تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     28-07-2018

ووٹ کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟

انتخابات کا شور تمام ہوا۔ نتائج زیر بحث ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ نتائج حیران کن ہیں۔ کچھ لوگوں کو کچھ ایسے ہی نتائج کی توقع تھی۔ کہیں جشن برپا ہے۔ کہیں صفِ ماتم بچھی ہے۔ سیاست کا کرخت اور بے رحم چہرہ ایسے موقع پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اب کچھ لوگ نتائج تسلیم کریں گے، کچھ اسے دھاندلی قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ دھاندلی کی بات تو انتخابات سے پہلے ہی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ کچھ حلقوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ کچھ سوالات اٹھائے تھے۔ قبل از انتخاب دھاندلی پر ان سطور میں لکھا جا چکا ہے۔ دوران انتخاب دھاندلی کے باب میں حتمی طور پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے کچھ بنیادی چیزوں کی ضرورت ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا رد عمل تو سامنے آ گیا، مگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے باقاعدہ اعداد و شمار یا پھر ایک ایسے وائٹ پیپر کی ضرورت ہو گی، جس میں دھاندلی کی جزئیات تفصیل سے بیان کی گئی ہوں۔ انتخابات ہارنے والی جماعت کی طرف سے عموماً شکوے شکایات تو ہوتے ہی رہتے ہیں، اس لیے معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر سماج کی کچھ دوسری اعتماد اور بھروسے والی قوتوں کا مؤقف بھی دیکھنا ہو گا۔ ان قوتوں میں سول سوسائٹی ہے، جو کافی باخبر اور متحرک ہے۔ انسانی حقوق کی انجمنیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی انجمنیں ہیں، جن کا ریکارڈ اور ماضی بے داغ ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان سب کی طرف سے تفصیلات اور مؤقف سامنے آنے کے بعد ہی انتخابات میں دھاندلی کے موضوع پر اظہار خیال مناسب ہو گا۔ 
ہمارے ہاں یہ جو دھاندلی کا شور ہے، یہ شروع میں دنیا کی ہر جمہوریت کا مسئلہ رہا ہے۔ دھاندلی کی پہلی اور ابتدائی شکل ووٹ خریدنا تھا۔ کچھ سیاست دان جمہوریت کی شروعات سے ہی ووٹ خریدتے آئے ہیں‘ مگر اس سے پہلے وہ یہ کام اپنے پیسے سے کرتے تھے۔ اب انہوں نے یہ کام آپ کے بچوں، اور آپ کے بچوں کے بچوں‘ کے پیسے سے شروع کر دیا ہے۔ سیاست دان آپ کے بچوں یا آپ کے بچوں کے بچوں‘ کے وسائل ووٹ خریدنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ووٹ کی خرید و فروخت کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر صورت حال کو واضح کرنے میں مدد دے گی۔ جب سے ہماری اس دنیا میں جمہوریت بطور نظام متعارف ہوئی ہے، اس کو سماج کے مختلف طبقات اور قوتوں کی سازشوں اور مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ فوجی آمروں یا مسلح سیاسی گروہوں کی طرف سے اقتدار پر قبضہ اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا عمل تو کھلم کھلا دنیا کے کئی ممالک میں دہرایا گیا۔ اسی طرح آمریت پسندوں کی طرف سے جمہوریت کے نام پر فراڈ بھی بہت ہوئے۔ کئی جگہوں پر جعلی ریفرنڈم اور جعلی ووٹوں سے جعلی جمہوریتیں بھی قائم کی گئیں۔ ان واقعات کو جمہوریت کے خلاف شب خون اور کھلے حملے کہا جا سکتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان واقعات پر قابو پا لیا گیا۔ مگر صدیوں کے سفر کے بعد آج بھی کئی ممالک میں جمہوریت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں ایسے ممالک شامل ہیں، جہاں انتخابات تو تسلسل سے ہوتے ہیں، مگر ان انتخابات کے شفاف ہونے پر سوالیہ نشان لگے ہوتے ہیں۔ دنیا میںالیکشن چرانے اور الیکشن فراڈ کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک عام طریقہ ایسے پیشگی اقدامات ہیں‘ جو مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں مددگار ہوں۔ مثال کے طور پر بڑی تعداد میں ووٹروں کا کسی خاص حلقے میں عارضی طور پر سکونت اختیار کرانا۔ یہ طریقہ ان ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے، جہاں شدید غربت ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد پبلک ہائوسنگ میں رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ایک حلقے سے دوسرے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس فراڈ کو روکنے کے لیے بہت سارے ممالک میں کسی حلقے میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ووٹر کا اس حلقے میں انتخابات سے کم از کم چھ ماہ پہلے سے رہائش پذیر ہونا ضروری قرار دیا گیا۔
کئی مالک میں تاریخی طور پر ایسے قوانین اور ضوابط بنائے گئے، جو خاص اقلیتی لوگوں کو حقِ رائے دہی سے محروم کرتے تھے۔ یہ اقدامات تاریخی طور پر اتنے عام تھے کہ کینیڈا جیسی آج کی شفاف جمہوریت میں بھی سن انیس سترہ کا وار ٹائم الیکشن ایکٹ بنایا گیا ہے، جس کے تحت ایک نسلی اور لسانی گروہ ایک عرصے تک ووٹ کے حق سے محروم رہا۔ اگرچہ بعد میں کینیڈا کی جمہوریت نے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ اور کسی حد تک تلافی بھی کی۔ مگر کچھ نا انصافیاں ایسی ہوتی ہیں، جو نا انصافی کا شکار ہونے والوں کے سینے کا زخم بن جاتی ہیں، جن سے ہمیشہ خون رستا ہی رہتا ہے۔ ایسی نا انصافیوں کا کوئی ازالہ کوئی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ 
انتخابات چرانے اور مرضی کے نتائج لانے کے لیے ووٹرز کو ڈرانا دھمکانا، دھونس دھاندلی، تشدد کی دھمکی یا تشدد کا استعمال تو ایسے عام طریقے ہیں ، جو آج بھی دنیا کی کئی جمہوریتوں میں مروج ہیں۔ مگر ان سب پر بھاری اور عام طریقہ ووٹ خریدنا ہے۔ دنیا کی بیشتر جمہوریتوں کو یہ مسئلہ درپیش رہا اور کسی نہ کسی سطح پر آج بھی موجود ہے۔
ووٹ کی خرید و فروخت کے کئی مروجہ طریقے ہیں۔ ووٹ کے عوض کوئی مالی منفعت، نقدی، سامان یا خدمات کی پیشکش یا مستقبل میں روزگار یا کسی فائدے کا وعدہ ووٹ کی خرید و فروخت سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں ووٹ کی خرید و فروخت کا دھندہ سر عام ہوتا تھا۔ کچھ جگہوں پر ووٹ خریدنے کی با قاعدہ دکانیں کھولی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتیں ایسے لوگ بھرتی کرتی تھیں، جو عوام میں جا کر لوگوں سے ووٹ خریدنے کے لیے سودے بازی کرتے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے انگلستان میں بھی ووٹ کو بڑے پیمانے پر جنسِ تجارت سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت انگلستان کی اشرافیہ ووٹ کے لیے تجوریاں کھول دیتی تھی۔ اس ضمن میں نارتھ ہمٹن شائر کی کہانی بہت مشہور ہے، جس میں تین ایرل ایک انتخابی مہم میں شریک ہوئے، جس میں ہر ایک نے ایک لاکھ پونڈ سے زائد رقم ووٹ خریدنے پر خرچ کی۔ یہ اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف کا قصہ ہے۔ آج کے حساب سے یہ رقم کروڑوں میں بنتی ہے۔
اپنے پیسے دے کر ووٹ خریدنا ایک عام سی بات ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اب سیاست دان آپ کی آئندہ نسلوں کے پیسے سے ووٹ خریدتے ہیں۔ جس طرح کسی کو ووٹ کے عوض رقم کی پیشکش کرنا ووٹ کی خرید و فروخت ہے، اسی طرح کسی کو ووٹ کے عوض مستقبل میں پیسہ، مراعات، نوکری، وظیفہ، گزارہ الائونس، یا کسی اور طریقے سے کوئی فائدہ پہنچانے کا وعدہ بھی اگر باریکی سے دیکھا جائے تو ووٹ کی خرید و فروخت ہی ہے۔ جمہوریت سے جڑے قوانین کے اندر اس باب میں ایک بڑا تضاد ہے۔ کسی ایک فرد کو پیسے یا کوئی لالچ دے کر ووٹ لینا تو غلط سمجھا جاتا ہے، مگر ایک پورے طبقے، گروہ، تنظیم یا علاقے سے ایسا کرنا غیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر آپ ایک پورے گائوں سے سڑک، بجلی یا پانی کا وعدہ کر کے ووٹ لیتے ہیں، تو اس میں عام طور پر کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی‘ حالانکہ غور کیا جائے تو اس کے اندر چھپی قباحت صاف نظر آتی ہے۔ مستقبل میں اس گائوں میں جو سڑک بنے گی، پانی دیا جائے گا، یا بجلی آئے گی، یہ سب آپ کے بچوں کے پیسے سے ہو گا۔ ووٹ کی قیمت آپ کا بچہ دیتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا بھر میں نئی ابھرتی ہوئی جمہوریت کو ہر جگہ دھونس، دھاندلی اور انتخابی فراڈ کا سامنا رہا ہے۔ جہاں جمہوریت ایک تسلسل سے چلتی رہی، وہاں اس نے خود کار درستی کے عمل کے تحت ان قباحتوں پر قابو پا لیا۔ آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ سوشل ڈیموکریسی میں ووٹ کا فراڈ ایک قصۂ پارینہ ہے۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک میں جمہوریت کو ابھی تک کئی بنیادی مسائل کا سامنا ہے، جس کا حل الیکشن فراڈ کے طریقوں سے پردہ اٹھاتے رہنا، ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہچانا اور جمہوریت کا چلتے رہنا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved