تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-07-2018

لات مارنا لازم تو نہیں!

امریکا اور چین کے درمیان معاملات تیزی سے سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دو بڑوں کی لڑائی میں کئی چھوٹے بھی مشکلات سے دوچار ہیںیا یوں کہہ لیجیے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گنّوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی اور تکنیکی بالا دستی برقرار رکھنے کا ہے۔ یورپ کو بھی اسی چیلنج کا سامنا ہے‘ مگر وہ معاملہ فہمی کا ثبوت دے رہا ہے۔ امریکا کا ساتھ دیتے رہنے کی پالیسی کو یورپ نے کئی تبدیلیوں سے گزارا ہے ‘تاکہ جہاں بھی ضروری ہو وہاں معاملات کو درست کرنے کی سمت بڑھنا ممکن ہو اور امریکا کی بے جا پیروی سے بچا جاسکے۔ 
چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے اب امریکا اور یورپ دونوں ہی اپنی پوزیشن میں تیزی سے واقع ہوتی ہوئی گراوٹ کو محسوس کر رہے ہیں۔ یورپ نے صدیوں کی خرابیاں جھیلنے کے بعد اب بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ بدلنے کا ہنر جانتا ہے۔ اُس نے ''نرم قوت‘‘ سے بخوبی کام لینے کا فن بھی قابلِ رشک حد تک سیکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب یورپ تمام خطوں کے ساتھ اچھی طرح چلنے کے قابل ہوچکا ہے۔ امریکا اس منزل سے ابھی بہت دور ہے۔ وہ اب تک ''سخت قوت‘‘ سے کام لینے کے موڈ میں دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا میں ایسے لوگوں کی آواز اب بلند ہوتی جارہی ہے‘ جو چاہتے ہیں کہ ہر معاملے کو محض طاقت کے استعمال سے درست کرنے کی روش ترک کی جائے اور جہاں ضروری یا ناگزیر ہو وہاں معاملات کو بات چیت کے ذریعے‘ افہام و تفہیم کے ذریعے درست کیا جائے۔ 
امریکی قیادت اب اپنی طاقت میں واقع ہوتی ہوئی کمی کا احساس ہوتے ہی بعض معاملات میں قدرے پسپائی آمیز رویہ بھی اختیار کر رہی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے گھبراکر الزام تراشی کا کھیل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے چین پر سرد جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اور یہ سرد جنگ محض معاشیات یا مالیات تک محدود نہیں۔ امریکی خفیہ اداروں کا ایک الزام تو یہ ہے کہ چین نے امریکا کے اہم کاروباری راز جاننے کے لیے متعلقہ اداروں میں نقب لگانا شروع کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین امریکی اداروں میں مختلف شعبوں کے حوالے سے جاری اعلیٰ سطح کی تحقیق کے نتائج چرانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ چینی قیادت قومی طاقت میں اضافے کے لیے کیا کر رہی ہے یا کیا نہیں کر رہی ہے‘ بلکہ یہ ہے کہ امریکا کو یہ کیوں کہنا پڑ رہا ہے کہ چین سرد جنگ شروع کرچکا ہے۔ 
امریکی قیادت عالمی سیاست و معیشت میں رونما ہونے والی تمام اہم ترین تبدیلیوں کا بھرپور ادراک رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ طاقت میں تیزی سے واقع ہوتی ہوئی کمی کے نقصان یا منفی اثرات کو قابو میں رکھا جائے۔ یورپ نے ہر معاملے میں آنکھ بند کرکے امریکا کا ساتھ دینے کی روش بظاہر ترک کردی ہے۔ برطانیہ اب بھی امریکا کے ساتھ ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے‘ مگر باقی یورپ کا یہ معاملہ نہیں۔ فرانس‘ جرمنی اور سکینڈے نیوین ممالک (ناروے‘ ڈنمارک‘ سوئیڈن وغیرہ) چاہتے ہیں کہ امریکا کی اندھا دھند پیروی سے گریز کیا جائے اور جہاں اُس کے لیے ساتھ چلنا کسی طور ممکن نہ ہو‘ وہاں تنہا جانے یا کم از کم امریکا کے ساتھ نہ چلنے کو ترجیح دی جائے۔ 
کم و بیش دو عشروں تک امریکا اور یورپ نے مل کر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جن کے ہاتھوں چین کسی بڑے علاقائی تنازع یا بحران کی دلدل میں پھنس جائے۔ چینی قیادت کی دانش مندی نے معاملات کو اب تک اُس نہج تک پہنچنے سے روکا ہے ‘جہاں اُس کے لیے کسی بھی بڑے تنازع یا بحران میں خواہ مخواہ الجھنے سے بچنا ممکن نہ ہو۔ مشرق بعید یا جنوب مشرقی ایشیا میں تنازعات کی کمی نہیں۔ چین کو کسی بڑے تنازع میں الجھانا مغربی دنیا کی ترجیح رہی ہے۔ امریکا نے چاہا ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کے خطے میں چین کا کسی بڑے پڑوسی یا چند پڑوسیوں سے کوئی ایسا تنازع کھڑا ہو جائے‘ جسے بنیاد بناکر اُس کے خلاف وسیع تر یا عالمگیر نوعیت کی محاذ آرائی ممکن ہو۔ چینی قیادت تمام ممکنہ خطرات کو بھانپتے ہوئے ڈھائی عشروں کی مدت میں غیر معمولی محتاط اور متحمل رہی ہے۔ 
مغربی طاقتوں نے چین کے خلاف بھارت‘ میانمار اور بنگلہ دیش کو بھی ''پمپ‘‘ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بنگلہ دیش اگرچہ ایسی پوزیشن میں نہیں کہ چین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکے‘ مگر پھر بھی بھارت کے ذریعے اُس پر بھی دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ چین کی طرف سے بڑھایا ہوا دوستی اور تعاون کا ہاتھ تھامنے سے محض گریز نہ کرے ‘بلکہ انکار ہی کردے۔ بیجنگ نے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے‘ مگر نئی دہلی کے اشارے پر ڈھاکا نے اب تک دامن کش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے زمینی حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ وہ عملاً بھارت کا بغل بچہ ہے۔ 
پاکستان نے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات قبول کرنے کے ساتھ ساتھ روس اور ترکی کے ساتھ مل کر چین کے ہاتھ مضبوط کرنے کی راہ پر گامزن رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ مغربی قوتوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے بھی قابل قبول نہیں۔ بھارت ہر معاملے کو شک اور تشویش کی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہے۔ یورپ بات کو سمجھ رہا ہے۔ امریکا نے بھی زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھنا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں بھارت کا رویہ بہت حیرت انگیز ہے۔ 
چین اب اپنی قوت کو زیادہ کھل کر منوانے کی راہ پر گامزن ہے۔ تازہ ترین مثال ہوا بازی کی ہے۔ دنیا بھر کی اور بالخصوص یورپ و امریکا کی ایئر لائنز کو چینی حکومت نے نوٹس دیا کہ وہ تائیوان کے معاملے میں چینی موقف کو تسلیم کرے۔ تائیوان کو چین اپنا باغی صوبہ قرار دیتا ہے۔ امریکا اور ہانگ کانگ کی تمام ایئر لائنز نے چینی حکومت کا موقف تسلیم کرتے ہوئے اپنی اپنی ویب سائٹس پر تائیوان کو ویسا ہی بیان کیا ہے ‘جیسا چین چاہتا ہے! اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زبردست کے سامنے کوئی اور زبردست آجائے‘ تو اُسے بھی کچھ نہ کچھ معاملات میں سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ 
چین نے تقریباً تین عشروں تک مکمل خاموشی اختیار کرکے اپنی طاقت بڑھانے پر متوجہ رہ کر دنیا کو یہ سبق دیا ہے کہ طاقت کی زبان میں بات اُسی وقت کی جائے جب بات منوانے کی پوزیشن ہو۔ چین اب اپنی بات ڈھنگ سے اور بروقت منوانے کی پوزیشن میں ہے۔ دنیا کو شائستگی پسند نہیں۔ یہ اُسی کو سلام کرتی ہے‘ جو اسے لات مارتا ہے۔ ہر دور میں یہی ہوتا آیا ہے۔ یورپ نے صدیوں ایسا کیا۔ اور اب امریکا نصف صدی سے بھی زائد مدت سے یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ یورپ اور امریکا سے چین تھوڑا مختلف اس لیے ہے کہ اُس نے طاقت کے بے محابہ استعمال سے گریز کیا ہے اور کسی بھی قوم کو محکوم بنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ امریکا خطے کے متعدد ممالک کو چین کے خلاف اکسانے اور بھڑکانے کی بھرپور کوشش کرچکا ہے۔ اس پر بھی چین نے سیخ پا ہونے سے گریز کیا ہے۔ بہت کچھ سہنے اور جھیلنے کے بعد اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی بات بڑی طاقتوں سے بھی ڈٹ کر منواسکے۔ طاقت میں اضافے کا چینی اصول اپناتے ہوئے‘ اگر مغربی طاقتیں بھی خون خرابے سے گریز کریں ‘تو دنیا میں بہت کچھ درست ہوسکتا ہے۔ ضروری تو نہیں لات مارے جانے ہی پر سلام کیا جائے۔ یہ کام باہمی احترام اور خوش دلی کے ساتھ بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved