تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     24-07-2018

’’چوکیدار‘ بازی گر اور سوداگر‘‘

یہ الفاظ کسی کہانی‘ ڈرامہ یا فلم سے نہیں لیے گئے بلکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے خلاف لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر 12 گھنٹے کی بحث کے دوران استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ مودی سرکار کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگرچہ آندھرا پردیش کی پارٹی تیلگو ڈیسام پارٹی (ٹی ڈی پی) نے پیش کی تھی‘ تاہم حکومت کے خلاف سب سے زیادہ تند و تیز الزامات پر مبنی چارج شیٹ کانگرس کے صدر راہول گاندھی کی طرف سے مودی حکومت کے خلاف عائد کی گئی۔ اپنی تقریر میں راہول گاندھی نے مودی حکومت پر فرانس سے رافیل طیارے خریدنے کے منصوبہ میں بدعنوانی کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کو بتانا پڑے گا کہ انہوں نے اس معاہدے میں سے بھارت کی سرکاری فرم 'ہندوستان ایرو ناٹیکل ورکس‘ کو نکال کر اپنے ایک دوست بزنس مین کو کیوں شامل کیا؟ راہول گاندھی نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ مودی 2014ء کے انتخابات کے دوران میں کیے گئے کسی وعدے کو بھی پورا نہیں کر سکے۔ انہوں نے اپنے من پسند صنعتکاروں اور بزنس مینوں کے35000 کروڑ قرضے تو معاف کر دیئے ہیں‘ لیکن بھارت کے بھوکے اور قحط زدہ کسانوں کے قرضے معاف نہیں کئے۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ مودی نے بھارت میں نفاق‘ نفرت‘ عدم برداشت اور تشدد کو فروغ دیا ہے۔ اس طرح وہ بھارت کے عوام خصوصاً اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے کہا کہ نریندر مودی بھارت کے 'چوکیدار‘ نہیں بلکہ 'بازی گر‘ ہیں۔ اپنی جوابی تقریر میں‘ جو کہ ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ وقت تک جاری رہی‘ وزیراعظم نریندر مودی نے کانگرس پر ملک کو نقصان پہنچانے‘ جمہوریت کو کمزور کرنے اور اتحادیوں کے ساتھ متکبرانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں چوکیدار یا بازی گر سہی مگر سوداگر نہیں ہوں۔ نریندر مودی نے سابقہ کانگرسی حکومتوں پر بدعنوانی اور نا اہلی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے برسراقتدار آنے سے قبل بھارت آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا تھا۔ 
عدم اعتماد کی اس تحریک کے انجام سے سب واقف تھے‘ کیونکہ لوک سبھا میں مودی سرکار کو بھاری اکثریت حاصل ہے؛ چنانچہ وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ یعنی تحریک کے حق میں صرف 126 ووٹ پڑے جبکہ اس کے خلاف 325 ارکان نے ووٹ ڈالا۔ ایوان میں حاضر اراکین کی تعداد 451 تھی۔ اگرچہ مودی سرکار کے خلاف یہ تحریک ناکام ہوگی‘ تاہم اس سے بھارت کے آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کی ممکنہ صف بندی اور دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی کانگرس اور بی جے پی کو اپنی طاقت جانچنے کا موقعہ ضرور ملا ہے۔ تحریک کو پیش کرنے والی پارٹی یعنی ٹی ڈی پی نے بحث شروع ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس تحریک سے مودی سرکار کو اقتدار سے ہٹانا ممکن نہیں‘تاہم اس کا اصل مقصد نریندر مودی حکومت کی چالاکیوں‘ وعدہ خلافیوں اور بھارت کی سیاست کو فرقہ پرستی‘ تشدد اور انتہا پسندی کے حوالے کرنے کی سازشوں سے پردہ ہٹانا ہے۔ آندھرا پردیش کی بات کرتے ہوئے لوک سبھا میں ٹی ڈی پی کے رکن جایا گالا نے مودی پر الزام عائد کیا کہ 2014 ء میں آندھرا پردیش سے تلنگانہ علیحدہ کرتے وقت ریاست کو ایک خصوصی آئینی سٹیٹس دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد نہ کر کے مودی نے آندھرا پردیش کے عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ اور اس طرح مرکز اور ریاستوں کے درمیان بد اعتمادی پیدا کر کے نریندر مودی کی حکومت نے بھارت کے وفاقی ڈھانچے کی بنیاد کو کمزور کیا ہے۔ لوک سبھا میں اس بحث کے دوران میں بھارت کی موجودہ اندرونی سیاسی صورتحال اور خارجہ پالیسی بشمول بھارت کے چین‘ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات پر بھی بات ہوئی۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما اور کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ‘ فاروق عبداللہ نے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت کو پاکستان سے بات کرنا پڑے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بحث کے دوران میں حبیب جالب اور علامہ اقبال کے شعر بھی پڑھے گئے۔ 12 گھنٹے کی اس بحث میں حصہ لینے والے اپوزیشن کے تمام ارکان نے مودی حکومت کی اندرونی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور پر حکومت کی سرپرستی میں سرگرم 'گائو رکھشا‘ مہم کے دوران مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے پر حکومت کی مذمت کی گئی۔ بحث میں یہ بھی کہا گیا کہ شک اور افواہوں سے متاثر ہو کر لوگوں کے ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ افراد کو جسمانی تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات پر مودی حکومت کی خاموشی ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اپوزیشن ارکان نے مودی حکومت کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کی دوست اور غریب لوگوں کی دشمن قرار دیا۔ بحث میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ مودی کے غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کے نہ صرف چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں بلکہ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ بھارت سے سرک کر چین کے پہلو میں بیٹھ گئے ہیں؟ اپنی 100 شیٹ کی جوابی تقریر میں وزیراعظم نریندر مودی نے اراکین کے تلخ سوالات کا جواب دینے کی بجائے تمام زور کانگرس کی حالیہ اور سابقہ حکومتوں پر تنقید کرنے پر صرف کیا۔ ان کی تقریر کا خاص ہدف نہرو خاندان تھا‘اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوک سبھا کے اس اجلاس کے بارے میں یہ رائے عام تھی کہ اس میں راہول گاندھی کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے امیدوار کی حیثیت سے متعارف کیا جائے گا۔ ایک ہوشیار سیاستدان کی طرح نریندر مودی نے بھانپ لیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی آڑ میں کانگرس دوبارہ ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور اس لیے بحث کے دوران راہول گاندھی کو مودی حکومت کے خلاف تقریر کرنے کے لیے آگے لایا گیا۔ نریندر مودی نے بھانپ لیا تھا کہ کانگرس دیگر چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینا چاہتی ہے‘ اور لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر بحث اور اس میں راہول گاندھی کی تقریر 2019ء کی انتخابی جنگ کی مشق ہے‘ اس لئے مودی نے اپنی طویل تقریر میں یا تو مختلف شعبوں میں اپنی حکومت کی کامیابیوں کو گنوایا یا پھر کانگرس راج پر دھواں دھار حملے کیے‘ یہاں تک کہ اس نے گاندھی خاندان کو بھی نہ بخشا‘ بلکہ سونیا گاندھی جو مودی کی تقریر کے دوران ایوان میں موجود تھیں‘ ان کا بھی مذاق اڑایا۔ مودی نے اپنی تقریر میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرنے سے احتراز کیا بلکہ جس پارٹی نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی‘ مودی نے اس کی خوشامد کرنے کی کوشش کی۔ مگر مودی کی اس شاطرانہ چال کا ایوان میں بیٹھے ہوئے ٹی ڈی پی کے ارکان پر کوئی اثر نہ ہوا‘ کیونکہ مودی کی تقریر کے بعد جواب دینے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے ٹی ڈی پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے مودی کو ڈرامہ باز قرار دیا اور اپوزیشن کے ارکان کی تالیوں کی گونج میں کہا کہ اگر مودی سیاست کی بجائے بالی ووڈ میں اداکاری کرتے تو سب سے بڑے ایکٹر ثابت ہوتے۔ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ آنے کے بعد تین ماہرین نے لوک سبھا کے اس اجلاس کی کارروائی پر تبصرہ کیا ‘ان کی رائے میں یہ بحث نہایت پھیکی بلکہ بے مقصد معلوم ہو رہی تھی۔ جن لوگوں نے اس بحث کو دیکھا انہیں اس کے انتہائی پست معیار سے یقیناً مایوسی ہو گی۔ بہر حال یہ تحریک مودی کو اقتدار سے الگ کرنے کیلئے نہیں تھی‘ کیونکہ نمبرز گیم میں حکومت کا پلڑا بھاری ہے‘ تاہم کانگرس اور بی جے پی نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے پورا پورا زور لگایا‘ کیونکہ ان کا بڑا مقصد اس اجلاس میں بحث کے ذریعے 2019 ء کے پارلیمانی انتخابات کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا پیش کرنا تھا۔ اب ان میں سے کون بھارت کے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب رہا‘ اس کا جواب تو 2019 ء کے انتخابی نتائج ہی دیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved