تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-04-2013

دل ہے کہ بُجھ گیا ہے

سیاست اہم ہے ۔ بہت ہی اہم ۔ معاشرہ مگر کارِ سیاست سے سُدھر نہیں سکتا ۔ اسے ایک ہمہ گیر اخلاقی تحریک کی ضرورت ہے۔۔مگر افسوس کسی کو اس کی پروا نہیں۔۔۔ کبھی ان پر حیرت ہوا کرتی جو اکتاہٹ کا مظاہرہ کرتے۔ ایک آدھ دن تو خیر لیکن اب بہت دنوں سے خود اپنا حال یہ ہے کہ چند سطریں گھسیٹنا مشکل ہے۔ اب معلوم ہوا کہ سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے ، سبھی کے ساتھ ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا ، ہندوستان میں فارسی کے آخری بڑے شاعر مولانا عبدالقادر گرامی کے نام ایک خط میں اقبال نے لکھا تھا : طبیعت میں انقباض کی کیفیت ہے، سیدہ فاطمۃ الزہرا یا سیدہ عائشہ صدیقہ کا کوئی واقعہ لکھ بھیجئے شاید انشراحِ صدر ہو۔ آخری برسوں میں، عہدِ جاہلیت کے عرب شعراء کی سی زندگی کرنے والے صاحبِ ایمان منیر نیازی سے کسی نے کہا : تین برس سے آپ نے کچھ نہیں لکھا ۔ جواب ملا : غالب کو تازہ غزل کہے ڈیڑھ سو برس بیت چکے۔ شاعر کی بات دوسری ہے۔ اخبار نویس کو ہر روز کنواں کھودنا ہوتا ہے۔ جس دن کاغذ کالے نہ کرے، ذہن پر بوجھ سا رہتا ہے۔ پھر پڑھنے و الوں کا ایک حلقہ ہے، جو خاندان کی طرح ہوگیا۔ ایک ناغہ کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ کیا کیجیے، کیا نہ کیجیے۔ کورے کاغذ کی سپیدی پہ ترس آتا ہے نامۂ شوق میں لکھنے کو رہا کچھ بھی نہیں امام غزالی کا قصہ عجیب ہے۔ علم کی ہیبت ایسی کہ راہ چلتے تو دو تین سو شاگرد ہم رکاب ہوتے۔ کوئی میدان نہ تھا جہاں حریفوں کو پچھاڑ نہ دیا ہو۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک خیال نابغہ کے ذہن پر سوار ہوا اور اس طرح سوار کہ اعصاب ٹوٹنے لگے۔ وہ سوال یہ تھا : ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آدمی جس خاندان اور ماحول میں پیدا ہو، عمر بھر اس سے اخذ کردہ عقائد کا اسیر رہتا ہے۔ فکر مندی نے غلبہ کیا اور ایسا کیا کہ زبان بند ہوگئی ۔ تب وہ فیصلہ انہوں نے کیا ، جو غزالی ہی کر سکتے تھے۔ عمر بھر کی پونجی خاندان کے حوالے کی اور بغداد کو خیر باد کہہ کر کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ گئے تو پانچ ہزار دینار کا جبہ زیب تن تھا اور بہترین گھوڑے پر سوار۔ دس برس کے بعد لوٹ کر آئے تو پانچ درہم کی قمیض پہنے ہوئے اور خچر پر آسودہ ۔ اب دنیا نے ایک بالکل دوسرے غزالی کو دیکھا ۔ وہ آدمی جسے الپ ارسلان کے جانشین ملک شاہ نے لجاجت کے ساتھ ، مدرسہ نظامیہ سنبھالنے کی پیشکش کی تو انکار کر دیا ۔ اس خط کے جواب میں۔ اس جیسا عریضہ کبھی کسی سلطان نے کسی سکالر کو لکھا نہ ہوگا، انہوں نے کہا : منصب کا مطالبہ یہ ہے کہ دربار میں حاضری دینا ہوگی۔ اب میرے لیے یہ ناممکن ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں بغداد چلا آیا تو طوس کے غریب بچوں کو کون پڑھائے گا ؟ پھر تصنیف و تالیف کا انہوں نے آغاز کیا اور وہ لکھا جو ہمیشہ باقی رہے گا۔ وہ جس کی بنا پر، زندگی ہی میں انہیں امام کہا گیا اور ہمیشہ کہا جاتا رہے گا ۔ غزالی کا احساس یہ تھا کہ قرآن کریم اور سیرت رسول سے مسلمانوں کا تعلق سطحی ہوچکا ۔ برسوں کے غورو فکر کا حاصل یہ کہ سب سے اہم چیز خلوص ہے۔ سچائی اگر ترجیح اول نہیں تو تمام علم لاحاصل۔ یونانی فلسفے کا اثر پھیلتا جارہا تھا اور ایسے لوگ مسلمانوں میں فروغ پزیر تھے جو عقل عام کی بنیاد پر قرآن پاک کی تشریح کرتے۔ غالباً ابن رشد تھے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ عادو ثمود کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو بولے: مجھے اس پر بھی شبہ ہے کہ اس نام کی اقوام کرۂ خاک پر کبھی موجود بھی تھیں کہ نہیں ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا : بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اس کے بعد کا ، پھر اس کے بعد کا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اوّلین نصف صدی کے بعد مستثنیات کے سوا قرآن کریم سے مسلمانوں کا تعلق واجبی رہ گیا ۔ تقلید کو انہوں نے اختیار کیا اور غورو فکر سے وہ دستبردار ہوگئے۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلمان سائنسدان اس آیت پر غور کرتے ـ \"ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا \" ۔ کبھی اللہ کے اس فرمان پر سوچ بچار کی زحمت کی ہوتی: اوّل یہ ساری کائنات ایک ہی تھی پھر ہم نے پھاڑ کر اسے پھیلا دیا ۔ کبھی تو کسی نے اس آیت پر پڑائو ڈالا ہوتا : ستاروں کے مقامات کی قسم اور اگر تم سمجھ سکو تو یہ ایک بڑی قسم ہے ؎ یہ امّت روایات میں کھو گئی حقیقت خرافات میں کھو گئی صرف ملوکیت ہی نہیں، حادثہ صر ف ملوکیت ہی نہیں تھی بلکہ فرقہ پرستی اور تقلید ۔ سچائی اور عصری تقاضوں کا سامنا کرنے سے انکار۔ ایک سوال اس ادنیٰ طالب علم کے ذہن سے چمٹ گیا ہے اور اس طرح کہ ایک پل کو جدا نہیں ہوتا ۔ سترہ برس، کامل سترہ برس تک پوری یکسوئی سے میں نے کپتان کی حمایت کی ۔ خدا کا شکر ہے کہ اپنے بارے میں یہ گمان کبھی نہ ہوا کہ میں ایک دانا آدمی ہوں ۔ ہزار خامیاں ہیں مگر اللہ کا کرم رہا کہ اپنے جہل کا احساس ہمیشہ زندہ رہا ۔ اب بھی کوئی التباس مجھے نہیں۔ بے حیا تاجروں اور شعبدہ بازوں کے مقابلے میں اب بھی وہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ قابل اعتبار، بہادر اور سچا بھی۔ اظہار تو زیادہ نہیں کرتا لیکن دردمند ہے۔ مفلس اور محتاج کی مدد کرنے کا جذبہ اس میں بہت ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاکار نہیں ۔ رائے ونڈ والوں کی طرح اس نے گیارہ بنکوں کے اربوں روپے نہیں دبا رکھے۔ اس کے باوجود دل ہے کہ بُجھ گیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ تحریکِ انصاف کے لیے جس خیرہ کن کامیابی کی امید مجھے تھی، اس میں کمی آئی ہے۔ فیصلے کا وقت ابھی نہیں آیا ۔ صورت حال اپریل کے آخر تک واضح ہوگی۔ تاجروں کی حمایت کے لیے امریکہ بہادر، مالدار طبقات اور میڈیا کے باوجود کپتان کسی وقت بھی کرشمہ دکھا سکتا ہے۔ بازی وہ پلٹ سکتا ہے کہ لاکھوں سچے اور کھرے نوجوان اس کے ساتھ ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی جیت سکتا ہے۔ فرض کیجیے ہار جائے تو ایسا اپوزیشن لیڈر ہوگا کہ وزیراعظم کی ٹانگیں کانپتی رہیں گی۔ چھیا سٹھ سال کی عمر میں نواز شریف کی عادات بدل نہیں سکتیں ۔ دولت اس شخص کی اوّلین ترجیح ہے۔ من مانی کا وہ عادی ہے اور قانون کا وہ قائل نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ وہ چھ ماہ اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکے گا ۔ حالات اب بہت مختلف ہیں ؎ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے شریف برادرن جیت بھی گئے تو بادشاہت نہ فرما سکیں گے۔ اوّل تو اس آزاد میڈیا اور عدالت کے ساتھ وہ بسر ہی نہیں کر سکتے۔ ثانیاً امریکہ اور عربوں کی ترجیحات ملحوظ رکھ کر خاک وہ کارکردگی دکھائیں گے۔ خود کو وہ بدل ڈٖالیں تو دوسری بات ہے وگرنہ رسوائی ان کا مقدر ہے، آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں ۔ میرا دکھ یہ ہے کہ میں نے تحریکِ انصاف میں ٹکٹوں کے بٹنے کا منظر قریب سے دیکھا ہے۔ خوشامدیوں اور ریاکاروں کے جمگھٹے دیکھے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہترین کی مخالفت اور ادنیٰ کی ستائش کی جاتی ہے۔ کپتان پُرعزم ہے کہ کسی غلط کار کو ٹکٹ مل بھی گیا تو منسوخ کر دیا جائے گا ۔ کچھ اس نے کر بھی دیے۔ خاندان نے اسے زخم لگایا مگر وہ ڈٹ کر کھڑا رہا ۔ پارلیمانی پارٹی کے ارکان زیادہ تر معقول اور دیانتدار لوگ ہیں مگر انہی معقول لوگوں نے صداقت عباسی کو ٹکٹ دیا ۔ اگر کپتان کی پارٹی کا حال یہ ہے تو کاروباری سیاست کرنے والوں کا کیا ہوگا ؟ سیاست اہم ہے ۔ بہت ہی اہم ۔ معاشرہ مگر کارِسیاست سے سُدھر نہیں سکتا ۔ اسے ایک ہمہ گیر اخلاقی تحریک کی ضرورت ہے۔۔مگر افسوس کسی کو اس کی پروا نہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved