تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     29-07-2018

شفاف انتخابات

ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کی بالادستی اور مسلمانوںکے حقوق کے تحفظ کے لیے بنا ۔ اس کے حصول کے لیے مسلمانان ِ برصغیر نے کئی عشروں تک زبردست جدوجہد کی۔ لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان میں آباد ہونے کے لیے اپنی گھروں کو خیر آباد کہا۔ مسلسل قربانیوں کے بعد ہمیں انگریزوں کی بالادستی اور ہندوؤں کی مکاری سے نجات حاصل ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے دن سے ہی اس بات کو طے کر لیا گیا کہ پاکستان میں انتقال اقتدار جمہوریت یا انتخابات کے ذریعے ہو گا۔ دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں انتخابات کے ذریعے انتقال ِاقتدار کا تصور موجود ہے اور لوگ حکومت کی ایک ٹرم پوری ہونے کے بعد دوسری مرتبہ حکومت کے قیام کے لیے ووٹ کے ذریعے اپنی اراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ انتقال ِاقتدار کا یہ عمل دنیا بھر کے بہت سے مقامات پر احسن طریقے سے مکمل ہو جاتاہے اور کئی مرتبہ دیکھنے میںآیا ہے کہ سابقہ حکمران جماعت انتخابات کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اقتدار سے محروم ہو جاتی ہے‘ بلکہ پارلیمان میں اس کی نمائندگی میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ انڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہے ‘جہاں پر طویل عرصے تک کانگریس کی حکومت رہی‘ لیکن بتدریج بی جے پی ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھرتی چلی گئی اور اس وقت بی جے پی کا تنظیمی اور سیاسی اثرورسوخ کانگریس کی سطح پر آچکا ہے ‘بلکہ س سے بھی بڑھ چکا ہے ۔
ترکی میں بھی گزشتہ کچھ عرصے سے انتخابات کے نتیجے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور انتخابی عمل کے نتیجے میں ترک حکومت کے داخلی اور خارجی زاویے میں بھی ایک واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کو جب غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی ‘تو ترک عوام نے اس غیر آئینی قدم کو قبول نہ کیا اور جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت کو عوام دباؤ سے روک دیا۔ مصر میں طویل عرصے تک اخوان المسلمین اقتدار سے محروم رہی‘ لیکن بالآخر انتخابی عمل کے نتیجے میں اخوان المسلمین برسراقتدار آگئی‘ لیکن بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان اچھے ورکنگ ریلیشن قائم نہ ہو سکے۔ نتیجتاً اخوان المسلمین کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور تاحال وہاں پر مستحکم حکومت قائم ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ 
پاکستان بھی ایک عرصے سے انتخابی عمل سے گزر رہا ہے‘ لیکن یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بہت سے انتخابات کے نتیجے میں منتخب حکومت کو قائم حکومت کو یا تو اپنی مدت مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا یا ان انتخابات کے نتیجے میں ملک بحرانوں سے دوچار ہو گیا۔ 1970ء میں ہونے انتخابات میں عوامی لیگ کو نمایاں مینڈیٹ حاصل ہوا اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی‘ لیکن عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا نتیجتاً ملک دولخت ہو گیا۔ 1977ء میں ہونے والے انتخابات میں قومی اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان انتخابی نتائج کے حوالے سے بہت زیادہ کشمکش ہوئی اور قومی اسمبلی کے نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا گیا‘ جس کے بعد ملک میں ایک بہت بڑی سیاسی تحریک چلی اور ملک بھر میں ٹکراؤ‘ افراتفری اور انتشار کی ایک کیفیت پیدا ہوئی اور ملک طویل مارشل لاء کی لپیٹ میں آ گیا اورلمبے عرصے تک اسمبلیاں بھی معرض ِوجود میں نہ آ سکیں۔ عوام کی رائے کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف کے سبب ملک سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم ہوگیا۔ 
1985ء میں ملک میں غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے‘ جس کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مدمقابل ایک نیا سیاسی دھڑا منظر عام پر آگیا۔ 1988ء میں انتخابات ہوئے‘ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی‘ لیکن اسمبلیاں فقط دو سال کی مدت پوری کرنے کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار سے محروم ہو گئی۔ 1990ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ کامیاب ہوئی‘ لیکن یہ اسمبلیاں بھی فقط دو سال کی مدت پوری کرسکیں اور 1993ء میں ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور ایک مرتبہ پھر یہ اسمبلیاں بھی اپنا دورانیہ پورا نہ کرسکیں۔ 1997ء میں ایک مرتبہ پھر انتخابات ہوئے۔ اس دفعہ کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کو واضح مینڈیٹ حاصل ہوا‘ لیکن حکومت کی مدت کی تکمیل سے قبل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوئی اور میاں نواز شریف نہ صرف یہ کہ اقتدا ر سے محروم ہوئے ‘بلکہ ایک طویل مدت تک ملک سے باہر جانے پر مجبور ہو گئے۔
