الیکشن 2018ء کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ عمران خان کی تحریک انصاف وفاقی حکومت بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا‘ جہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا دوبارہ قیام یقینی ہے‘ کے علاوہ پنجاب میں بھی نواز لیگ کے تقریباً مساوی 123 نشستوں کے ساتھ تحریکِ انصاف حکومت سازی کے لئے جیتنے والے آزاد امیدواروں سے رابطے کر رہی ہے۔ 25 جولائی کی رات سے الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد بالخصوص شہری علاقوں میں درمیانے طبقے کے بہت سے نوجوانوں کا جشن دیکھا گیا۔ تاہم عمومی جوش و خروش بڑی حد تک محدود تھا۔ نہ صرف ہارنے والی مقامی جماعتوں بلکہ بین الاقوامی مبصرین اور میڈیا گروپس کی جانب سے بھی دھاندلی کے الزامات کے بعد انتخابات کی ساکھ خاصی مجروح ہو چکی ہے۔ مقامی اور غیر ملکی حلقوں کی جانب سے پولنگ سے قبل اور اس کے دوران کچھ قوتوں پر تمام تر انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ ان اختلافات کی وجوہات میں خارجہ پالیسی بالخصوص ہندوستان کے ساتھ تعلقات‘ سی پیک کے ٹھیکے‘ داخلی سکیورٹی پالیسی اور اختیارت پر اختلافات جیسے امور شامل تھے؛ تاہم انتخابات کے نتائج کو سراسر دھاندلی کا نتیجہ قرار دینا بھی درست نہیں۔ تحریک انصاف کا حقیقی ووٹ بینک بلا شبہ سرگرم تھا‘ جس میں مراعات یافتہ درمیانے طبقات کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور سماجی پسماندگی کے شکار نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ تا دمِ تحریر مخالف جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کا شور جاری ہے اور کئی حلقوں میں ری کائونٹنگ بھی ہو رہی ہے؛ تاہم نتائج میں کوئی بڑی تبدیلی اب ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح مبینہ دھاندلی کے خلاف 'آل پارٹیز کانفرنس‘ بھی بلائی گئی ہے جو شروع سے ہی تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہے۔ میرے خیال میں فوری طور پر ایسی کوئی تحریک چلانے کی سکت کسی سیاسی جماعت میں نظر نہیں آتی۔
عمران خان کی سیاسی لفاظی زیادہ تر 'کرپشن‘ کے مسئلے پر مرکوز رہی ہے‘ جسے وہ تمام تر دوسرے مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہے۔ اسی ایشو کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے انتہائی مال دار مخالفین‘ بالخصوص نواز خاندان پر تابڑ توڑ حملے کرتا رہا ہے۔ اگر ہم حالیہ عرصے میں دائیں بازو کے دوسرے پاپولسٹ مظاہر‘ مثلاً ہندوستان میں نریندر مودی کے ابھار پر غور کریں‘ تو وہاں بھی کرپشن کو ہی بنیادی ایشو اور درمیانے طبقات کو سیاسی حمایت کی سماجی بنیاد بنایا گیا ہے۔ در حقیقت فلپائن میں روڈریگو ڈٹرٹے‘ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ‘ ترکی میں طیب اردوان‘ ہندوستان میں نریندر مودی اور پاکستان میں عمران خان جیسے دائیں بازو کے پاپولسٹ رہنمائوں کے ابھار میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔ ان تمام رجحانات کی لفاظی میں 'تبدیلی‘ کی بات بھی سرِ فہرست رہی ہے‘ جسے کسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں کچھ وقتی پذیرائی بھی ملی؛ تاہم کرپشن کے خاتمے اور تبدیلی کے تمام تر نعروں کے باوجود تحریک انصاف میں بد عنوان اور موقع پرست عناصر (''الیکٹیبلز‘‘)‘ قبضہ گروہوں اور انتہائی امیر مافیا‘ سرمایہ داروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میرے خیال میں ڈیپ سٹیٹ کی ایما پر کالے دھن کے ان داتائوں سے وابستہ کارپوریٹ میڈیا کی بھرپور حمایت بھی تحریک انصاف کو حاصل رہی‘ جس کی بنیاد پر شریفوں اور دوسرے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک مسلسل اور تند و تیز مہم چلائی گئی؛ تاہم مختلف طبقات کے اِس ٹکرائو میں بے روزگاری‘ علاج اور تعلیم جیسے کروڑوں عام لوگوں کے حقیقی مسائل کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا‘ اور پس پشت ڈالا گیا۔ علاوہ ازیں عمران خان نے انڈیا مخالفت اور قومی شائونزم پر مبنی لفاظی کے ذریعے درمیانے طبقات اور سماج کے زیادہ رجعتی اور پسماندہ حصوں کو متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اسی طرح وہ لبرل ازم اور مذہبیت کے اس امتزاج اور ملغوبے کو بھی استعمال کرتا رہا‘ جو تحریک انصاف کا خاصا ہے اور جو یہاں کے درمیانے طبقات کی متذبذب نفسیاتی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے۔
جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو ایک ایسا ملک جس کی دو تہائی معیشت کالے دھن پر مبنی ہو وہاں بدعنوانی اوپر سے نیچے تک معیشت‘ سماج اور سیاست کا ناگزیر جزو بن جاتی ہے۔ یوں ایک طر ح سے یہ کرپشن اِس بیمار سرمایہ دارانہ نظام کے وجود کی نہ صرف ناگزیر پیداوار بلکہ شرط ہے جس نے کئی دہائیوں سے اِس بحران زدہ معیشت کو مسمار ہونے سے بچا رکھا ہے۔ نامیاتی طور پر بحران زدہ اور کرپٹ نظام میں کرپشن کے خاتمے کی بات یا کوشش بذات خود ایک ناقابلِ حل تضاد ہے۔
نواز لیگ نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اگرچہ لوڈ شیڈنگ کے اذیت ناک مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا‘ کئی میگا پروجیکٹس مکمل کئے‘ افراطِ زر کو خاصا کم رکھا اور معاشی اصلاحات کی کوشش بھی کی لیکن قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی بھاری خساروں سے دوچار اِس نظامِ معیشت کا بحران اتنا شدید ہے کہ آبادی کی وسیع تر اکثریت کی زندگیوں میں کسی بڑی سماجی و معاشی تبدیلی اور ترقی کی گنجائش کم و بیش نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعد ازاں جب ریاست کے کچھ طاقتور حصوں سے تضادات پھٹ پڑے تو سرکاری دھونس کے سامنے نواز لیگ کی موروثی قیادت تقسیم کا شکار ہو گئی۔ ضیا آمریت کی کوکھ سے جنم لے کر ایک عرصے تک ریاستی آشیرباد سے چلنے والی مسلم لیگ‘ جو بنیادی طور پر بڑے سرمایہ داروں اور درمیانے تاجر طبقات کی سیاسی روایت رہی ہے‘ کبھی مزاحمت کی جماعت رہی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ نواز شریف اور اُس کی بیٹی اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اگرچہ ایسی جارحانہ لفاظی کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے جو مروجہ سیاست کی حدود سے خاصی تجاوز کر رہی تھی‘ کسی حد تک عوامی مسائل پر بھی بات کی لیکن انہوں نے دانستہ طور پر طبقاتی سوال کو نہیں چھیڑا۔ چونکہ آخری تجزیے میں وہ سرمایہ دار طبقے یا اس کے ایک حصے کے مفادات کی نمائندگی کر رہے تھے‘ لہٰذا اپنے مخالفین ہی کی طرح طبقاتی تضادات اور ایشوز کو ہر حد تک دبائے رکھا۔ 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے نواز شریف کی 'اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم‘ میں یہ بنیادی کمی تھی جس کی وجہ سے یہ کوئی بہت بڑا مومینٹم حاصل نہ کر سکی اور آبادی کے ایک حصے تک محدود رہی۔ مزید برآں اسی دوران شہباز شریف‘ ڈیپ سٹیٹ سے معاہدے اور سمجھوتے کے لئے سرگرم رہا۔ اِسی ڈیل کے تحت یا اس کی کوشش میں نواز شریف اور مریم نواز کے استقبال کے لئے نکلنے والے جلوسوں کو بھی ہر ممکن حد تک 'بے ضرر‘ بنایا گیا۔ یوں متضاد سمتوں میں گامزن منقسم قیادت نے نواز لیگ کی تمام تر ایجی ٹیشن اور انتخابی مہم کو بری طرح مفلوج کر دیا۔ شہباز شریف اپنی انتخابی مہم میں میگا پراجیکٹوں کا جو 'ڈویلپمنٹ کارڈ‘ کھیلنا چاہ رہا تھا عوام کی اکثریت کے لئے اس کی کشش بہت محدود تھی۔
بہرحال اب وزیر اعظم بننے کی عمران خان کی سلگتی ہوئی خواہش اگلے کچھ دنوں میں حقیقت بننے جا رہی ہے۔ تحریک انصاف دائیں بازو کی ایک بورژوا‘ بلکہ لمپن بورژوا پارٹی ہے جس کا رہنما بوناپارٹسٹ رجحانات کا حامل ہے اور جس کی سماجی بنیاد مذہبی اور لبرل شہری درمیانے طبقات میں ہے۔ کئی حوالوں سے یہ آج کی نواز لیگ کے نواز مریم دھڑے سے کہیں زیادہ دائیں بازو کی جماعت ہے جس کے ''نظریات‘‘ ایسے تضادات پر مبنی ہیں کہ آج تک کوئی انہیں واضح طور سے بیان نہیں کر پایا ہے۔ درحقیقت درمیانے طبقے کی فرسٹریشن سے جنم لینے والے تمام سیاسی رجحانات کئی حوالوں سے ایسی ہی نظریاتی کنفیوژن پر مبنی ہوتے ہیں۔ بدھ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنے ٹیلیوژن خطاب میں غریبوں کی زندگیوں میں بہتری لانے‘ کرپشن کے خاتمے‘ دس ارب درخت لگانے‘ ہیلتھ کارڈ‘ اگلے پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے اور پچاس لاکھ نئے گھر بنانے کی باتیں کی ہیں۔ اگرچہ یہ تقریر بھی متضاد نوعیت کے وعدوں پر مبنی تھی جس میں بیک وقت غریبوں کی حالت میں بہتری کی بات اور ساری پالیسیاں 'بزنس کمیونٹی‘ (سرمایہ داروں) کو ساتھ ملا کر بنانے کا عندیہ موجود تھا لیکن بالفرض یہ تمام تر وعدے پورے ہو جائیں تو بھی اِس سماج کی محرومی اور بدحالی جتنی گہری ہے اس کے پیش نظر کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑنے والا۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملکی معیشت انتہائی تباہ کن بحران کا شکار ہے۔ جس سے وقتی طور پر نکلنے کا واحد راستہ تحریک انصاف کے پاس بھی سامراجی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (جاری)