تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-07-2018

قسم ہے زمانے کی

قسم ہے زمانے کی/بے شک انسان خسارے میں ہے/مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے/جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی
''عمران خان اپنی خوبی اور کمالات کی وجہ سے نہیں جیتے۔ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں‘ ان سے مجھے کسی بڑے کارنامے کی بھی امید نہیں‘‘۔
کبھی سان گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ شائستہ نوجوان کسی دن ایسی ذہنی اذیت کا سامان کرے گا۔ اتوار کی شام دنیا ٹی وی کے پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ میں بے شک یہ الفاظ کہے تھے۔ ہاں! مگر کچھ اس سے پہلے بھی کہا تھا اور کچھ اس کے بعد بھی۔ وہ جو ہمیشہ دہراتا رہتا ہوں کہ پولیس کو وہ ضرور بہتر بنا دے گا۔ سول سروس‘ سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی۔ مستقل طور پہ لیکن عرض کرتا رہتا ہوں کہ 2013ء میں برسراقتدار آنے کے بعد‘ پختون خوا میں‘ خون آشام پٹوار کا مسئلہ فوراً ہی اس نے حل کردیا تھا۔ بلدیاتی اداروں کی تعمیر کی اور ایک ارب درخت گاڑنے کا خیرہ کن معرکہ سر کیا۔عالمی ادارے جس کی تصدیق کرتے ہیں۔ تمام مخالف جس کی تکذیب۔ اکثر اخبار نویس جس کے باب میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اس پورے مؤقف میں سے‘ دو جملے اٹھا کر‘ سوشل میڈیا کے ایک ایسے گروپ میں مشتہر کرنے کا مطلب کیا ہے‘ خاص مقصد کے لیے جو بنایا گیا۔ جی چاہا کہ اسے فون کروں اور پوچھوں: ''بروٹس تم بھی؟‘‘
ہم سوشل میڈیا کے زمانے میں زندہ ہیں۔ اس کے انعامات اور عوارض سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں جینا ہے۔ کسی طرح بھی اس سے مفر نہیں لیکن ایک ذرا سی احتیاط؟ ایک ذرا سی سلیقہ مندی؟ کم از کم ذاتی دوستوں کو ہی معاف کردیا جائے۔ اچھا بھلا آدمی جذبات سے اس قدر مغلوب کیسے ہوگیا؟کہ اس نے یہ حرکت کی۔ وہ تاثر دینا چاہا‘ جو کہنے والے کا مقصود نہ تھا۔ آخر کیوں؟ کیا اس طرزِ فکر کی جڑیں سنسنی پھلانے کی آرزو میں پوشیدہ ہیں یا فرقہ واریت میں؟ 
ٹھیک اسی وقت ایک دوسری ویب سائٹ پر بحث جاری تھی : تحریک انصاف کی تاریخ اگر لکھی جائے تو اس خاکسار کا ذکر کس طرح ہوگا۔ ایک صاحب نے اس بحث کا آغاز کیا۔ انہوں نے لکھا کہ دوسروں کی طرح اس اخبار نویس کا وہ مذاق اڑایا کرتا کہ عمران خان کبھی ایک قومی رہنما بن کے ابھر سکتا ہے۔ اب وہ اس پر شرمندہ ہے اور معافی مانگنے کا خواہش مند۔
پھر خراج تحسین پیش کرنے والوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ ایسی عظمت اور ایسے کمالات‘ انہوں نے منسوب کیے کہ شرمسار اور خفیف‘ اس بحث کے تمام ہونے کی دعا مانگتا رہا کہ بیچ میں بھائی صاحب ٹپک پڑے۔ 
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 
کون سی تاریخ اور کون سا کارنامہ؟ اخبار نویسوں کے تجزیے درست ہوتے ہیں اور نادرست بھی۔آدمی کی کوئی ذاتی صلاحیت ہے اور نہ کمال۔بندے سے جو کام پروردگار لینا چاہے ۔اتنی بہت سی غلطیاں کیں تو ایک تخمینہ صحیح ہونے پر ناز کیسے کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک کرم فرما نے یہ کیا کہ پروفیسر احمد رفیق اختر سے عمران خان کے مراسم کی نوعیت پر ''قولِ فیصل‘‘ رقم کرنے کا اعلان فرما دیا۔ صوفی اور کھلاڑی کی تمام ملاقاتوں میں خاکسار موجود تھا۔ سنی سنائی پر ایسا آدمی‘ حتمی رائے کیونکر دے سکتا ہے‘ جو شاید ایک آدھ گفتگو ہی کا شاہد ہو۔ولے بخیر گزشت‘ عنایت فرمائی کہ حکم صادر نہ کیا ۔ 
جی چاہتا ہے کہ 22 برس کی پوری روداد کبھی لکھ دوں‘ جو عمران خان کے ساتھ بتائے۔ ایک اخبار نویس کی زندگی میںایسی فرصت مگر کہاں۔ ہر روز جسے اخبار پڑھنا ہوتے ہیں‘ ٹی وی دیکھنا ہوتا ہے اور تازہ موضوعات پہ بات کرنا ہوتی ہے۔
رو میں ہے رخشِ عمر‘ کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
پچھلے دنوں کئی بار یہ سوچا کہ صحافت سے دستبردار ہو جائوں‘ کم از کم ٹیلی ویژن ہی سے۔ پچاس برس اس دیار میں دل جمعی سے بسر کیے ہیں۔ کبھی کبھی پیالہ اب چھلکنے لگتا ہے۔سوشل میڈیا اور اخبارات میں مبصرین کرام کی ایک نئی‘ عظیم الشان کھیپ ابھر آئی ہے۔ کبھی ایسی تحسین سے واسطہ پڑتا ہے کہ ہاتھ جوڑ دینے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی ایسی تنقید اور مذّمت سے کہ حیرت ہوتی ہے۔
جو ستم ہے بے سبب ہے‘ جو کرم ہے بے طلب ہے
مجھے یہ بھی ہے گوارا‘ مجھے وہ بھی ہے گوارا
اس ناچیز کو تو گوارا نہیں۔ لیکن پھر راستہ کیا ہے؟ قرآنِ کریم کی آیت مبارکہ یاد آئی: تمہیں صبر کیسے آئے‘ تم جانتے جو نہیں۔ پھر وہ گرہ کشا فرمان: ایک چیز سے تمہیں کراہت ہوتی ہے‘ حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر چھپا ہوتا ہے۔ ایک چیز کو تم پسند کرتے ہو‘ حالانکہ اس میں تمہارے لئے شرپوشیدہ ہوتا ہے۔
صبر! صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں مگر بے بسی کاصبر یا صبرِ جمیل؟
سوچا تو اس خیال نے دل میں پڑائو کیا؛ اگرچہ پورا صبر آدمی کبھی نہیں کر سکتا۔ مگر اس کی تمنااور کوشش بھی تو ایک انعام ہے۔
کچھ حاسدینِ کرام جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ تیزی سے ترقی کے مرحلے طے کرنے کے کچھ بے تاب آرزومند۔ ان سب کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔
ایوانِ وزیراعظم میں‘ وزیراعظم کے فرزند حسین نواز نے یہ کہا: 2013ء کے الیکشن میں‘ کردارکشی کی مہم کے ہنگام‘ آپ نے جب میری بہن کا دفاع کیا تو میری آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ پیپلزپارٹی کی خواتین رہنما ‘ محترمہ مریم نواز کے بارے میں نازیبا گفتگو پہ تلی رہتیں۔ ایسی ہی ایک بحث کے دوران‘ عرض کیا کہ خاندانوں کے نجی معاملات پر‘ گفتگو ہوگی تو ایسا فساد پھیلے گا کہ کوئی بچے گا نہیں۔ حمزہ شہباز کی شادی کا قصّہ نیا نیا تھا۔ مزے لے لے کر لوگ باگ تفصیلات بیان کرتے۔ اس خطاکار نے انکار کردیا۔ عرض کیا کہ یہ سیاست کا موضوع نہیں‘ سو فیصد نجی معاملہ ہے۔ کچھ لوگ بہت ''قیمتی‘‘ معلومات فراہم کرنے پہ اصرار کرتے رہے۔ طبیعت میںکراہت کی لہر بڑھتی گئی۔ 
پیپلزپارٹی سے زخم کھانے کے باوجود‘ نون لیگ نے عمران خان کی کردارکشی کا سلسلہ جاری رکھا‘ہیجان میں حواس کام نہیں کرتے۔ عقل مہرباں نہیں ہوتی۔ پھر ایک دن اس عاجز کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔
حسین نواز کااصرار تھا کہ میں ان کی ہمشیرہ محترمہ سے مل لوں۔ گزارش کہ ٹریفک کے غیرمعمولی اژدھام کی وجہ سے‘ دوگھنٹے ضائع ہوگئے۔ مجھے کالم لکھنا ہے‘ پھر کسی وقت حاضر ہو جائوں گا۔یہ ملاقات نہ ہو سکی۔ غالباً اس لیے کہ اخبار نویس نون لیگ کے باب میں اپنے مؤقف پہ قائم رہا۔ عنایات کا نہیں‘ وہ دلیل کا طالب تھا۔ اب محترمہ کے میڈیا سیل نے یلغار کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔ اب گالیوں کے جواب میں آدمی کیا کرے ۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب بیہودہ الزامات اور غلیظ گالیوں سے واسطہ نہ پڑتا ہو۔
جی ہاں! تحریک انصاف کے نوجوانوں کا حال بھی یہی ہے۔ شریف خاندان اور اس کے حامیوں پر ان کا طرزِ عمل بھی ٹھیک یہی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ گالیاں بکنے والے دو لشکر‘ اس طرح آمنے سامنے ہوں ہمہ وقت۔ ہفتے میں سات دن‘ ہر روز 24 گھنٹے۔اور اس پر وہ نازاں بھی ہوں۔
دشنام طرازی کے ایسے مقابلوں میں کبھی کوئی فاتح تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ ایک دن وہ دونوں نڈھال پڑے ہوں گے۔ دونوں اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے۔وقت کا قہرماں کارواں گزر جائے گا۔ ان پہ ترس کھانے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ہاں! شاید کچھ عبرت پکڑنے والے۔
آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
برسات کی اس دل گداز شام میں بہت دیر تک سوچا‘ بہت دیر تک غور کیا۔ حاصل یہی ہے کہ آدمی کو اپنا دامن بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے سوا‘ کچھ بھی وہ کر نہیں سکتا۔ شبلی کے پھول کا شکریہ‘ زخم گہرا نہیں کوئی دن میں بھر جائے گا۔ سبق سیکھ لیا ہے۔ یاد رہا تو شاید کہ نتیجہ خیز ہو‘ شاید کہ ثمر بار ہو۔کون جانتا ہے آنے والے کل کے بارے میں کون جانتا ہے۔
قسم ہے زمانے کی/بے شک انسان خسارے میں ہے/مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے/جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved