یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب میاں نواز شریف پنجاب میں صوبائی وزیر تھے اور راوی ہیں جناب جاوید ہاشمی (حال ’’مقیم‘‘ پاکستان تحریک انصاف) اپنی کتاب ’’ہاں میں باغی ہوںــ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ چودھری شجاعت حسین کی ہمشیرہ کی شادی میں شرکت کے لیے گجرات لے جانے والی جس گاڑی میںجاوید ہاشمی ، مجیب الرحمٰن شامی اور مصطفٰی صادق بیٹھے اس کے ڈرائیور خود میاں نواز شریف تھے۔ سیاسی عروج نوازشریف سے ابھی کئی سالوں کی دوری پر تھا۔ لاہور واپسی کا سفر شروع ہوا تو گفتگو فلسفیانہ ڈھب اختیار کر گئی۔ اس بات چیت میں جاوید ہاشمی، مجیب الرحمن شامی اور مصطفی صادق ہی بولتے رہے۔ ڈرائیور نے اپنی توجہ سڑک پر مرکوز رکھی۔ گفتگو کا موضوع ایسا تھا کہ جاوید ہاشمی کے خیال میں شاید نواز شریف کے پاس بولنے کے لیے مواد بھی نہیں تھا۔ لاہور تک کایہ سفر ختم ہوا اور ہم سفر زندگی کے اپنے اپنے راستوں پر گامزن ہوگئے۔ میاں نواز شریف نے عروج کی راہ پکڑی اور ایک دن وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر جا فائز ہوئے۔ایک دن یہ ہوا کہ جاوید ہاشمی اور وزیر اعظم کی ملاقات میں گجرات کے اس سفر کا بھی ذکر آگیا اور اس دوران ہونے والی گفتگو بھی۔ جاوید ہاشمی کو اس و قت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب نواز شریف نے برسوں پہلے ہونے والی گفتگوکو پوری تفصیل سے دہرایا ، یہ بھی یاد دلایاکہ کس نے کیا سوال کیا تھا اور کس نے کیا جواب دیا تھا، فلاں نکتہ کس نے اٹھا یا تھا اور فلاں دلیل کس نے دی تھی۔ جاوید ہاشمی جو اس سے پہلے نواز شریف کی قیادت کو اتفاقیہ قرار دیتے تھے‘ دل سے تسلیم کرنے لگے۔ کوئی بھی سیاستدان اپنی یا دوسرے کی کہی ہوئی بات بھولتا نہیں‘ بس اپنی ضرورت کے لیے اسے آگے پیچھے کردیتا ہے۔ وقت بدلے تو اپنے ہی ادا کیے ہوئے الفاظ کے معنی وضاحت کے نام پر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ غصے میں کہے ہوئے فقرے بوقت ضرورت پیار کا اظہار قرار پاتے ہیں تو کبھی پیار کے بول بھی ’سیاسی جدوجہد‘ کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ جاوید ہاشمی جیسے لوگ تو زندگی میں یہ کام ایک آدھ بار ہی کرسکتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے تناظر، جدوجہد، اختلاف، اعتماد ، اتفاق،حکمت عملی، مفاد ات اورخدمت جیسے الفاظ کو جو معنی پہنائے، ان کا یہ کارنامہ انہیں ماہرین فن میں شامل کرانے کے لیے کافی ہے۔ سیاستدانوں کا پسندیدہ مضمون تاریخ ہوتا ہے شاید اس لیے کہ یہ لوگ خود تاریخی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ انسان جس عمل کا خود حصہ بن جائے اسے کیسے بھول سکتا ہے۔ جو جتنے بڑے پائے کا سیاست کار ہوتا ہے اسی قدر جزئیات کو یاد رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے نواز شریف جب نو آموز سیاستدان تھے تین بڑے دانشوروں کی گفتگو کو لفظ بلفظ یا د رکھا اور اس سلوک کو بھی جو ان کے ساتھ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد روا رکھا گیا۔ انہیں حکومت چھیننے سے جلاوطنی تک ہر تفصیل ازبر ہے اور گاہے وہ اسے دہراتے بھی رہتے ہیں۔ تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را گاہے گاہے بازخواں ایں قصۂِ پارینہ را (اگر سینے کے داغوں کو تازہ رکھنا چاہتے ہو تو پرانا قصہ دہراتے رہا کرو) نواز شریف کو یہ سب کچھ تو یاد ہے‘ انہیں یہ بھی نہیں بھولاہو گا کہ کس طرح ایک منتخب وزیراعظم کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر زچ کردیا جاتا تھا۔ انہیں یاد ہوگا کہ ملک کے با اختیار وزیر اعظم کو اس لیے طیارہ ہائی جیک کرنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے اپنے ہی ملک کے ایک طیارے کو (مبینہ طور پر ہی سہی) اپنا رخ موڑنے کاحکم دیا تھا۔ اگر کوئی نواز شریف کی جگہ ہو تو کیسے بھول سکتا ہے کہ کس طرح ان کے قریبی ساتھیوں کو بلیک میل کرکے ق لیگ کے باڑے میں دھکیل دیا گیا تھا۔ نواز شریف کی ان تلخ یادوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی شریک تھیں۔ انہیں بھی یاد تھا کہ کیسے ایک وزیر اعظم کو ملک کے اہم ترین معاملات سے دور رکھنے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔ یہی سوال 2006ء میں ترتیب دیے گئے میثاق جمہوریت کی شق نمبر 13 میں ڈھل گئے جو کہتی ہے کہ پاکستان میں سچائی اور مفاہمت کے لیے ایسا کمیشن بنایا جائے گا جو 1996ء سے اب تک حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے لگنے والے زخموں کا حساب کرے گا اورملک کو پٹڑی سے اتار دینے والے واقعات کے ذمہ داروں کا سراغ لگائے گا اور پھراس کمیشن سے ابھر کر سامنے آنے والی سچائی کی روشنی میں ملک مفاہمت کی ڈگر پر چل پڑے گا۔ میثاق پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے دستخط اس بات کی ضمانت تھے کہ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے برسراقتدار آیا وہ یہ کمیشن قائم کردے گا۔ یوں یہ ذمہ داری 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کندھوں پر آن پڑی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کی دعویدار اس جماعت نے اس شق پر گزشتہ پانچ برسوں میں یوں عمل کیا کہ سچائی تو کہیں نظر نہ آئی لیکن مفاہمت کے نام پر اعانتِ مجرمانہ کا بازار گرم رہا۔ میثاقِ جمہوریت کی اس ایک شق کو نظر انداز کرکے ہم نے کارگل سے لے کر محترمہ کے قتل تک پر مفاہمت کا پردہ ڈال دیا۔ کچھ لوگ آنے والے دنوں میں سچائیاں سامنے آنے کے خوف میں مبتلا ہوکر جنرل مشرف کو پاکستان لا کر جھوٹ کا ایک نیا جھکڑ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنرل کی آمد سے پہلے ہی سچ کو چھپانے کے لیے ایک خاص منصوبے کے تحت نواب اکبر بگٹی کی شہادت اور سانحہ لال مسجد کے مقدمات ان پر قائم کیے گئے اور انہیں اتنا اچھالا گیا کہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ دو واقعات ہی جنرل مشرف کے انجام کے لیے کافی ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو واقعات کی قانونی ذمہ داری سے جنرل صاحب بآسانی عدالتوں سے اپنی صفائی کا سرٹیفیکیٹ لے کر باہر آجائیں گے۔ بظاہر ان کی گردن میں پڑا یہ پھندا قانون کے پھولوں سے سجی ایک مالا میں بدل جائے گا۔ لیکن یہ کھیل رچانے والے یہ بھول گئے کہ اگرمیثاق جمہوریت کی تیرہویں شق پر عمل نہ ہوا تو دستور کا چھٹا آرٹیکل خود کو منوانے کے لیے سامنے آجائے گا۔ دستور شکنی کی سزا کے طور پر نہیں بلکہ سچ کو چھپانے کی پاداش میں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved