میرا خیال یہ ہے کہ مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی تحریکِ انصاف کی حکومت بننے کے امکانات روشن ہیں ۔ یہ اقتدار کی جنگ ہے اور اقتدار کی جنگ بہت بے رحمی سے لڑی جاتی ہے ۔ جہاں تک شریفوں کا بس چلا ‘ انہوں نے پٹوار‘ پولیس اور بیوروکریسی کی مدد سے عمران خان کا راستہ بند کیے رکھا۔عمران خان کی سیاست کے ابتدائی برسوں میں اس کے بینر اور پوسٹرز پھٹوائے ۔جمائمہ پہ سمگلنگ کا مقدمہ بنوایا۔ بے نظیر کی تصاویر پھنکوائی گئیں ۔ شیخ رشید قومی اسمبلی میں بے نظیر پر جملے کسا کرتے اور نواز شریف اس صورتِ حال سے محظوظ ہوتے ۔ اس دوران اس طرح کے کئی الزامات ان پر عائد کیے گئے ‘ جو کالم میں نہیں لکھے جا سکتے ۔عمران خان یہ سب کچھ یقینا نہیں کریں گے ‘لیکن عملی سیاست کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ زرداری دور میں 2008ء سے 2013ء تک شہباز شریف پنجاب میں قاف لیگ کے ایک بڑے فارورڈ بلا ک کو ساتھ ملا کر حکومت کرتے رہے ۔ سیاست میں تو حلیف ہوتے ہیں یا دشمن۔یہ انتہائی بے رحمی کی دنیا ہے ۔ یہاں جب دشمن جب زخمی ہوتو اس کا سر کچلا جاتاہے ۔ اسے دودھ نہیں پلایا جاتا ہے ۔
2008ء میں عمران خان اور دوسری چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن بائیکاٹ کا وعدہ کر کے میاں صاحب آخر میں مکر گئے ۔ عمران خان اپنے انکار پر قائم رہے اور نتیجے میں تحریکِ انصاف کے حامیوں نے بھی نون لیگ کو وو ٹ دیے ۔ اس وقت تقسیم مشرف کے حامیوں اور مخالفین کی بنیاد پر تھی ۔ آپ کو لطیفوں کا لطیفہ سنائوں : 2013ء کے الیکشن میں شہباز شریف یہ کہا کرتے تھے کہ اگر تم لوگ (پاکستانی عوام ) عمران خان کو وو ٹ دو گے‘ تو ووٹ تقسیم ہو جائے گا اور زرداری صاحب دوبارہ آجائیں گے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ عمران خان درحقیقت زرداری صاحب کا ایجنٹ ہے ۔ آج بتائیں ‘ کون کس کا ایجنٹ ہے ؟کہاں عمران خان ‘ جس پر سو اعتراضات بھی کیے جائیں‘ تو بھی وہ بیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار تک پہنچا۔ کہاں زرداری صاحب کہ بے نظیر کی حادثاتی موت نے اقتدار نصیب کیا اور پیپلزپارٹی کو سندھ تک محدود کر کے رکھ دیا ۔ وقت کیسے کیسے مغالطوں کو دھو ڈالتا ہے ۔
رہے نواز شریف صاحب ‘تو ایک سال کے اندر اندر‘ بلکہ اس سے بھی بہت پہلے وہ ہمیشہ کے لیے بیرونِ ملک روانہ ہو جائیں گے ‘صدر سے معافی ملنے کے بعد ۔ ان کی سیاسی نا اہلی کی انتہا یہ تھی کہ دشمن ملک کا میڈیا ان کی حمایت کر رہا تھا ۔میں یہ بھی کہتا چلوں کہ اگر معاملات شہباز شریف کے ہاتھ میں ہوتے ‘تو کبھی یہ نوبت نہ آتی ۔ سیاسی پرندے سب سے زیادہ چالاک اور عیار ہوا کرتے ہیں ۔ جب وہ ایک پارٹی سے اڑان بھر کے دوسری میں جانا شروع ہو جائیں او رجب وہ ایک پارٹی کا ٹکٹ واپس کر دیں تو سمجھ جائیں کہ اس کی موت کا وقت آ چکا ہے ۔ نواز شریف سے بڑھ کر مریم نواز نے شہباز شریف کے ہاتھ میں معاملات جانے ہی نہیں دیے ۔ دونوں خاندانوں کے اندر بھی ایک اقتدار کی جنگ چل رہی تھی ‘ جس نے ان کی شکست کی راہ ہموار کی ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ غالباً عامر متین صاحب نے یہ بات اپنے پروگرام میں بتائی ۔ کہتے ہیں کہ پنامہ لیکس سامنے آنے کے بعد شہباز شریف صاحب کے ایک صاحبزادے نے صحافیوں کے موبائل پر پیغام بھیجا: دیکھا ! ہمارے (شہباز شریف کے ) خاندان کا نام پنا مہ لیکس میں نہیں ہے (اور نواز شریف صاحب کے خاندان کا نام اس میں موجود ہے ) اس کے بعد جوابی طور پر خصوصی کالم لکھوائے گئے ‘ جن کے مطابق شہباز شریف کے سسرال والوں کے نام بھی پنامہ لیکس میں ہیں ؛چنانچہ وہ اپنا دامن چھڑا نہیں سکتے ۔
نون لیگ تحلیل ہونا شروع ہو جائے گی ۔ یہ کبھی بھی ایک نظریاتی پارٹی نہیں تھی ۔ شریف خاندان کا منشور اقتدار میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دولت کمانا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ‘ پولیس‘ پٹوار او رافسر شاہی کی مدد سے حکومت کرنے والی یہ پارٹی ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکی تھی ۔ انہوں نے اپنے دور ِ اقتدار میں صحافیوں پر ہمیشہ نوازشات کی بارش کی ۔ کرکٹ بورڈ سے لے کر وزیر اعظم کے مشیر تک‘ ان میں عہدے تقسیم کیے ۔ اپنے خلاف لکھنے والوں پر اپنے ہرکارے کھلے چھوڑ دیے ۔ ان کی بے عزتی کی ۔ یہ کام پیپلزپارٹی نے نہیں کیا۔
عمران خان صاحب کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ 26ہزار ارب روپے کاجو اندرونی اور بیرونی قرض زرداری اور شریف حکومتوں نے انہیں تحفے میں دیا ہے ‘ اس سے کیسے نمٹنا ہے ۔ ماہرین ِمعیشت سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ یہ قرض کون چکائے گا۔ ہر سال سالانہ بجٹ بنتا ہے‘ تو ہمارے اخراجات آمدن سے کم و بیش دو ہزار ارب روپے کم ہوتے ہیں ۔ زرداری اور شریف حکومتوں کے پاس تو آسان نسخہ تھا کہ قرض لیتے جائو ۔ اب عمران خان کو حکومت ملی تو مزید قرض لینے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ سب سے پہلے تو شریف اور زرداری خاندان اپنے جن اثاثوں کے ذرائع آمدن ظاہر نہ کر سکیں ‘ جیسا کہ پنامہ لیکس کیس میں ہوا‘ وہ بحق سرکار ضبط کیے جائیں ۔ ساتھ ہی صحافیوں سمیت ملک بھر کے امرا کے بھی ۔اگر زندہ رہنا ہے‘ تو تکلیف برداشت کرنا ہوگی ۔مجھے تو ایسا لگتاہے کہ خدا جان بوجھ کر پاکستان کو غربت کی چکی میں پیس رہا ہے ۔ اگر آپ عرب ممالک کو دیکھیں تو بندہ حیران رہ جاتاہے کہ زمین کے نیچے سے دولت نکل آئی اور ختم ہونے میں نہیں آرہی ۔ دوسری طرف دیکھیں تو وہ بالکل بھی سخت جان نہیں ۔ ذرا دشمن کے حملوں کا ڈر پیدا ہوتاہے اور فوراً ''یا اخی‘ یا اخی‘‘ کرتے ہوئے پاکستان کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ دولت مند قومیں کب کسی سے لڑسکی ہیں ۔ امریکی فوج ویت نام اور افغانستان سمیت کوئی جنگ جیت کر نہیں دے سکی ۔ پاکستان کی صورتِ حال یہ تھی کہ اس کی آدھی فوج ہمیشہ بھارتی سرحد پر تعینات رہی ۔ باقی افغان سرحد‘ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں ۔ انسدادِ دہشت گردی بھی کیا گیا ۔ دہشت گردوں کی شکستِ فاش کا عالم ہے کہ کہاں 2009ء میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہتھے لگنے کے خدشے ظاہر کیے جا رہے تھے اور کہاں 2018ء میں پورے ملک میں ایک بھرپور الیکشن منعقد ہوا ۔
خیر ‘ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے دورِ اقتدار میں بار بار ایسے واقعات (Incidents)ہوں گے ‘جو کہ غیر متوقع اور غیر معمولی کہے جا سکیں گے ۔ جیسا کہ کل عرض کیا تھا ‘عمران خان عمر کے اس حصے میں ہیں ‘ جہاں ان کے پاس پانچ دس سال سے زیادہ مہلت باقی نہیں ۔بہرحال خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خا ن کو دولت کمانے کی ہوس نہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ عمران خان فوج کے ساتھ معاملات کیسے طے کرتے ہیں ۔ کہیں وہ ڈرون گرانے جیسا کوئی ایڈونچر تو نہیں کرنا چاہیں گے ؟
بہرحال میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی وزیر اعظم اب دنیا بھر کے حکمرانوں کے سامنے اعتماد سے بات کر سکے گااور ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھے گا۔ پرچی کی ضرورت باقی نہیں۔