تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     01-08-2018

رِندوں کی بد دعا

ان انتخابات سے اور کچھ حاصل ہو یا نہ ہو‘ ایک بات تو واضح ہے کہ جو مولوی صاحبان انتخابی میدان میں اُترے‘ ان کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ امیر جماعت ِاسلامی محترم سراج الحق کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گویا نئی منتخب قومی اسمبلی کو ان کی بصیرت افروز رہنمائی سے محروم رہنا پڑے گا۔ ا س سے بھی بڑا حادثہ حضرت مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہوا۔دو حلقوں سے کھڑ ے تھے ۔ دونوں میں پٹ کے رہ گئے ‘ جس کا مطلب ہے کہ قومی اسمبلی ان کی موجودگی سے بھی محروم رہے گی ۔ 
1977ء والی بھٹو مخالف تحریک اپنے ساتھ پتہ نہیں کیا اثر لائی ؟ ملکی تاریخ میں پہلی بار مولوی صاحبان بڑھ چڑھ کے سیاسی میدان میں سامنے آئے۔ اس تحریک کی پاداش میں ایک انوکھا مارشل لاء ملک میں نافذ ہو گیا ۔ مارشل لاء تو جنرل یحییٰ خان کا بھی تھا‘ لیکن وہ اپنی طرز کا تھا اوراس میں کئی خوشنما پہلو نمایاں تھے ۔ جنرل صاحب شغل میلے والے شخص تھے ۔صدر ہاؤس میں شام کو محفلیں بھی جمتیں اوراچھی شکلوں والے لوگ بھی ان میںپائے جاتے۔ جنرل صاحب کو ثقافت سے بہت لگاؤ تھا ‘اسی لئے ملکہ ترنم نورجہاں سے خاص قربت تھی ۔ ان کے بار ے میں ایک قصہ تو مشہور ہے کہ جب کھاریاں میں جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے ‘تو گجرات میں ایک شام جنرل رانی کو ملنے گئے اوروہاں ملکہ ترنم کے مشہور گانے ''میری چیچی دا چھلا ماہی لاہ لیا‘‘کو سننے کی فرمائش کی ۔تب زمانہ گرامو فون ریکارڈوں کا تھا اوراتفاق سے جنرل رانی کے پاس وہ مخصوص ریکارڈ موجود نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ رات گئے گانے کی تلاش شرو ع ہوئی اورپھر اس میں کامیابی ہوئی ۔ ملکہ ترنم کا سُر لگا تو جنرل صاحب کو آسودگی ہوئی ۔ 
جنرل یحییٰ خان کی ثقافتی میدان میں اور بھی بہت دوستیاں تھیں۔ ان دوستیوں تک ہی رہتے‘ تو پاکستانی تاریخ میں اُن کا ذکر نرم اوراچھے الفاظ سے ہوتا۔ اُنہوں نے جو الیکشن کروائے‘ وہ پاکستانی تاریخ میں سب سے صاف مانے جاتے ہیں ۔ ا ن انتخابات میں جو تماشا ہوا کہ ووٹنگ ختم ہوئی اورپوری رات نتائج سننے کا کوئی منظرسامنے نہ آیا۔جنرل یحییٰ کے انتخابات میں ایسا نہ ہوا۔ جونہی گنتی ختم ہوئی‘ پاکستان ٹیلی ویژن پر نتائج آنے لگے۔ جنرل صاحب بس مشرقی پاکستان کے جھمیلے میں نہ پڑتے ‘ اُس میں پڑ گئے‘ تو تباہ توہوئے ہی بدنامِ زمانہ بھی ہوگئے ۔ لوگ ان کے دور کو یاد کرتے ہیں‘ توان کے اچھے پہلوؤں کی نسبت سے نہیں‘ بلکہ مشرقی پاکستان کے المیے او ر وہاں فوج کشی کے حوالے سے ۔
بہرحال کہاںوہ مارشل لاء اورکہاں جنرل ضیاء الحق کا ۔جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پہ قبضہ کیا اوراپنی حکمرانی کو جواز بخشنے کیلئے اُنہوں نے اسلام کا جھنڈا بلند کردیا اورایسا کیا کہ پاکستانی قوم کو دوبارہ مسلمان بنانے میں مصروف ہوگئے۔ اُن کے قدرتی معاونین مولوی صاحبان ثابت ہوئے‘خاص طورپہ جماعت ِاسلامی والے۔ یہی نہیں‘بلکہ جماعت ِ اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبا جنرل ضیاء کی مارشل لاء حکومت کا ہراول دَستہ ثابت ہوئی ۔ پیپلزپارٹی والے احتجاج کرتے‘ تو اسلامی جمعیت طلبا کے نوجوان اُن پہ پہلے ٹوٹتے اورپولیس پیچھے کھڑی رہتی ۔ وہ جماعت اسلامی کا عروج تھا۔ نہ پہلے کبھی ایسے نصیب ہوا ‘نہ پھر کبھی ہوگا۔ جماعت ِ اسلامی کی بدقسمتی کہ جنرل ضیاء کو بھی بالآخر انتخابات کرانے پڑے۔ڈنڈا تو جماعت کو چلانا آتا تھا‘ لیکن ووٹ لینا اور بات تھی ۔ ڈنڈوں کی نسبت جماعت کبھی بھی ووٹوںمیں اتنی کامیاب نہ ہوسکی ‘ پھر بھی کبھی اسلامی جمہوری اتحاد کے سہارے ‘ کبھی نوازشریف سے مل کے اسمبلیوں میں کچھ سیٹیں ملتی رہیں ۔ یہ الیکشن ایسے آئے کہ وہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہوا۔ اب جماعت اپنی اصلی حالت میں آچکی ہے ۔ لاہور میں اس کے اُمیدوار الیکشن میں کھڑے ہوں ‘تو چند ہزار ووٹ بھی لے جائیں ‘تو خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔
یہ ارتقائی عمل ہے اوراسے سامنے رکھ کے کہا جاسکتاہے کہ پاکستانی سیاست آخر کار رُجعت پسندی کے اندھیروں سے نکل کے آگے کی طرف چل نکلی ہے ۔ مجموعی طورپہ مولوی صاحبان کا حشر دیکھیں‘ تواس ارتقاء کا تاثر زیادہ نمایاںنظر آتاہے ۔ ا ن انتخابات میں جو تھوڑے بہت اسلام کے حوالے سے نعرے لگے‘ وہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے آئے اوراُنہیں عوام نے کیا پذیرائی بخشی ‘ ہم جان چکے ہیں ۔ تحریک لبیّک کی بات ذرا مختلف ہے ۔اُس کے اکابرین سیاسی میدان میں نئے نئے آئے ہیں اوراُن کے نعرے بھی نئے ہیں ۔ آگے چل کے دیکھنا پڑے گا کہ تحریک لبیّک میں کتنی دیرپا جان ہے ۔ گو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رجعت پسندی کسی شکل میں آئے‘ پاکستانی عوام نے اُسے زیادہ دیر قبول نہیں کیا۔ 
نئے پاکستان کے نعرے میں ہم کچھ معنی تبھی ڈھونڈ سکتے ہیں‘ جب پرانے پاکستان کا صحیح ادراک ہو ۔ پرانے پاکستان کی خصوصیت صرف کرپشن کے حوالے سے نہیں ہے۔ کرپشن اوربددیانت قیادتوں کے ساتھ ساتھ پرانا پاکستان ‘ یعنی جس پاکستان کا ہم تجربہ رکھتے ہیں۔رجعت پسندی اورفرسودہ خیالات سے جڑا ہواہے ۔ نیا پاکستان تبھی شرمندہ ٔ تعبیر ہوسکتاہے جب کرپشن کے ساتھ ساتھ رجعت پسندی کو بھی ختم کیاجاسکے ۔ رجعت پسندی کے حوالے سے پاکستانی ووٹرز نے جو کردار ادا کرنا تھا ‘ کردیا۔ مولوی صاحبا ن کو پاکستانی ووٹرز نے مسترد کردیا۔ اب یہ عمل آگے کو جانا چاہیے ۔ جو اندھیرے ملک پہ جنرل ضیاء الحق نے مسلط کیے‘ اُنہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکمرانی تو بہتر ہونی چاہیے‘ کرپشن پہ کاری ضربیں لگنی چاہیں‘ لیکن ساتھ ہی پاکستانی معاشرے کو سوشل انداز سے زیادہ آزاد ہونے کی ضرورت ہے ۔ مذہب کے حوالے سے کھوکھلے نعروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے ۔ ہم مسلمان معاشرہ تھے اورمسلم قومیت کی بنیاد پہ ہی پاکستان معرضِ وجود میں آیا ۔ مطلب یہ کہ اگر کسی ایک چیز کو مملکت ِ خداداد میں متنازعہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ تووہ اسلام اورہمارا اسلامی تشخص ہے ‘لیکن ہم ہیںکہ بیکار کی بحثوں میں اُلجھے رہے اورغیر متنازعہ چیزوں کو متنازعہ بناتے رہے ۔ 
پی ٹی آئی کی کامیابی اس لیے ایک اچھی چیز ہے کہ اس جماعت کی نظر ماضی کی بجائے مستقبل پہ ہے ۔ اس امر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان ہندوستان کے بارے میںحقیقت پہ مبنی نکتہ نظر رکھتے ہیں ۔ اپنی پہلی تقریر میں ہی اُنہوں نے ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا ذکر کیا۔ یہ ایک خود اعتماد آدمی ہی کرسکتاتھا‘نہیں تو اگرکوئی عام سا لیڈر ہوتا‘ تو اس موضوع سے دور رہتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے بعض طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان سے بہتر تعلقات کا مطلب ہندوستان کے نیچے لگنا ہے۔ یہ کیسی منطق ہے ؟ ہمیں اپنے آپ میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ شمالی کوریا کے پاس تھوڑے سے ایٹمی ہتھیار ہیں‘ لیکن امریکہ سے برابری کی سطح پہ بات کرتاہے۔ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے‘ نہ بھی ہو پھر بھی ہندوستان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ نارمل تعلقات رکھیں ‘ آنا جانا آسان ہو ‘ تجارت کو بھی فروغ ملے اور کشمیر پہ بھی بات چیت ہو۔ کمزور قیادت ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی فضا پیدا نہیں کرسکتی۔عمران خان پہ اور جو بھی الزام لگے‘ لیکن اُنہیں کمزوری کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved