تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     26-07-2018

تبدیلی آ گئی

پوری قوم ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ پولرائزڈ اور ایسے جارحانہ انتخابی عمل سے گزری‘ جس میں سیاسی قوتوں کے درمیان تناؤ اپنی انتہاؤں کو چھوتا رہا؛ اگرچہ ہمارے پالیسی ساز مملکت کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا مینڈیٹ حاصل کر چکے ہیں‘ لیکن اس تھکا دینے والی کشمکش کے فیصلہ کن مراحل انتخابات کے بعد اب سامنے آئیں گے۔ ہمارا سماج اس وقت جن پیچیدہ مراحل سے گزر رہا ہے‘ اس میں بیرونی قوتوں سے نہیں بلکہ ہم اپنے داخلی تضادات سے نجات پانے کی تگ و دو میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ہماری اجتماعی بے ثباتی کے باعث معاشرے میں پچھلے ستر سالوں میں بتدریج جمہوری آزادیوں کا دائرہ تنگ اور مذہبی و سیاسی تشدد کے رجحانات کو وسعت ملی۔ اسی دو طرفہ دبائو نے بنیادی حقوق کی بحالی اور سماجی وظائف کی بجا آوری کو مشکل بنا کے ماحول میں گھٹن بڑھا دی۔ یہاں کی ہردلعزیز آمریتیں بھی سماج کو مذہبی عقائد کی آزادی‘ تہذیب و ثقافت کے فروغ اور معاشی خوشحالی کی منزل تک پہنچانے میں ناکام رہیں۔ بد قسمتی سے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہر آمریت ایک ایسی ہولناک جنگ پہ ختم ہوئی اور ہر بار ہمیں عمیق سیاسی و معاشی مشکلات کے دلدل میں اتار گئی۔
آمریتوں کے بحران بڑھنے پہ لوگوں نے سیاسی قیادت کی ساری کوتاہیوں کو بھلا کے جمہور کی بالا دستی کو نصب العین بنا لیا۔ بے شک‘ جمہوریت بجائے خود منزل نہیں لیکن آزادی کی منزل تک پہنچنے کا وسیلہ ضرور سمجھی جاتی ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ آزادی کوئی سیاسی چیز نہیں بلکہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو معاشرے کے اجتماعی اور انفرادی رویوں میں پروان چڑھتی ہے۔ فوجی آمریتیں اگر چاہتیں تو سماجی آزادیوں اور معاشی خوشحالی کو ممکن بنا کے معاشرتی ارتقا کے عمل کو استوار رکھ سکتی تھیں‘ مگر افسوس کہ ہر آمریت بنیادی آزادیوں اور اقتصادی مواقع کو محدود کر کے جوابی جدلیات کو پروان چڑھانے کے اسباب مہیا کرتی رہی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تسلیم و رضا کے خُوگر اس معاشرے میں ہماری آزادی کوئی طاقتور نہیں چھین رہا بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل اس کا ذمہ دار ہے۔ اگر ہم برصغیر کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو یہاں طویل عرصہ تک مسلم اقلیت نے نہایت سکون کے ساتھ حکومتیں کیں‘ ہزاروں میل دور سے آئے چند ہزار انگریزوں نے بھی ڈیڑھ سو سال تک انڈیا پہ کامیاب حکمرانی کے جھنڈے لہرائے اور ہندوستان کی عظیم اکثریت نے کامل اطاعت اور غیر مشروط وفاداری دے کر ان مسلم و عیسائی فاتحین کے اقتدار کو دوام بخشا۔ لیکن انگریز‘ جس نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی‘ اس حقیقت سے واقف تھا کہ آمریت اپنی مہیب تاریکی سے زندگی کو ایک خاموش دور میں بدل دیتی ہے‘ اور اس کے برعکس جمہوریت میں انتخابی کشمکش امیدوں کو گرما کے انسان کی تمام قوتوں کو تحریک دیتی ہے؛ چنانچہ انگریزوں نے یہاں ویسٹرن ڈیموکریسی متعارف کرا کے ایک تو اکثریت پہ اقلیت کی حکومت کے فلسفہ کو دفن کر کے ہندو اکثریت کے حق حکمرانی کو مستحکم کر دیا (یہی خوف قیام پاکستان کا سبب بھی بنا) دوسرا اس جمود پرور معاشروں کو انتخابی جدلیات کے سپرد کر کے ایسا ارتعاشِ مسلسل پیدا کیا جس میں غیر مشروط جمہوریت کے بغیر توازن پیدا کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ آج بھی اس مضمحل معاشرے میں انتخابات کا ناقوس بجتے ہی بنیادی حقوق کے حصول کی کشمکش تند و تیز ہو جاتی ہے‘ شومئی قسمت کہ ماضی میں ایسے مواقع پہ ہمارا اجتماعی رد عمل ایک مایوس کن تقسیم پہ منتج ہوتا رہا؛ البتہ اس ناشائستہ جدلیات کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ اس بار چاروں صوبوں کی جمہوری قوتیں ایک با معنی کوارڈنیشن کے ذریعے قومی سلامتی کے تحفظ پر متفق نظر آتی ہیں‘ اگرچہ عوامی حمایت کے حامل سیاستدانوں کے مابین جمہوری عمل میں تسلسل اور آئین کی بالا دستی پہ وسیع تر اتفاق رائے تو میثاقِ جمہوریت پہ دستخطوں کے بعد سے ہی پایا جاتا تھا‘ لیکن28 جولائی2017ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی برطرفی کے بعد تیزی سے بدلتے حالات میں سویلین بالا دستی کے تصور پر یقین رکھنے والے سیاستدانوں‘ مذہبی جماعتوں‘ وکلا اور دانشوروں نے غیر مرئی طریقوں سے باہمی روابط کو استوار رکھ کے ایک طرف طاقتور حلقوں کے دباؤ کو برداشت کیا‘ دوسری طرف ذہنی لچک پر مبنی محتاط مزاحمت کے وسیلے سے ایک مخصوص جماعت کی جارحانہ پیش قدمی کو بھی روک لیا۔ سیاسی قوتوں کے باہمی تعاون اور غیر علانیہ حکمت عملی کے اصل اثرات الیکشن نتائج کے بعد اب واضح ہوں گے۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ حلقے جن پہ انتخابی عمل سے من مانے نتائج حاصل کرکے ایک مخصوص جماعت کو برسر اقتدار لانے کا الزام لگایا گیا‘ وہ اپنی سٹریٹیجی بدل کے سیاسی مزاحمت کے پُرجوش دھارے کا رخ پھیر دیں۔ اگر ایسا ہوا تو بگڑتے ملکی معاملات تیزی سے سدھرنا شروع ہو جائیں گے بصورت دیگر سیاسی قوتوں کی مزاحمت کسی ایسے بحران پہ منتج ہو گی‘ جس میں مملکت کے سیاسی نظام اور تقسیم اختیارات کا مروجہ فارمولا بُری طرح متاثر ہو گا۔ ایسی کوئی بھی اچانک تبدیلی موجودہ سیاسی کشمکش سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔ بہتر یہی ہو گا کہ کسی وسیع تر قومی مفاہمت کے ذریعے قدرے محتاط اور مربوط انداز میں تقسیم اختیارات کے فارمولے کو بتدریج آئینی نظام کے تابع لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اچانک اور بڑے پیمانے پر پاور شفٹ بجائے خود سیاست دانوں اور اس کمزور سیاسی ڈھانچے کے لئے آزمائش کا سبب بن سکتی ہے۔
انیس سو اکہتر میں حالات کے جبر کے تحت جب پاور شفٹ ہوئی تو مسٹر بھٹو نے کمپلیٹ‘ ٹوٹل اور فل اختیارات کو سسٹم میں جذب کرنے کی بجائے اپنی ذات میں مرتکز کر لیا‘ جس کے خلاف پھر ایک جوابی رد عمل اٹھا‘ جس نے ایسے عدم توازن کو جنم دیا جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کا شکوہِ اقتدار تو زمیں بوس ہوا ہی لیکن پاور بھی ایک بار پھر مقتدرہ کی طرف منتقل ہو گئی۔ مسٹر زیڈ اے بھٹو اگر طاقت کا ارتکاز اپنی ذات میں کرنے کی بجائے سویلین سسٹم کو مضبوط کرتے تو وہ خود گرتے نہ پاور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو شفٹ ہوتی۔ اب بھی جس تیزی کے ساتھ حالات بدل رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا کہ جمہوری قوتیں بہت جلد اپنے کھوئے ہوئے اختیارات واپس لے لیں گی؛ تاہم اگر پھر ان آئینی اختیارات کو سسٹم میں جذب کرنے کی بجائے کسی مقبول لیڈر میں مرتکز کیا گیا تو صورت واقعہ میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔ بائیس جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان کی قدیم ترین تحصیل کلاچی شہر میں نوری دربار کے قریب خود کش حملے میں پی کے 99 سے پی ٹی آئی کے امیدوار سردار اکرام اللہ خان گنڈہ پور شہید ہو گئے۔ اس بد قسمت خاندان پر یہ دوسرا خود کش حملہ تھا‘ جس میں اکرام اللہ خان سمیت دو افراد زندگی گنوا بیٹھے۔ اس سے قبل اکتوبر 2014ء میں سردار اکرام اللہ کے چھوٹے بھائی اسرار اللہ گنڈہ پور‘ جو پی ٹی آئی حکومت میں صوبائی وزیر قانون تھے‘ پہ عیدالاضحی کے پہلے دن اُس وقت خود کش حملہ ہوا تھا جب وہ اپنے ڈیرے پہ بیٹھے اہلِ علاقہ سے عید مل رہے تھے۔ اس ناگہانی حملے میں اسرار خان سمیت سات افراد شہید اور بیس زخمی ہو گئے تھے۔ اب ایک بار پھر کلاچی کے اسی مشہور خاندان کے چشم و چراغ کو نشانہ بنایا گیا۔
ہمارے دوست سردار اکرام اللہ خان گنڈہ پور پابندِ صوم و صلوٰۃ اور نہایت نفیس شخص تھے۔ خوبصورت حسِ مزاح کے حامل اکرام خان ہر وقت مسکراتے ملتے۔ اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود ان میں بے ریا انکساری‘ بے پناہ تحمّل اور دل آویز ذہنی لچک پائی جاتی تھی۔ وہ اس خطے کی قدیم روایات کا حسین امتزاج اور گنڈہ پور برادری کی توانا آواز تھے۔ مقامی سیاست میں ان کا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ حق مغفرت کرے‘ عجب آزاد مرد تھا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved