تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     26-07-2018

نئی حکومت کے کرنے کا پہلا کام

نئی حکومت کو حلف اٹھاتے ہی نوجوانوں کا قرض لوٹانا ہے ‘ ان نوجوانوں کا جو اس ملک کی آبادی کاچونسٹھ فیصدہیں۔
جی ہاں‘ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ نوجوان آبادی والا ملک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی چونسٹھ فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم آبادی بائیس کروڑ فرض کر لیں تو اس میں تیس برس سے کم عمر کے حامل نوجوانوں کی تعداد تقریباً چودہ کروڑ بنتی ہے۔ان چونسٹھ فیصد نوجوانوں میں سے تیس فیصد کی عمر پندرہ سے تیس برس کے درمیان ہے۔ جو چار کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے۔ جبکہ بقایا ستر فیصد بچے نو کروڑ اسی لاکھ ہیں جن کی عمریں ایک سے چودہ برس کے درمیان ہیں۔ یہ اعداد و شمار آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ ان سے اخذ کئے جانے والے حقائق پر غور کیا جائے توپتہ چلتا ہے پاکستان کس قدر سنہری ٹیلنٹ سے مالا مال ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں کے نو کروڑ اسی لاکھ بچے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں آنکھ کھول رہے ہیں جبکہ چار کروڑ بیس لاکھ تعلیم مکمل کرنے کے قریب ہیں یا پھر تعلیم مکمل کر چکے ہیں لیکن صرف چند فیصد ہی بہتر روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ملک میں ہر سال پانچ لاکھ طلبا گریجوایشن مکمل کرتے ہیں ۔ان میں سے صرف پچاس ہزار کو نوکری ملتی ہے۔ باقی اِدھر اُدھر جوتے چٹخاتے رہتے ہیں۔ چند ایک بیرون ملک جا کر مشقتی نوکری شروع کر دیتے ہیں ‘ کچھ کاروبار شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سرمایہ نہ ہونے کے باعث جلد ہی تھک کر ہار مان لیتے ہیں چنانچہ یہ بھی بیروزگاروں کی اس فوج میں شامل ہو جاتے ہیں جو ہر سال پانچ لاکھ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب مہنگائی ہے جس نے نچلے اور اوسط طبقے کی کمر پہلے ہی توڑ رکھی ہے۔ رہی سہی کسر ڈالر کی اڑان نے نکال دی ہے۔ جس کے بینک میں چند ماہ قبل تیرہ لاکھ روپے پڑے تھے وہ ڈالر کی اڑان کے باعث کم ہو کر دس لاکھ رہ گئے ہیں۔ سرکاری اور چند ایک نجی اداروں کے علاوہ کہیں تنخواہیں بڑھنے کا رواج ہی موجود نہیں۔ پندرہ بیس سال قبل تک کا دور مختلف تھا۔ اس وقت ایک سربراہ کماتا تھا اور دس بیٹھ کر کھاتے تھے۔ اب وہ دور نہیں رہا۔ اب گھر میں چار چار افراد نوکریاں کرتے ہیں تب جا کر بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ کسی کی تنخواہ سے بجلی کا بل جاتا ہے تو کسی سے کچن کا خرچ چلتا ہے۔تنخواہوں کی شرح بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ پانچ سال قبل جو بندہ چالیس ہزار میں رکھا جاتا تھا‘ اب پندرہ ہزار میں مل جا تاہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں نوکریاں کہاں سے آئیں گی۔ ایک حل یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر صنعتیں اور کارخانے لگائے جائیں اور زیادہ چیزیں مقامی سطح پر تیار کر کے برآمد کی جائیں۔ ایسا کرنے سے قبل ہمیں اپنے دائیں بائیں دیکھنا ہو گا۔ ایک طرف بھارت اور دوسری جانب چین ہے۔ چین حقیقی معنوں میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔یہ سوئی سے لے کر خلائی شٹل تک ہر پرزہ بنا رہا ہے۔ چین میں لوڈشیڈنگ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ وہاں جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کے مسائل بھی نہیں۔ ہر شخص کام کر رہا ہے اور ہر محلے میں چھوٹے چھوٹے کارخانے لگے ہیں۔ پروڈکشن اس قدر زیادہ ہے کہ امریکہ سمیت تمام جدید ممالک آہستہ آہستہ اپنے ملک میں فیکٹریاں بند کر تے جا رہے ہیں اور چین میں ایک مقامی دفتر کھول کر سارا مال چین سے بنوا کر درآمد کر رہے ہیں۔ بھارت بھی چین کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ نامور کمپنیوں کے موبائل اب بھارت میں بن رہے ہیں۔ پہلے ان پر میڈ ان چائنا‘ ویت نام یا فن لینڈ لکھا ہوتا تھا۔ عنقریب آپ کے ہاتھ میں جو موبائل ہو گا اس پر میڈ ان انڈیا ہو گا۔ ہم ایسے حالات میں راتوں رات کون سی ایسی صنعت لگائیں گے جس سے ہماری برآمدات بھی بڑھ جائیں اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی مل جائے۔ لوڈشیڈنگ برائے نام کم ہوئی ہے۔ دہشت گردی کا خطرہ بھی بدستور موجود ہے۔ ڈالر کی اڑان نے معیشت کا توازن بری طرح بگاڑ دیا ہے۔ بیرونی قرضے اور ان پر سود مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں فوری طور پر کوئی صنعت لگائی بھی جائے تو اس کے لئے بھاری قرض لینا پڑے گا جبکہ پاکستان پہلے ہی بری طرح مقروض ہے اور اگر صنعت یا کارخانے لگائیں تو انہیں بنانے میں بھی کئی سال درکار ہیں۔ ایسے میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے جس سے ہم لاکھوں نوجوانوں کو نوکریاں بھی دے سکتے ہیں‘ جس کے لئے کوئی خاص سرمایہ کاری بھی درکار نہیں اور جس سے ہماری برآمدات ایک برس میں دو گنا بڑھ سکتی ہیں اور وہ طریقہ صرف اور صرف فری لانسنگ کا ہے جس کے ذریعے ہم ایک برس میں دس لاکھ ‘ اس سے اگلے برس میں بیس لاکھ اور اس سے اگلے برس تیس لاکھ نوکریاں دلا سکتے ہیں۔ بلکہ آپ انہیں نوکریاں بھی نہ کہیں یہ لوگ بزنس مین یا انٹرپینورکہلائیں گے کیونکہ انٹرنیٹ پر کام کرنے کے لئے آپ صبح نو سے شام پانچ بجے کی پابندی جیسی نوکری کے محتاج نہیں بلکہ جب چاہیں جتنا چاہیں کام کر سکتے ہیں۔ فی الوقت ہماری برآمدات اکیس ارب ڈالر ہیں۔ ای روزگار پروگرام کے مطابق فری لانسنگ سے ہمارے نوجوان اوسطاً تیس ڈالر یومیہ کما رہے ہیں۔ اگر چار کروڑ نوجوانوں میں سے صرف .025فیصد یعنی دس لاکھ نوجوان فری لانسنگ کرنے لگیں اور اوسطاً یومیہ تیس ڈالر کمائیں تو یہ سالانہ دس ارب ڈالر کما سکتے ہیں جس سے ہماری برآمدات اکیس ارب ڈالر سے بڑھ کر اکتیس ارب ڈالر ہو جائیں گی یعنی پچاس فیصد بڑھ جائیں گی۔ اس کے لئے نئی حکومت کو حکمت عملی میں معمولی سی تبدیلی لانا ہو گی۔ ملک کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں‘ سکولوں اور کالجوں کو پابند بنانا ہو گا کہ وہ میٹرک سے لے کر ماسٹرز تک نصاب میں ای روزگار یا فری لانسنگ کا سہ ماہی کورس لازمی پڑھائیں۔ اس میںطلبا کو آن لائن پیسہ کمانے کے لئے ٹریننگ اور کورسز کروائے جائیں‘ ہر طالب علم کے لئے لازمی ہو کہ وہ تین ماہ کی چھٹیوں میں کورس کرے یوں ہر سال کم از کم دس لاکھ افراد فری لانسنگ سے وابستہ ہو جائیں گے۔ نئی حکومت فائیور‘ اپ ورک اور فری لانسر ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹس کے ساتھ معاہدے کرے جو پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں‘ ہر مہینے ہر چھوٹے بڑے شہر میں فری لانسنگ پر بڑے سیمینار منعقد کرائے جائیں جہاں عالیان چوہدری اور دانیال سلیم جیسے کامیاب فری لانسرز سمیت غیر ملکی فری لانسرز لیکچر دیں اور اپنی کامیابی کی کہانی سے آگاہ کریں۔ اس سے بچوں اورنوجوانوں میں موٹی ویشن پیدا ہو گی اور وہ اس جانب راغب ہوں گے۔ اسی طرح ہر شہر میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ای روزگار سنٹرز بھی قائم کئے جائیں جہاں ہر عمر کے برسر روزگار یا بیروزگار افراد تربیت حاصل کر کے آن لائن پیسے کمانے کا طریقہ سیکھ سکیں۔ خواتین کیلئے فری لانسنگ بہترین کام ہے۔ یہ سارا دن ساس بہو کے ڈرامے دیکھنے اور سوشل میڈیا پروقت ضائع کرنے کی بجائے چار پانچ گھنٹے بھی کام کریں تو مہینے کے ایک لاکھ روپے آسانی سے کما سکتی ہیں۔ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ انڈیا پہلے‘ بنگلہ دیش دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان اس میدان میں زبردست ٹیلنٹ رکھتا ہے۔ فری لانسنگ کے علاوہ کوئی اور شعبہ ایسا نہیں جس سے بغیر سرمائے کے لاکھوں افراد کو ایک برس کے اندر روزگار دیا جا سکے اور یہ بھی یاد رکھئے یہ وہ گھوسٹ نوکریاں نہیں ہوں گی جیسے حکومتیں ماضی میں دیتی تھیں ‘گھر بیٹھے تنخواہیں ملتی تھیں اور سارا بوجھ اداروں اور معیشت پر ہوتا تھا۔ ویب سائیٹس پر پاکستانی فری لانسرز کی تعداد اور اس مد میں آنے والازر مبادلہ سارا سچ خود کھول کر بیان کردے گا۔ میں دعوے سے کہتا ہوںیہ تجویز سو فیصد قابل عمل ہے اور نئی حکومت اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ڈاکٹر عمر سیف جیسے ٹیکنالوجی کے ماہرین سے استفادہ کر سکتی ہے۔نئی سیاسی جماعت کو اگر کامیابی ملی ہے تو اس میں نوجوانوں کا کردار اہم ترین ہے چنانچہ نئی حکومت کو حلف اٹھاتے ہی نوجوانوں کو ان کا قرض لوٹانے کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ نوجوانوں کو مایوسی اور بیروزگاری کے اندھیروں سے نکال کر خوش حالی اور کامیابی کا راستہ دکھلایا جا سکے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved