یہ کالم چھپنے تک نتائج آچکے ہوں گے ۔ میرے خیال میں تحریکِ انصاف 100اور نون لیگ 70تک سیٹیں جیت سکے گی ۔عمران خان کو اقتدا رمل جائے گا‘ پھر انہیں اپنے دعوے ثابت کرنے ہوں گے ۔ یہ شکوہ ختم ہو جائے گا کہ قوم نے انہیں ایک بھی موقع نہیں دیا ۔ یہ آسانی سے کہا جا سکتاہے کہ مستقبل میں بھی ان کے کچھ نہ کچھ سکینڈلز منظرِ عام پر آتے رہیں گے‘ لیکن بہت ساری چیزوں میں بہتری کی توقع ہے ۔ سعودی عرب میں مقیم میرے دوست محمد خالد کا کہنا یہ ہے کہ غیب کا علم اللہ کے پاس ہے ۔ الیکشن کے نتائج کچھ اس طرح کے ہوں گے کہ بالآخر حکومت پیپلزپارٹی بنائے گی ۔ میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ میری سمجھ کے مطابق یہ ناممکن ہے ۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ آزاد امیدوار جمع جیپ والے اور پیپلزپارٹی وغیر ہ کو اکھٹا کر کے حکومت بنا دی جائے گی۔ ویسے جتنا comfortableشہباز شریف کے ساتھ رہا جا سکتا ہے ‘ اتنا عمران خان کے ساتھ نہیں رہا جا سکتا۔ شہباز شریف ہمیشہ submissive رہتے ہیں ۔وہ مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے آپ کو یاد ہوگا کہ ان کے داماد نے بیکری والے کو پیٹا تھا تو انہوں نے اسے ہتھکڑی پہن کر تھانے جانے پر رضامند کر لیا تھا ۔ بعد میں اس لڑکے کوانہوں نے صلح اور معافی پر راضی کر لیا ۔ شہباز شریف کھل کر یہ اشارہ بھی دے چکے ہیں کہ تمام معاملات میں گفتگو اور معاہدے کے لیے تیار رہیں گے ۔ نواز شریف اپنے ماتحتوں کے ساتھ فضول ضد پہ اڑ جاتے ہیں ۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح ۔ ا ن کی تو کبھی چوہدری نثار سے لڑائی ختم نہیں ہوسکی ۔ عمران خان ڈرون گرانے سے لے کر کوئی بھی بڑے سے بڑا ایڈونچر کر سکتے ہیں۔ بہرحال حالات اس وقت تحریکِ انصاف ہی کے حق میں استوار ہیں ۔اگر ان کی سیٹیں زیادہ ہوں گی‘ تو پھر کوئی بھی دوسروں کو اکٹھا کر کے حکومت نہیں بنوا سکتا کہ اس سے عوام میں بدگمانی پیدا ہو گی ۔
کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ نادیدہ قوتوں نے حالات تحریکِ انصاف کے لیے سازگار کیے ۔ یہ بھی کہ نواز شریف تو جیل میں ہیں ‘ جبکہ پرویز مشرف بیرونِ ملک گل چھڑے اڑا رہا ہے ۔ میرا دیانتدارانہ تجزیہ یہ ہے کہ جس طرح مشرف کی بیرونِ ملک روانگی کی راہ ہموار ہو گئی تھی ‘ اسی طرح نواز شریف بھی جلد یاکچھ تاخیر کے ساتھ بیرونِ ملک روانہ ہوتے دیکھے جائیں گے ۔ اگر انہیں صدر سے معافی مانگنا پڑی تو مانگ لیں گے ۔ وہ جیل کی زندگی گزارنے کے متحمل 18سال پہلے نہیں تھے ‘توآج کہاں سے ہو گئے ۔ انہوں نے ہمیشہ شاہانہ زندگی گزاری۔ وہ ایک وقت کے کھانے میں چھ قسم کے سالن کھانے کے عادی ہیں ۔ وہ کھانے کے لیے خصوصی طور پر دوسرے شہروں کا سفر ہیلی کاپٹر اور جہاز میں طے کرنے کے عادی ہیں ۔ انہوں نے اپنی ساری جائیداد اور اولاد کو بیرونِ ملک منتقل کر دیا‘ جبکہ وہ اور مریم نواز پاکستان ہیں‘ تو اقتدار کی جنگ لڑنے کے لیے ہی ۔ اس کے علاوہ عید سمیت ہر اہم دن وہ بیرونِ ملک ہی منانے کے عادی ہیں ۔
نواز شریف آج جیل میں کیوں ہیں اور پرویز مشرف کیسے باہر چلا گیا ۔ کیا یہ زیادتی نہیں ۔ نہیں یہ زیادتی نہیں ‘ کم عقلی ہے ۔ نواز شریف نے کبھی حالات سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ سامنے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمیشہ دو سینئر جرنیلوں کو چھوڑ کر تیسرے کو سپہ سالار مقرر کر کے اس سے یہ امید رکھی کہ وہ مشکل سیاسی حالات میں ان کی مدد کرے گا ۔آرمی چیف سے وہ ایسی تابعداری کی امید رکھتے ہیں ‘ جیسی کہ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف سے ۔ جب یہ مدد نہیں ملتی‘ تو پھر وہ راز فاش کرنے کی دھمکی دینے لگتے ہیں ۔
نواز شریف نے بھارت کے ساتھ ایسے ذاتی تعلقات استوار کیے (کاروباری خواہشات کی وجہ سے ) کہ بھارتی میڈیا ان کی حمایت کرنے لگتا ہے ۔ اب میڈیا میں چار سو چینلز میں سے آپ کس کس کو سمجھائیں گے کہ میری حمایت نہ کرو‘ مجھے پاکستان میں سیاسی نقصان ہوتاہے ۔ ان کا دماغ اپنے کاروبار ی نفع نقصان سے آگے کی سوچ ہی نہیں سکتا۔پرویز مشرف اور عمران خان‘ دنیا کے کسی بھی ٹی وی چینل کو بغیر تیاری کے انٹرویو دے سکتے ہیں ۔ نواز شریف خوش خوراکی اور دولت جمع کرنے کی خواہشات میں اس قدر obsessedہیں کہ وہ فی البدیہہ جواب دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ وہ ہاتھ میں پرچی رکھتے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ رجب طیب اردوان نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو ایک عالمی کانفرنس میں کھری کھری سنا دی تھیں ۔یہ سب موقعے کی مناسبت سے ہوتاہے ۔ بندہ پرچی پکڑ کر کسی کو کھری کھری نہیں سنا سکتا۔
پرویز مشرف کے دور میں اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے اوپر گئی۔ نواز شریف کے دور میں سی پیک جیسی عظیم پیش رفت کے باوجود چھ فیصد کو نہ چھو سکی ۔ پرویز مشرف نے ملکی قرض کو چھ ہزار ارب روپے پر روک دیا ۔ زرداری اور پھر نواز شریف صاحب مل کر اسے 26ہزار ارپ روپے تک لے گئے ۔ ماہرین معیشت سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ یہ قرض کون چکائے گا۔ عمران خان کی حکومت بنی ‘تو اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ قرض ہی ہوگا ۔
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اگر فوج سیاست میں دخیل ہے تو اسے واپس کون لوٹا ئے گا؟ ظاہر ہے کہ طیب اردوان جیسا ایک حکمران جو پہلے عوام کو انتہائی شاندار معاشی ترقی کا تحفہ دیتاہے ‘ پھر یہ عوام اس کے لیے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کو بھی تیار ہوتے ہیں ‘ جبکہ یہاں سوکھی جمہوریت اور غیرت کے نعرے چلتے ہیں ۔ شیر‘ اک واری فیرر۔ایک ریڑھی والے سے لے کر ایک ماہر معیشت تک ‘ ہر بندہ پرویز مشرف کے دور ِ اقتدار کی تعریف کر رہا ہے ‘ جبکہ زرداری صاحب کے دور میں اوسط ترقی کی شرح دو فیصد رہی ۔ اب اس کے بعد کون جمہوریت کی خاطر ٹینک کے سامنے لیٹنے کی حماقت کرے گا ؟ حیرتوں کی حیرت یہ ہے کہ جب بھی فوجی حکومت آتی ہے ‘ معاشی ترقی کی شرح کئی فیصد بڑھ جاتی ہے ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ تین بار نواز شریف کو اقتدار ملا‘ کبھی وہ ایسی کارکردگی نہیں دکھا سکے کہ عوام انہیں جیل ڈالنے یا اقتدار سے نکالنے کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ نواز شریف اگر لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوتے‘ تو کیا انہیں جیل ڈالنے پر پورے ملک میں موت جیسی خاموشی طاری ہوتی ؟ کتنے لوگ ان کے لیے سڑکوں پر نکلے ؟
بہرحال‘ اگر تو عمران خان کی حکومت آگئی‘ جیسا کہ سارے سروے اس بات کا اعلان کر رہے ہیں‘ تو اس پانچ سالہ اقتدار میں بار بار ایسے واقعات (Incidents)ہوں گے‘ جو کہ غیر متوقع اور غیر معمولی کہے جا سکیں گے ۔ نواز شریف اور عمران خان سمیت کئی سیاستدانوں کی عمر اس وقت 70سال سے اوپر ہو چکی ہوگی ۔ انسان جتنا بھی فٹ رہے ‘ بہرحال بڑھتی عمر کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی اس کھیپ کے پاس اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے یہ پانچ سالہ دور شاید آخری مہلت ہوگی ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ گمنامی کے گھاٹ اترتے چلے جائیں گے ‘لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کو تو کئی مواقع ملے‘ عمران خان کے لیے شاید یہ پہلا اور آخری موقع ہے ۔