تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     31-07-2018

نئی حکومت کو در پیش چیلنجز

25 جولائی کے انتخابات میں پاکستان تحریک ِانصاف نے جو بھاری کامیابی حاصل کی ہے‘ وہ کسی کے و ہم و گمان میں نہ تھی۔ خود پارٹی کے چیئر مین عمران خان کو اس کی توقع نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے پر انہوں نے ووٹرز سے بھاری مینڈیٹ کی اپیل کی تھی‘ کیونکہ قریباً تمام پولنگ سروے ایک معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ اس کے جواب میں عمران خان نے ایک معلق پارلیمنٹ کی مخالفت کی تھی اور عوام سے بھاری تائید کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ اس بھاری مینڈیٹ کے کیا محرکات ہیں‘ اس سوال کے لیے الگ بحث درکار ہے۔فی الحال‘ اہم نئی حکومت کو درپیش چیلنجز کی بات کرتے ہیںاور اس کی کیا ترجیحات ہوں گی اور در پیش چیلنجز سے عہدہ برأ ہونے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرے گی؟ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت پاکستان کو در پیش سب سے بڑا چیلنج تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ہے۔
یہ بحران پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کی صورت میں موجود ہے‘ جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور مہنگائی کا گراف اونچا جا رہا ہے‘ لیکن ماہرین کے مطابق اصل بحران اگلے ایک دو ماہ میں آنے والا ہے جب پاکستان کو لازمی بیرونی ادائیگیوں کیلئے کم از کم 16-17 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔پاکستان اپنی جیب سے یہ ادائیگیاں نہیں کر سکتا‘ کیونکہ زر مبادلہ کے ذخائر صرف 9 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ درآمدات جو کہ برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں‘ کیلئے زر مبادلہ کی ضرورت کو بھی انہی ذخائر سے پورا کرنا ہے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے اور خود تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اس طرف چند ماہ قبل اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات کے بعد جو حکومت برسراقتدار آئے گی‘ اسے سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران کی صورت میں پیش آئے گا۔ اس سے نکلنے کیلئے دو ہی راستے ہیں اور وہ پاکستان کے لیے نئے نہیں‘ماضی کی ہر حکومت ان پر چلتی رہی ہے۔ ایک یہ کہ اپنے سب سے قریبی دوست چین اور سعودی عرب کی طرف گرانٹ کیلئے رجوع کیا جائے اور دوسرا آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ دونوں صورتوں میں پاکستان کو معاشی اور سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے‘ اس نے متعدد دفعہ ایسے نازک مواقع پر پاکستان کی مدد کی ہے‘ لیکن اس نے اس کی کبھی سیاسی قیمت طلب نہیں کی‘ لیکن سعودی عرب کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ یہ ملک یمن کی خانہ جنگی اور ایران کے ساتھ محاذ آرائی میں الجھا ہوا ہے۔ پاکستانی وزارت ِخارجہ نے یمن کے بارے میں حال ہی میں جو چند بیانات جاری کیے تھے۔ ان پر قومی حلقوں میں پہلے ہی تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہماری روایتی‘ غیر جانبدارانہ پالیسی متاثر ہو رہی ہے۔
عمران خان نے قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ امکان یہ ہے کہ نئی حکومت معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے پہلے چین اور سعودی عرب سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے گی‘ لیکن چین اور سعودی عرب اکیلے پاکستان کو اس بحران سے نہیں نکال سکتے‘ اس کیلئے پاکستان کو لازمی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا‘ اور آئی ایم ایف کے فیصلے کا دارومدار امریکہ کی مرضی پر ہے۔ اسے اپنے حق میں کرنے کیلئے پاکستان کو دہشت گردی‘ افغانستان‘ بلکہ جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی کے مطابق عملی کے اقدامات کرنے ہوںگے۔پاکستان کو FATF (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی گرے لٹس میں پہلے ہی ڈال رکھا ہے‘ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کوئی ملک معاشی طور پر اپنے پائوں پر آپ کھڑا ہوئے بغیر آزاد خارجہ پالیسی نہیں اپنا سکتا۔ پاکستان بھی اس وقت مشکل صورتحال سے دو چار ہے‘ چونکہ ہم نے گزشتہ چھ دہائیوں میں آمدنی سے بڑھ کر خرچ کرتے ہوئے بیرونی قرضوں کے انبار لگا رکھے ہیں اور ان میں برابر اضافہ ہو رہا ہے‘ اس لئے ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی نہیں اپنا سکتے۔
پچھلی حکومت کے خلاف عمران خان کی چارج شیٹ میں سب سے بڑا الزام ملک پر قرضوں کا بوجھ لادنا تھا‘ اب عمران خان کی سرکردگی میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے سامنے بھی یہی مسئلہ ہو گا۔ اسے حل کرنے کیلئے نئی حکومت کے پاس کئی آپشن ہوںگے‘ مگر بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق ہماری آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن سے ہے‘ جب تک اس کو تسلیم نہیں کیا جاتا‘ پاکستان کا معاشی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ معاشی محاذ کے علاوہ نئی حکومت کو اندرونی محاذ پر بھی سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا؛ اگرچہ پاکستان تحریک ِانصاف قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے اور دیگر ہم خیال پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر مرکز میں حکومت بنا سکتی ہے‘ لیکن اتحادیوں کو ساتھ ملا کر بھی اسے ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں‘ اسی قسم کی صورتحال سینیٹ میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی اپوزیشن کے تعاون کے بغیر قانون سازی کرنے میں دقت کا سامنا کرے گی‘ اور آئین میں یک طرفہ ترمیم کا تو کوئی امکان نہیں رہا۔ اس سے آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کے وفاقی پارلیمانی ڈھانچے میں کسی بڑی تبدیلی خصوصاً 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کے خدشات دم توڑ گئے ہیں۔
بہت سے حلقوں‘ خصوصاً چھوٹے صوبوں میں اس پر اطمینان کا اظہار کیا جائے گا‘ کیونکہ انتخابی مہم کے دوران اور اس سے قبل بھی بعض حلقوں کی طرف سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی مخالفت کی جا رہی تھی اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ سینیٹ کے سابق چیئر مین اور موجودہ رکن رضا ربانی تو کافی عرصہ سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رول بیک کرنے کی سازش کا الزام عائد کر رہے تھے۔ پاکستان تحریک ِانصاف کو مرکز میں حکومت سازی کے علاوہ صوبہ پختونخوا اور پنجاب میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ بننے کا موقعہ ملے گا‘ لیکن قومی اسمبلی میں انہیں ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا‘اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف عددی لحاظ سے اپوزیشن‘ حکومت کے لیے چیلنج بن سکتی ہے ‘بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی بھاری کامیابی کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بعض اہم رہنما‘ قومی اسمبلی میں اپنی سیٹیں بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ملا کر قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن وجود میں آتی ہے ‘جس کا کافی امکان ہے‘ تو پی ٹی آئی کی حکومت کو ایوان ِزیریں میں ٹف ٹائم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
اب جبکہ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی ‘ ن لیگ کے ساتھ ملکر متحدہ اپوزیشن کا حصہ بنے گی‘ تو پی ٹی آئی اور سندھ میں پی پی پی کی حکومت کے درمیان تعلقات ایک اہم مسئلہ ثابت ہوں گے‘ کیونکہ دونوں پارٹیاں نہ صرف نظریاتی بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک دوسرے کی سخت حریف ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران میں بھی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کرتی رہیں۔ عمران خان اس بات پر یقینا خوش ہوں گے کہ مرکز میں حکومت سازی میں انہیں پیپلز پارٹی کا محتاج نہیں ہونا پڑا‘ لیکن مرکز سے بے دخل مگر سندھ میں اقتدار پر قابض ہو کر پیپلز پارٹی‘ پی ٹی آئی کیلئے زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی ویسے ہتھکنڈے استعمال کرے گی ‘جو ماضی میں مرکز پر قابض حکومتیں صوبائی حکومتوں کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس سے سندھ میں لسانی بنیادوں پر قوم پرستی کے جذبات میں اور بھی شدت آئے گی اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ پی پی کو پہنچے گا‘ کیونکہ سابق انتخابات کی طرح 2018 ء کے انتخابی نتائج بھی یہی ثابت کرتے ہیں کہ سندھی نیشنلسٹ ‘سندھی نیشنلزم کی نمائندگی نہیں کر سکے۔ عوام اب بھی پیپلز پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں‘ اور اگر عمران خان اپنے وعدے کے مطابق کرپشن کے خاتمے کے نام پر زرداری کے خلاف نیب کو متحرک کرتے ہیں تو پیپلز پارٹی بڑی آسانی سے اسے سندھ کے خلاف مرکز کی سازش قرار دے سکتی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved