انتخابات کے روز کوئٹہ میں ہونے والے خود کش دھماکے اور اس سے پیشتر پشاور سے لے کر مستونگ تک انتخابی مہمات میں ہونے والی دہشتگردی میں سینکڑوں جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ اس طرح 2018ء کے یہ انتخابات دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی حالیہ تاریخ کے سب سے خونیں انتخابات ثابت ہوئے۔ حکمرانوں نے دہشت گردی کو ''جڑوں‘‘ سے اکھاڑ دینے کے دعوے کیے تھے‘ لیکن انتخابی مہم کے دوران ابھرنے والی دہشت کی لہر ان دعووں کو پُر فریب ثابت کر رہی ہے۔ اب تک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو کارروائیاں ہوئیں‘ لگتا ہے کہ وہ محض اس کی سطحی شاخوں کا قلع قمع کرنے تک ہی محدود رہیں۔ وہ ٹھوس حقیقت جس سے ہمارے حکمران پہلوتہی کرتے چلے آ رہے ہیں‘ یہ ہے کہ اس دہشت گردی کی جڑیں اس کالے دھن سے سیراب ہوتی ہیں‘ جو ملک کی سرکاری معیشت سے تین گنا بڑا ہے۔ کالے دھن کا یہ ناسور نا صرف پاکستان کی معیشت سے بھی بڑا ہو گیا ہے‘ بلکہ سیاسی پارٹیوں سے لے کر ہر ادارے تک میں اس کی زہریلی سرایت نے اس کو نظام کا ایک جُزو بنا دیا ہے۔
13 جولائی کو جمعہ کے روز مستونگ (بلوچستان) میں ہونے والے خود کش حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ سو تک جا پہنچی۔ اسے سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کی سب سے خونریز واردات قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری 'داعش‘ نے قبول کی ہے۔ داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔ اس سے قبل منگل کے روز روس، ایران، چین اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں کا ایک اہم اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا‘ جس میں افغانستان میں موجود داعش کی فروغ پذیر سرگرمیوں کے پیشِ نظر خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
دوسری جانب حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران افغان فورسز نے بھی طالبان کے خلاف آپریشن نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان نے بھی گزشتہ عید کی تین دنوں تک حکومت کے ساتھ سیز فائز کا اعلان کیا اور اس پر عمل بھی کیا گیا تھا۔ پچھلے سترہ سالوں میں یہ پہلی مرتبہ طالبان کی جانب سے عارضی جنگ بندی کا اعلان تھا۔ افغان وزیرِ داخلہ کابل میں طالبان کمانڈروں سے عید بھی ملے۔ لیکن عید کے دوسرے دن ہی مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک خود کش حملے میں 26 افراد جاں بحق اور کئی درجن زخمی ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں پولیس، طالبان اور عام افراد شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ اسی طرح اگلے دن ننگرہار میں ایک اور حملے میں 17 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ افغانستان کے حکومتی اہلکار، پولیس اور طالبان شہروں میں آ کر اکٹھے عید منا رہے تھے اور اس اجتماع پر ایک تیسری قوت 'داعش‘ نے حملہ کر دیا۔ یہ افغانستان میں امریکی سامراج اور خطے کے دیگر سامراجی ممالک کے درمیان نئی صف بندیوں کی جانب اشارہ ہے۔ اگرچہ افغانستان میں داعش کے ابھار کی خبریں 2015ء میں آنا شروع ہو گئی تھیں‘ لیکن حالیہ دنوں میں افغانستان کے مشرق اور شمال‘ بالخصوص کابل میں داعش کی کارروائیوں کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ یہ ابھار کوئی حادثاتی امر نہیں‘ بلکہ تمام مذہبی پراکسیوں کے ابھار کی مانند یہ بھی سامراجی گریٹ گیم کا ایک نیا پینترا ہے۔
دوسری جانب تمام تر امریکی دباؤ اور امداد بند کرنے کی کارروائیوں کے باوجود افغانستان میں پاکستان کی سٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی جاری ہے‘ اور میرا خیال ہے کہ امریکہ کو زچ کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے عراق اور شام میں روس اور ایران کے ہاتھوں داعش کی شکست اور کم و بیش اس کا صفایا کر دئیے جانے کے بعد اس کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد کو مبینہ طور پر افغانستان میں منتقل کروایا گیا یا انہیں منتقل ہونے دیا گیا۔ بغیر کسی سامراجی پشت پناہی کے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دس ہزار سے زائد داعشی جنگجو شام اور عراق سے افغانستان پہنچ جائیں۔ یہ کوئی حادثاتی اَمر نہیں ہے کہ جہاں کہیں بھی امریکی مفادات کو خطرہ ہوتا ہے‘ وہاں داعش اور اس جیسی دیگر تنظیمیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے 'RT‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ افغانستان میں داعش کا ابھار امریکہ کی کارستانی ہے اور یہ تنظیم، اس کا ایک اوزار ہے تاکہ پورے خطے میں انتشار پھیلایا جا سکے۔ اسی طرح اس سال فروری میں روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی کہا تھا، ''ہمیں تشویش ہے کہ امریکہ اور نیٹو بد قسمتی سے ہر طریقے سے افغانستان میں داعش کی موجودگی سے انکار کر رہے ہیں‘‘۔ وزیر خارجہ نے امریکی اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ اسی طرح ایران کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے بھی امریکہ پر داعش کو مشرق وسطیٰ سے افغانستان منتقل کر کے ایران کے خلاف استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
اس نئی صورت حال میں خطے کی ریاستیں بھی نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ کابل کی حکومت گلبدین حکمت یار کی طرح طالبان کو بھی مذاکرات کے ذریعے حکومت کا حصہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے‘ جبکہ خطے کی ریاستیں‘ بالخصوص پاکستان، ایران اور روس‘ بھی انہی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں بالخصوص افغانستان کے معاملے میں روس اور پاکستان بھی کافی قریب آ گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حمایت پر امریکی دباؤ اور امداد بند کرنے کے جواب میں اب پاکستان نے بھی متبادل راستے کے طور پر روس کا رخ کر لیا ہے۔ خطے کی ریاستیں بالخصوص پاکستان، ایران، چین اور روس افغان حکومت اور طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مصالحت اور مذاکرات کے لیے کوشش کر رہی ہیں تاکہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں داعش کو پروان چڑھانے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جا سکے‘ کیونکہ امریکہ افغانستان میں داعش کو عراق کی طرز پر پروان چڑھا کر خطے کی آس پاس کی ریاستوں پر دباؤ رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی پراکسی کے طور پر داعش‘ طالبان کو کچل کر پاکستان کی افغانستان میں مداخلت اور امریکی مفادات پر حملے سے باز رکھے گی۔ جبکہ اس بات کے خدشات بھی موجود ہیں کہ مستقبل میں داعش کو پاکستان میں پھیلا کر سی پیک اور چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی طرح اس اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ داعش کو مغربی سرحد پر ایران کے خلاف استعمال کرے۔ شمالی سرحد پر اسے وسط ایشیائی ریاستوں میں پہنچا کر بالواسطہ طور پر روس پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پچھلے سال ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے تحت امریکی پینٹاگان نے عراق سے چار ہزار امریکی فوجی اسی وجہ سے افغانستان منتقل کر دیئے تھے۔
لیکن کیا افغانستان میں داعش کو مشرق وسطیٰ کی طرح اتنا بڑھاوا دیا جا سکے گا؟ اور کیا داعش افغانستان کے وسیع حصے پر قابض ہو سکتی ہے؟ یہ اہم سوال ہیں‘ لیکن یہ سب تو مستقبل قریب میں ہی واضح ہو گا؛ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ اس نئی گریٹ گیم کا خمیازہ خطے کے عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا‘ جبکہ فائدہ صرف غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیوں، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور کالے دھن پر پلنے والے بنیاد پرستوں گروہوں کے سرغنوں کا ہی ہو گا۔ جس طرح امریکی سامراج نے عراق اور شام میں داعش کو پیدا کر کے ان ممالک کو کھنڈرات میں بدل دیا اور پھر اس بلا کے بے قابو ہو جانے کے بعد اس کے خلاف کارروائیوں میں بھی مصروف نظر آیا‘ اب شاید یہی تجربہ ا فغانستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں کابل، کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں داعش کے پے در پے حملے فی الحال صرف جھلکیاں ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کی کارروائیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ اس سے علاقائی ریاستوں کی پراکسی جنگیں شدت اختیار کریں گی۔ ان ممالک کے محنت کش اور نوجوان ہی وہ واحد قوت ہیں جو اس بربریت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