اتوار کی سہ پہر دانشورانِ شہر کی اس محفل میں بشپ لاہور الیگزینڈر جان ملک نے بہت بنیادی بات کہہ دی، وہ جو پنجابی میں کہا جاتا ہے، ''سوگلاّں دی اِکّو گل‘‘۔ اس مجلسِ مذاکرہ کا اہتمام ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان نے کیا تھا۔ جناب ایس ایم ظفر اس سوسائٹی کے بانی ہیں، بد ترین حالات اور نہایت جذباتی معاملات میں بھی جو احتیاط اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے دنوں میں وہ اپنے انداز میں انسانی حقوق کے کاز کو آگے بڑھاتے رہے۔ ہیومن رائٹس کے لیے سرگرم جدوجہد کرنے (اور فوجی و غیر فوجی آمریتوں میں اس کا ''خمیازہ‘‘ بھی بھگتنے) والوں کے لیے ہیومن رائٹس سوسائٹی کی جانب سے ایوارڈز کا اعلان اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ تقسیمِ ایوارڈ کی تقریب ''کتھارسس‘‘ کا ذریعہ بھی بن جاتی۔ ان ایوارڈ یافتگان میں سے کچھ نام یاد آ رہے ہیں، نواب زادہ نصراللہ خان، عبدالولی خان، ایئر مارشل اصغر خان، افراسیاب خان حٹک، رسول بخش پلیجو، معراج محمد خان، جسٹس افضل ظلہ، جسٹس اجمل میاں اور ہمارے قلم قبیلے کے نثار عثمانی اور وارث میر۔ ہماری بھابی مہناز رفیع اور سوشل ورکر ایم اے شکوری بھی سوسائٹی سے وابستہ چلے آ رہے ہیں۔ ظفر صاحب آج بھی ذہنی طور پر اُسی طرح تروتازہ اور آواز میں بھی وہی کھنک اور توانائی رکھتے ہیں، لیکن قویٰ مضمحل ہو چکے‘ جس کے باعث تقریبات میں شرکت آسان نہیں رہی؛ چنانچہ ہیومن رائٹس سوسائٹی کی صدارت عاصم ظفر کو سونپ چکے۔ باپ کی پیشہ ورانہ میراث علی ظفرکے حصے میں آئی۔ باپ کی طرح وہ بھی اعتدال اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان دنوں جسٹس (ر) ناصرالملک کی نگران وفاقی کابینہ میں قانون اور اطلاعات و نشریات سمیت متعدد وزارتوں کے قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس سوسائٹی کی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی بھی وہی تھے۔ موضوع تھا، ''الیکشن 2018ء کے بعد چیلنج اور مواقع‘‘ زوال پذیر قومی معیشت کی بحالی کو انہوں نے الیکشن کے بعد کا سب سے بڑا چیلنج اور ''مواقع‘‘ میں سی پیک کو اہم ترین قرار دیا۔
بشپ الیگزینڈر جان ملک کا کہنا تھا: ابھی تو 25 جولائی کے عام انتخابات کی کریڈیبلٹی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی بیشتر سیاسی جماعتیں ان کی شفافیت پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ اب ایک دنیا کی نظریں الیکشن ڈے پر ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے نتائج کو مسترد کر دیا (جس کے لیے ان کے پاس پہلے ہی خاصا مواد موجود ہے) تو ملک ایک سنگین بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ ''معلق پارلیمنٹ‘‘ سے پیدا ہونے والے مسائل اپنی جگہ، لیکن انتخابی نتائج کی قبولیت اولین (اور سب سے بڑا) چیلنج ہو گا۔ چکری والے چودھری صاحب نے بھی اسی شب ایک ٹی وی انٹرویو میں یہی بات کہی۔ انہیں بھی انتخابات کے بعد ایک گمبھیر صورتحال نظر آرہی تھی۔ وہ کسی انٹرنیشنل گیم پلان کا ذکرکر رہے تھے، پاکستان کو بند گلی میں دھکیلنے اور اسے کٹ ٹو سائز کرنے کا پلان... (چودھری صاحب نے اس انٹرویو میں بھی اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر1421 کی ملامت ضروری سمجھی۔ فرمایا، میری 30 سال سے زائد وفاداری کے صلے میں اس نے مجھ سے بے وفائی نہیں، دشمنی کی۔ چودھری صاحب کی کوئی تقریر، اخبار نویسوں سے کوئی گفتگو نواز شریف پر تند و تلخ تنقید کے بغیر نہیں ہوتی۔ ادھر دوسری طرف معاملہ یہ کہ کسی نے چودھری صاحب کے بیان پر تبصرے کے لیے کہا، تو میاں صاحب طرح دے گئے۔ ایک بار اتنی سی بات کہی: ان دنوں بہت اہم معاملات درپیش ہیں، کبھی فرصت میں بات کروں گا۔ شاید میاں صاحب کے اس رویے کو چودھری صاحب دشمنی پر محمول کر رہے ہیں۔ جہاں تک ٹکٹ کا معاملہ تھا، چودھری صاحب خود صبح شام یہی بات کہتے کہ وہ ٹکٹ کے امیدوار ہیں، نہ اس کے محتاج... تو پھر گلہ کس بات کا؟ پارٹی نے ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اس پر بھی انا پرست چودھری صاحب کا کہنا تھا: میں نے اس کے لیے خواہش کی، نہ مجھے اس کی ضرورت تھی۔ چودھری صاحب کا اصل دکھ شاید نظر انداز کئے جانے کا ہے کہ میاں صاحب ان کی کسی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے، یوں وہ ان کی سطح پر کیوں نہیں آتے یا انہیں اپنی سطح پر کیوں نہیں لاتے؟ شاید یہی کرب ہے جو چودھری صاحب کو کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ نظر انداز کئے جانے کا دکھ معمولی نہیں ہوتا اور چودھری صاحب کو آج کل غالباً اسی دکھ کا سامنا ہے۔دوسری جانب خان صاحب کے ساتھ عجب معاملہ ہوا۔ اُدھر انتخابات قریب آنے لگے‘ اِدھر خان کے جلسوں کی رونق ماند پڑنے لگی۔ ہمارے دوست سعود عثمانی کے دل کی مانند۔
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
اس بے فیضی اور بے برکتی کا آغاز تحریکِ انصاف کے (تاحال) ترجمان فواد چودھری صاحب کے ''آبائی حلقے‘‘ جہلم سے ہوا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ خان صاحب سٹیج پر تھے اور سامنے خالی کرسیاں، قطار اندر قطار۔ جھنگ، فیصل آباد اور لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ کے مناظر بھی مختلف نہ تھے۔ یہاں تک کہ اندر کا خوف خان کی زبان پر آ گیا، ''الیکشن کے متعلق اچھی خبریں نہیں آ رہیں‘‘۔ایک اور موقع پر پارٹی کے باغی امیدواروں کو تنبیہ کی، الیکٹ ایبلز کو پارٹی ٹکٹوں کے اجرا پر، جو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں کود پڑے ہیں کہ ان کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم، پارٹی کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ تازہ ترین ارشاد تھا، معلق پارلیمنٹ قوم کی بد قسمتی ہو گی۔ کہنے والے اسے معلق پارلیمنٹ کے منصوبہ سازوں کے لیے Message بھی قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی پنڈت، نواز شریف اور مریم کی واپسی اور اڈیالہ جیل میں ان کی اسیری کو، خان کے جلسوں کی اس بے رونقی کا اہم سبب قرار دیتے ہیں۔
نوجوان سندھی قوم پرست راہنما ایاز پلیجو، پیر پگاڑا والے جی ڈی اے کا حصہ ہیں۔ مشاہد حسین‘ ایاز کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کے حوالے سے بتلا رہے تھے کہ شخصی طور پر نواز شریف اس وقت سندھ میں سب سے مقبول ہیں۔ مظلوم سے ہمدردی اور بہادر کے لیے پسندیدگی انسانی فطرت کا خاصہ ہے‘ اور سندھیوں کو قدرت نے اس وصف سے فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ کراچی کے ایک دانشور دوست سے فون پر بات ہو رہی تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کی اہلیہ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ان کا ووٹ اس بار نون لیگ کے لیے ہو گا کہ وہ اسے ناانصافی کے خلاف احتجاج کا اظہار سمجھتی ہیں۔ مریم کی جرأت اور بہادری نے عام گھریلو خواتین میں بطورِ خاص اس کے لیے ہمدردی کی لہر اٹھا دی ہے۔
کیا فرزندِ لال حویلی کو راولپنڈی میں اپنی شکست کی چاپ سنائی دے رہی ہے؟ پنڈی کی سیاست سے آشنا ہمارے ایک دوست کا جواب تھا: چاپ کا کیا مطلب؟ وہ تو بال کھولے چیختی چلاتی آ رہی ہے۔ راولپنڈی والے شیخ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو انہوں نے 2002ء اور 2008ء میں کیا تھا۔ 2002ء میں شیخ نے لاہور کے بزرگ ایڈیٹر کے ذریعے ٹکٹ کی فرمائش کروائی‘ جن کی حیثیت شریف فیملی میں خاندان کے بزرگ کی سی تھی۔ جدہ میں جلا وطن میاں صاحب شاید آمادہ ہو جاتے‘ لیکن پنڈی کا ورکر اور ووٹر، ان الفاظ کو بھولنے پر تیار نہ تھا جو شیخ نے ڈکٹیٹر کے خلاف برسرِ پیکار بیگم کلثوم نواز کی پنڈی آمد پر کہے تھے۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ سے محروم شیخ نے نئی چال چلی، انتخابی جلسوں میں قسم اٹھا کر وہ اعلان کرتا کہ دونوں سیٹیں جیت کر نواز شریف کے قدموں میں ڈال دے گا‘ لیکن الیکشن جیت کر وہ مشرف کا درباری ہو گیا۔ اپنی خالی کردہ ایک نشست پر اس نے اپنے بھتیجے کو امیدوار بنایا اور شہر والوں نے شیخ کی بے وفائی کا حساب حنیف عباسی کے ہاتھوں اس کے بھتیجے کی بد ترین شکست کی صورت میں چکا دیا۔ 2008ء میں پنڈی کی ایک نشست پر وہ جاوید ہاشمی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔ دوسری پر حنیف عباسی نے اس کی ضمانت ضبط کرا دی۔ بعد میں حلقہ 55 کے ضمنی انتخاب میں نواز شریف کے کارکن شکیل اعوان نے اسے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ شہباز شریف کے اس دعوے میں مبالغہ سہی کہ حلقہ 60 میں حنیف عباسی، شیخ کو 70 ہزار ووٹوں سے شکست دیتا‘ لیکن اس سے انکار نہیں کہ عباسی کے ہاتھوں شیخ کو تگڑی شکست ہوتی۔ حلقہ 62 میں چودھری دانیال تنویر، شیخ کے ساتھ شاید وہی سلوک کرے جو جاپانی پہلوان انوکی نے لاہور میں ہمارے اکیّ کے ساتھ کیا تھا۔