنڈی کادل تھا توبینک روڈ اس دِل کی شاہ رگ تھی جہاں زندگی ہمارے دلوں کے ساتھ دھڑکتی تھی۔ نیشنل بینک کی وسیع وعریض عمارت کی وجہ سے یہ بینک روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی اب تو بہت سے بینکوں کی برانچیں اس کے دائیں بائیں واقع ہیں۔راولپنڈی اور لالکرتی سے آتے ہوئے مال روڈ سے صدر کی طرف مڑتے ہوئے دائیںجانب پوسٹ آفس کی عمارت تھی ایک وسیع وعریض عمارت خان اینڈ سنزوائن شاپ تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی وائن پرپابندی عائد نہیںہوئی تھی۔ اسی جگہ پرمشہور شالیمار ریستوران تھا جہاں شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے یہیں ایک بار اردو کے بے مثل نظم گوشاعر اخترحسین جعفری سے میری طویل ملاقات ہوئی تھی۔اُردو ادب میں اُن کے شعری مجموعے'' ـ آئینہ خانہ‘‘ کی خاص اہمیت ہے ۔
پوسٹ آفس کی عمارت کے بالکل سامنے شیزان ریستوران تھا یہ راولپنڈی کا بہت ہی خوبصورت ریستوران تھا جوکافی کے لیے مشہورتھا مجھے یادہے ایک بار ہم شیزان میںکافی پی رہے تھے معروف مرثیہ خواں مرحوم ناصرجہاں بھی شریکِ محفل تھے وہ جس محفل میں ہوتے اپنی دلچسپ گفتگو سے جانِ محفل بن جاتے قصہ گوئی کوئی اُن سے سیکھے۔ انگریزی شعرا کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی جب میٹا فزیکل شاعر Donne کا ذکر آیا تو کہنے لگے بھئی ہم Donne ) ڈن) کو ڈنی پڑھاکرتے تھے پھرخودہی قہقہہ لگایا اورکہنے لگے یہی فرق ہوتاہے پرائیویٹ اور ریگولر سٹوڈنٹ میں۔ اب نہ وہ شیزان کا شجر رہا اور نہ اس شجر پر بیٹھنے والے پرندے۔ شیزان سے آگے جائیں تودائیں طرف امریکن سینٹر کی وسیع و عریض عمارت تھی جہاں گرمیوں کی دوپہروں میں ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں کتابیں پڑھنے کی سہولت موجود تھی۔ امریکن سینٹر کے بالکل سامنے لنڈن بک کمپنی تھی۔ اب نہ شالیمار ریستوران رہا نہ شیزان کیفے‘ نہ امریکن سینٹر اور نہ ہی لنڈن بُک کمپنی۔ شیزان سے ذرا آگے آئیں تو بائیں طرف ایک نیاریستوران بن رہاتھا جس کانام برلاس تھا اس کی تکمیل پر یہ ہمارا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ سڑھیاں چڑھ کر اُوپروالی منزل پرجائیں تو گلاس وال سے باہرکامنظر‘ چلتے پھرتے لوگ‘ سڑکوں پر بھاگتی آتی جاتی گاڑیاں۔ سب کچھ صاف نظرآتاتھا۔ یہیں پہ اُردو کے صاحبِ طرزشاعرنثار ناسک نے ایک محفل میں اپنا خوبصورت شعر سنایاتھا۔؎
میں سازشوں میں گھرا اک یتیم شہزادہ
یہیں کہیں کوئی خنجر میری تلاش میں ہے
بعد میں اس کی شہرت اس کے تحریر کردہ گیت'' دِل دِل پاکستان‘‘ سے ہوئی جسے جنید جمشید کے وائٹل سائنز نے امر بنا دیا۔اب مجھے بھی راولپنڈی سے جدا ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ایک مدت ہوئی نثار ناسک سے ملاقات نہیں ہوئی کچھ عرصہ پہلے میرے گورڈن کالج کے دنوں کے دوست شکیل انجم (سیکرٹری پریس کلب )نے بتایا کہ نثار ناسک کی صحت اچھی نہیں رہتی خدااسے طویل عمر عطافرمائے۔
برلاس کے نیچے ایک گلی نمامارکیٹ تھی جس میں لیدر کی جیکٹس ملتی تھیں برلاس سے ذراآگے جائیں توہم بینک روڈ کوچھولیتے ہیں یہاں سے بائیں ہاتھ مڑیں تو کونے میں ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان تھی۔اس سے ذرا آگے ڈھاکہ بک سٹال تھا یہ دوبھائیوں کی ملکیت تھا یہاں دکان کے باہرایک لکڑی سے بنے سٹال پررسالے اوراخبار رکھے ہوتے تھے دونوں بھائی ادھیڑ عمرتھے اورآپس میں نوک جھونک کرتے رہتے دونوں بھائیوں کے بال برف کی طرح سفید تھے بڑے بھائی کاموسیقی سے خاص تعلق تھا کبھی کبھی وہ مجھے موسیقی پرلیکچردیتے اب نہ وہ ڈھاکہ بک سٹال رہا اور نہ ہی وہ دوبھائی۔
ڈھاکہ بک سٹال کے برابرمیں راولپنڈی میں سموسوں کی قدیم جگہ کریم ہوٹل تھا۔ اس کے سموسوں کی خاص بات اس کی (Shape) تھی اورحیرت انگیز طورپر یہDryہوتے ۔سموسوں کے ہمراہ گاڑھی برائون رنگ کی چٹنی اورلسی نمارائتہ ہوتا تھا۔ میں نے کئی بار دوستوں کے ہمراہ نیم تاریک کمرے میں ٹوٹی ہوئی کرسیوں پربیٹھ کر یہاں کے سموسے کھائے تھے۔سناہے اب بھی کریم ہوٹل اپنی جگہ قائم ہے مگر سموسوں کی شکل بدل گئی ہے۔ کریم ہوٹل کے پہلومیں ایک تنگ سی گلی تھی جہاں سے نکل کرہم داتا ریستوران پہنچ جاتے یہ ریستوران ابھی نیانیا بناتھا اوربہت جلد شاعروں اور ادیبوںکااڈہ بن گیا۔ مجھے یادہے ایک بار گرمیوں کی چلچلاتی دوپہرمیں معروف شاعراورکالم نگار اجمل نیازی سے سرِراہ ملاقات ہوگئی تھی نیازی صاحب کسی زمانے میں گورڈن کالج میں اُردو پڑھاتے تھے ہم چائے پینے کے لیے داتاریستوران میں آ بیٹھے یہیں چائے پیتے ہوئے انہوںنے اپناشعر سنایاکیا خوب صورت شعر تھا۔؎
منزلوں پر بھی پہنچ کر وہ ابھی تک منزلوں جیسا نہیں
اس کی آنکھوں میں نہیں ہیں راستوں کے منزلوں کی حیرتیں
اب ہم واپس بینک روڈ پرآجاتے ہیں کریم ہوٹل سے آگے جائیں تو بائیں طرف نیشنل بینک کی عمارت تھی اوراس سے متصل سیروز سینما۔ سیروز سینما انگلش فلموں کے لیے جاناجاتاتھا یہاں میں نے دوستوں کے ہمراہ کئی یادرگارفلمیں دیکھیں انہیں میں ایک فلم سمرآف42 (Summer of 42) تھی جو Herman Raucherکے ناول پرمبنی تھی اس کہانی کا تاثر میرے دل ودماغ میں ابھی تک تازہ ہے۔سینما کے بالکل سامنے چاٹ اوردہی بھلوں کی ریڑھی ہوتی تھی۔ سیروز سینما کے بالکل سامنے ایک ریستوران تھا جس کا نامVoguesتھا۔ سیروز سینماکے ساتھ سڑک کے اس پار اوڈین سینماتھا وہاں بھی انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ یہیں پہ میں نے انگریزی کی ہارر فلم (Exorcist)دیکھی تھی بہت سالوں بعدجب مجھے امریکہ کی جارج ٹائون یونیورسٹی جانے کااتفاق ہوا تووہاں وہ جگہ دیکھی جہاں اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ اوڈین سینما کے محل وقوع میں برٹش کونسل لائبریری تھی ایم اے انگلش کے دوران میں اکثریہاں آتاتھا ان دنوں لائبریری کے قریب ہیLansdown لائبریری تھی جہاں آتے جاتے معروف ادیب عزیزملک صاحب سے ملاقات ہوجایاکرتی۔ نیشنل بنک کے سامنے سڑک کے پار نظام واچ ہائوس گھڑیوں کی مشہور دکان تھی۔ بینک روڈ پرذرا آگے جائیں تو کتابوں کی دکان ورائٹی بک سٹال تھی۔ورائٹی بک سٹال کے بالکل سامنے ہمارے دیکھتے دیکھتے گگھڑ پلازہ بن گیا۔ بینک روڈ کے آخری سرے پر میٹروپولیٹین ہوٹل تھا۔
اب ہم بینک روڈ پرواپس مرکزی چوک پرآجاتے ہیں اورچوک کے دوسری طرف بینک روڈ پرچلتے ہیں بالکل کونے میں ہمارے سامنے ہی ایک نئی بیکری کھلی تھی جس کانام Unique Bakeryتھا۔یونیک بیکری کے ساتھ ہی کیسٹوں کی دکان تھی جہاں سے اکثر نئے اورپرانے گیتوں کے Cassettesدستیاب ہوتے تھے۔ ذرا اورآگے بڑھیں تو کامران ہوٹل تھا یہ بھی بیٹھنے کی اچھی جگہ تھی اس سے آگے سپر کیفے تھا جس کامالک' فارغ البال' تھا اورلڑکے بالے فون کرکے اسے تنگ کرتے تھے سپرکیفے اورچیزوں کے علاوہ اپنی ٹوٹی فروٹی آئس کریم کے لیے مشہورتھا۔اس کے سامنے ادریس بک کمپنی ہمارے سامنے شروع ہوئی ادریس کمپنی کے ساتھ کپڑوں کی کچھ دکانیں تھیں اوران دکانوں کے سامنے کون آئس کریم کاایک سٹال تھا۔عید کا چاند دیکھ کر ہم بینک روڈ کا رخ کرتے چاند رات کو تو بینک روڈ پر خوب بھیڑ ہوتی۔ مجھے اب راولپنڈی چھوڑے اور بینک روڈ گئے ایک مدت ہو گئی ہے۔ سنا ہے اب بھی وہاں گرمئی بازار کا وہی عالم ہے کبھی کبھی جی چاہتا ہے دنیا کے ہنگاموں سے ایک دِن چرا کر بینک روڈ جاؤں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل چلتا ہوابیتے ہوے دنوں کو آواز دوں پھر منیر نیازی کا یہ شعر میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتاہے۔؎
واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر
جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا