الیکشن کمیشن کو زیادہ با اختیار بنانا غلطی تھی: ایاز صادق
سپیکر نیشنل اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن کو زیادہ با اختیار بنانا غلطی تھی‘‘ اور اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے ہم نے ہی بنایا ہو اور وہ ہمیں ہی گھاس نہ ڈالے‘ کیونکہ جب سے شیر نے دھاڑنا بند کیا ہے‘ وہ گوشت کی بجائے گھاس پر لگ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن کمیشن کو اوقات سے زیادہ طاقت دے دی گئی‘‘ اگرچہ ہماری اپنی اوقات میں بھی بہت فرق آ چکا ‘ جس کا ذمہ دار صرف اور صرف الیکشن کمیشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اب ملنے سے بھی انکار کیا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ میں نے مل کر شکریہ ہی ادا کرنا تھا کہ نتیجہ ہماری بھی اوقات سے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے وقت دینے پر ٹال مٹول کی جا رہی ہے‘‘ کہ اس کی یہ مجال؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارے ووٹ 6 بجے کے بعد ضائع کئے گئے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''ہمارے ووٹ 6 بجے کے بعد ڈبل ٹک کر کے ضائع کئے گئے‘‘ جبکہ ہمارا اعتراض ڈبل ٹک کرنے پر نہیں‘ بلکہ چھ بجے پر ہے ‘کیونکہ وہ ڈبل ٹک کرنے کے لیے انتہائی نا مناسب وقت تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''قانون کے مطابق پورے حلقے کی دوبارہ گنتی کی جانی چاہئے تھی‘‘ لیکن یہ بھی اچھا ہی ہوا‘ کیونکہ پورے حلقے کی دوبارہ گنتی کی جاتی‘ تو میں نے اس سے بھی زیادہ ووٹوں سے ہارنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں الیکشن ٹربیونل جائوں گا‘‘ اور اگر وہاں بھی ڈر گیا‘ تو آرام سے گھر چلا جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''آخری حد تک جائیں گے‘‘ اور ہماری حد کہیں ختم نہیں ہوتی‘ اس لیے یہ آہ و زاری ہمیشہ ہی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''بڑے سمارٹ طریقے سے اس الیکشن میں دھاندلی کی گئی ہے‘‘ اور ہم جو اس فن کے ماہر تھے‘ ہمیں بھی حیرت میں ڈال دیا۔ آپ اگلے روز سیشن کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارا مینڈیٹ زبردستی چھینا گیا: مصطفیٰ کمال
پی ایس پی کے چیئر مین مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ''ہمارا مینڈیٹ زبردستی چھینا گیا‘‘کیونکہ یہ پیار سے بھی چھینا جا سکتا تھا‘ جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا‘ بلکہ اگر پیار سے کہا جاتا تو ہم خود ہی پیش کر دیتے‘ چھیننے کی نوبت ہی نہ آتی۔ انہوں نے کہا کہ ''نتائج تسلیم نہیں کرتے‘‘ اگرچہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا‘ لیکن کہنے میں کیا ہرج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک ِانصاف کو جیتنے کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا‘‘ سو! ہم نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جیت کا یقین دلایا‘ حالانکہ انہیں بھی ہمیں ہارنے کا یقین دلانا چاہئے تھا‘ جس سے ان کی اخلاقی پستی ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پولنگ سٹیشن کو پریزائیڈنگ افسران کے ساتھ دوسرے لوگوں نے نکالا‘‘ حالانکہ وہ بیچارے رزلٹ کا اندازہ لگا کر خود ہی باہر نکل گئے تھے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
میرے خاندان نے جو تکالیف اٹھائیں
لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتیں: حسین نواز
مستقل نا اہل اور سزا یاب سابق وزیراعظم کے مفرور صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''میرے خاندان نے جو تکالیف اٹھائیں‘ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتیں‘‘ بالکل اسی طرح جتنا مال ہم نے بنایا ہے‘ نہ اس کا کوئی حساب ہے اور نہ ہی وہ لفظوں میں بیان ہو سکتا ہے‘ جس کے مقابلے میں یہ تکالیف کوئی اہمیت نہیں رکھتیں؛ البتہ ابھی باقی بھی کئی کیس ہیں‘ جن کے نتیجے میں مزید تکالیف بھی آنے کا خدشہ ہے‘ لیکن اس وقت تک ہم ان کے عادی ہو جائیں گے‘ الحمد للہ! انہوں نے کہا کہ ''تکالیف کے باوجود ووٹ کی عزت پر کوئی سمجھوتہ ہوا ہے‘ نہ کیا جائے گا‘‘ اگرچہ ووٹ کو عزت دو کی قلعی‘ اچھی طرح کھل چکی ہے اور سمجھوتے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ '' اس کے باوجود نواز جھکے ہیں‘ نہ شہباز شریف‘‘ اگرچہ شہباز شریف کے بارے یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب کچھ شعر و شاعری:
یوں سرفرازی سے اپنی خاک اڑائیں گے کہاں
کُوئے ناکامی سے نکلے بھی تو جائیں گے کہاں (محمد اظہار الحق)
تم ہر اک بار اپنے لہجے میں
اتنے پتھر کہاں سے لاتے ہو
آج شدت کی پیاس ہے مجھ میں
آج مجھ میں سراب اتریں گے (ث سے ثبین)
ساری عمر منانا ہے
عشق ہے‘ یہ تہوار نہیں (الیاس بابر اعوان)
دیوار کس طرف گئی‘ در کسی طرف گیا
سیلاب میں پتا نہیں‘ گھر کس طرف گیا
جب جان سے گئے ہیں تو پھر اِس سے کیا غرض
دستار کس طرف گئی‘ سر کس طرف کیا (قیصر عباس قیصرؔ)
جتنا چھڑکا ہے تو نے زخموں پر
اتنا کھایا نہیں نمک تیرا (زبیر قیصر‘ اٹک)
ایک کردار کے نکالنے سے
چاشنی بڑھ گئی کہانی کی (امجد نذیر‘ میلسی)
جب سے ہُوا ہے دل کا نقصان کچھ زیادہ
آنے لگے ہیں گھر میں مہمان کچھ زیادہ
ہر شخص کر رہا ہو جب بھی علاج‘ سمجھو
مرنے کے ہو گئے ہیں امکان کچھ زیادہ (ڈاکٹر شاہد رحمن)
آج کا مطلع
بجلی گری ہے کل اسی اجڑے مکان پر
رونے لگوں کہ ہنس پڑوں اس داستان پر