جمہوریت کے ایک اور رخ بے نقاب ہوا ہے۔ اب کے تھوڑا توانا چہرہ دکھائی دیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ جن میں زندگی کی حرارت برائے نام رہ گئی تھی‘ اُنہیں نئی نسل نے ووٹ کی پرچی کے ذریعے جمہوریت کی دنیا سے تڑی پار کردیا ہے‘ جن کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون گرم بھی ہے اور زندگی سے معمور بھی اُن کا سامنے آنا اور کچھ کر دکھانے کے عزم کو عمل سے ہم کنار کرنے کی منزل سے قریب تر ہو جانا ‘خوش آئند ہے۔
بدھ کی پولنگ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی نے ملک میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ اہلِ وطن حیرت اور مسرّت کے ملے جلے جذبات سے سرشار ہیں اور دوسری طرف پڑوس میں تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ کابل اور تہران نے اب تک زیادہ حیران کن ردعمل ظاہر نہیں کیا‘ تاہم نئی دہلی ضرورت اور گنجائش سے کئی قدم آگے جاکر شکوک و شبہات اور تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان کا وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنا ‘نئی دہلی کے پالیسی میکرز اور سیاست دانوں سے ہضم نہیں ہو پارہا۔ اب یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے کہ عمران خان کو ملک کی منتظمہ کے متوقع سربراہ کی حیثیت سے قبول یا ہضم کرنا نئی دہلی کے لیے مشکل مرحلہ کیوں ہے۔ عمران خان کی شخصیت میں اعتماد اور ولولہ زیادہ ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں زیادہ کھل کر بات کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اُن سے کوئی بھی بات منوانا آسان نہ ہوگا۔ کسی بین الاقوامی فورم پر اُن کی موجودگی الگ سے محسوس کی جائے گی۔
ایوانِ اقتدار‘ تحریکِ انصاف کی آمد پر بھارت کے سیاست دانوں میں کھلبلی یوں بھی مچی ہے کہ عمران خان کو وہ ایک عام کرکٹر سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے اور آج وہ وزیر اعظم پاکستان بننے کو ہے۔ گزشتہ حکومت کی ناکامی پر بغلیں بجانے والے بھارتی سیاست دان عمران خان کی انتخابی فتح پر پریشان و سیخ پا ہیں۔ بعض نے تو ردعمل کے اظہار میں انتہا کردی ہے اور دِل کی تمنّا زبان پر لے آئے ہیں۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم پی سبرامنیم سوامی کہتے ہیں کہ پاکستان کے چار ٹکڑے ہونے چاہئیں اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کوئی بھی اچھا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے! سبرامنیم سوامی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان میں منتخب حکمران کٹھ پتلی ہوا کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی خود کو کٹھ پتلی تسلیم کرتا ہے اور کوئی اس معاملے میں آنا کانی سے کام لیتا ہے۔ مرکزی وزیر آر کے سنگھ کہتے ہیں کہ عمران خان پر ''دستِ شفقت‘‘ اور آنے سے زیادہ لائے جانے کا تاثر نمایاں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ طے شدہ راستے سے ذرا سا ہٹنے اور انحراف کرنے پر بساطِ حکومت لپیٹ دی جائے! سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کہتے ہیں کہ بھارت سے متعلق پاکستانی پالیسیوں میں کوئی خاص اور جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
بھارت کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچنا غیر فطری اور غیر متوقع نہیں۔ عمران خان اپنے کسی بھی پیش رَو کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور پرعزم ہیں۔ اُن کے پاس نیا ایجنڈا ہے۔ کرپشن کے خلاف کھڑے ہوکر اُنہوں نے قوم کو اُمید کے ساتھ زندہ رہنے کی لگن دی ہے۔ نئی نسل کو ملک و قوم کے لیے متحرک رہنے کا سبق بھی عمران خان اور ان کی پارٹی ہی نے دیا ہے۔ ہر جماعت میں یوتھ ونگ ہوا کرتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف پوری کی پوری یوتھ ونگ ہے۔ یہ سب کچھ بہت حد تک بھارتی عزائم کے خلاف بھی جاتا ہے۔ بھارت میں عمران خان کے کاروباری مفادات بھی نہیں۔ ایسے میں اُن کا کسی بھی اعتبار سے بلا جواز طور پر بھارت کی طرف لپکنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
قوم نے بیلٹ بکس کی مدد سے ایک نئے اور پُرجوش جن کو بوتل سے باہر نکالا ہے۔ اب قوم ایک مہربانی اور کرے۔ اس جن کے کاندھوں پر بہت زیادہ ذمہ داریاں نہ لادے۔ عمران خان کرکٹ کی دنیا سے سیاست کی دنیا میں آئے ہیں‘ مگر بہر حال ہیں‘ تو انسان ہی۔ اُنہیں جادوگر سمجھا جائے‘ نہ جن۔ جو کچھ نصف صدی سے بھی زائد مدت میں بگڑا ہے‘ اُسے راتوں رات درست کرنے کی راہ پر اُنہیں بزور گامزن نہ کیا جائے۔ اچھا تو یہ ہے کہ وہ امیدوں اور توقعات کے بوجھ تلے یہ کہنے پر مجبور نہ ہوں کہ ؎
بوجھ وہ سَر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے!
ایمان کی تو یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سامنے جو بھی ٹاسک ہے ‘وہ پہاڑ کا سا ہے۔ ایک زمانے کے ترسے ہوئے لوگ راتوں رات بہت سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوامی توقعات پر پورا اُترنے کے معاملے میں عجلت پسندی خرابیوں کا گراف بلند کرے گی۔ ایک طرف بھارت سے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف افغانستان بھی آسانی سے رام ہونے والا نہیں‘ اگر ہم بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ہیں ‘تو اس عیب سے افغانستان بھی پاک نہیں۔ رہا بھارت تو وہ کب بڑی طاقتوں کا حاشیہ بردار نہ تھا؟ علاقائی اور عالمی سیاست کی بساط پر سنبھل سنبھل کر چال چلنا جتنا ہمارے لیے مشکل ہے اُتنا ہی اوروں کے لیے بھی دشوار ہے۔ یہ تمام عوامل اس امر کے متقاضی ہیں کہ چند روز بعد تشکیل پانے والی حکومت سے ابتدائی مرحلے میں تارے توڑ کر لانے‘ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی فرمائش نہ کی جائے۔
دو عشروں کے دوران قوم سخت جاں گُسل مراحل سے گزری ہے۔ بہت کچھ داؤ پر لگا ہے اور بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔ 2008ء اور 2013 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومتوں نے بھی اطمینان بخش حد تک ڈلیور نہیں کیا اور اِس کے نتیجے میں خرابیوں کا گراف مزید بلند ہوا۔ قوم نے ان دو عشروں کے دوران خدا جانے کیا کیا جھیلا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کو شاباش ملنی چاہیے کہ اُن پر قیامت گزر گئی‘ مگر وطن سے محبت اُن کے ضمیر اور خمیر کا حصہ رہی۔ اُن کی اولو العزمی اور ثابت قدمی کو سلام۔
قوم نے آزمائے ہوؤں کو آزمانے سے گریز کیا ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اور یہ بڑی تبدیلی بہت کچھ جھیلنے کے بعد واقع ہوئی ہے۔ اس راہ میں کچھ بھی آسان نہ تھا۔ اب آسانیوں کے درشن ہوئے ہیں ‘تو مشکلات کے زمانے کو ذہن سے حذف نہ کیا جائے۔ ؎
جو فقط صبح سے واقف ہیں اُنہیں کیا معلوم
جاں سے ہم گزرے ہیں تب رات ڈھلی ہے یارو
خرابی کے دو عشروں کے دوران‘ جنہوں نے سَو عذاب سہے ہیں‘ اُنہیں اب کچھ ملنا چاہیے‘ کچھ نہ کچھ تلافی کی جانی چاہیے۔ جمہوریت کی سطح پر رونما ہونے والی مثبت تبدیلی کے فرحت بخش اثرات میں اُن کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے‘ جو ملک کی سلامتی و بقاء کے حوالے سے کئی بار انتہائی اعصاب شکن مراحل سے گزرے ہیں۔ سیاسی رگوں جوان و گرم خون شامل ہوا ہے‘ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سَو خرابیاں جھیل کر اس تبدیلی کی راہ ہموار کرنے والوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے‘ جس کی بنیاد پر کسی کو یہ کہنا پڑے کہ ؎
کھلے ہیں پھول‘ بسی ہے فضاء میں خوشبو بھی
مگر وہ بات نہیں ہے ہوا کے لہجے میں