2002ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری اور اس کے ساتھ ساتھ خبیر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کو بھی مینڈیٹ حاصل ہوا۔ اس دفعہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔2008ء میں انتخابات ہوئے‘ جس میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ حاصل ہوا‘ اس دفعہ بھی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ 2013ء کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ نواز برسراقتدار آئی‘ لیکن اس دفعہ پاکستان تحریک ِانصاف نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور طویل عرصے تک انتخابی دھاندلیوں کے خلاف دھرنا دیے رکھا۔ پاکستان تحریک ِانصاف کے عمران خان کا یہ اعتراض تھا کہ انتخابات شفاف نہیں ‘بلکہ دھاندلی زدہ تھے اور انہوں نے طاہر القادری کے ہمراہ جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے ایک لمبادھرنا دیا‘ لیکن سیاسی ٹکراؤ کے باوجود اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اسی دوران میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی‘ جس کے نتیجے میں وہ اقتدار سے بھی محروم ہوئے اور بعدازاں اور تاحال وہ جیل میں ہیں۔ 
اسی دوران 2018ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا‘ جس میں پاکستان تحریک ِانصاف کو اکثریت حاصل ہو چکی ہے‘ لیکن ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں انتخابی دھاندلی کی آوازیں شدومد سے اُٹھ رہی ہیں۔ متحدہ مجلس عمل‘ مسلم لیگ ن‘ ٹی ایل پی اور دیگر بہت سی جماعتیں انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے رہی ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے الزام لگا یا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹوں کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور پریزائیڈنگ آفیسر ‘ آر اووزاورڈی آر اووز باقاعدہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے ہیں۔ان الزامات کی توثیق پاکستان تحریک ِانصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے بھی کی ہے‘۔ جن کا یہ کہنا ہے کہ واقعتاً پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ووٹوں کی اکاؤنٹنگ نہیں کی گئی۔اسی دوران ری کاؤنٹنگ کی بہت سی اپیلیں دائر کی گئیں ‘جن کے بعد بہت سے حلقوں کے انتخابی نتائج میں واضح تبدیلی رونما ہوئی اور اس کے بعد ری کاؤنٹنگ کی اپیلوں کو مسترد کرنے کا عمل شروع ہو چکاہے۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے برس ہا برس آوازیں کو اُٹھتی رہتی ہیں‘ لیکن اس کے باوجود یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگوںکی بہت بڑی تعداد کے تحفظات کو دور نہیں کیا جا رہا۔ شفاف انتخابات کروانا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے اور ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر پارٹیوں کو دائیں بائیں کرنا کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ ارباب ِاقتدار کو اس سلسلے میں ایسی پالیسی کو وضع کرنا چاہیے‘ جس کے نتیجے میں انتخابی عمل کی شفافیت پر کسی بھی قسم کی انگلی نہ اُٹھائی جا سکے۔ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹوں کی خالی باکس کو سرعام دکھانا او ر اس کے بعد ووٹوں کی پولنگ ایجنٹوں کے سامنے گنتی میں کوئی امر مانع نہیں ہے ‘ لیکن نا جانے کیوں تاحال یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے‘ تاکہ ہر انتخاب کے موقع پر ایک نئے سیاسی ڈیڈ لاک کی صورت بننے کی بجائے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرکے حکومت کی صحیح معنوں میں تشکیل کی جا سکے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور یہاں پر شفاف انتخابات کے انعقاد میں جو رکاوٹیں ایک عرصے سے حائل ہو چکی ہیں‘ ان کو دور کرنے کے لیے ذمہ دار ادارے اور افراد اپنا کردار ادا کریں اور ذاتی پسند اور نا پسند کی وجہ سے لوگوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved